ڈیرہ اسماعیل خان شہر سے 65 کلومیٹر شمال کی جانب خیسور کے بے آب و گیاہ پہاڑوں میں ایستادہ، قلعہ کافر کوٹ، کے کھنڈرات کی مہیب خاموشی تہذیب کی عظمتِ رفتہ کی داستان بیان کرتی نظر آتی ہے۔ کم و بیش تین سو فٹ بلند پہاڑ کی چوٹی پہ بنے پُرشکوہ مندر آج بھی دیکھنے والوں کو اپنے سحر میں محصور کر لیتے ہیں۔ کچھ دیر تک کافر کوٹ کی بھول بھلیوں میں رہنے کے بعد ان سرخ پہاڑوں سے اترتے وقت مجھے یوں محسوس ہوا‘ جیسے ہم ایک طویل سفر کے بعد ماضی سے نکل کے حال کی طرف پلٹ رہے ہوں۔ ان پیش پا افتادہ بستیوں کو دیکھتے وقت ہمارے خوش گفتار گائیڈ، جب ہمیں قلعہ کافر کوٹ سے جڑی لوک کہانیاں سنا رہے تھے‘ تو کچھ دیر کے لیے ہم گیارہویں صدی کے راجہ بل کے عظیم الشان محلات کی گزری ہوئی شان و شوکت کے احساس میں ڈوب گئے۔ معروف مؤرخ رائے بہادر چرن جیت لعل نے لکھا ہے کہ ہندو راجہ بل نے 1002ء میں قلعہ ''بل اوٹ‘‘ تعمیر کرایا، ''بل‘‘ راجہ کا نام تھا اور ''اوٹ‘‘ سرائیکی زبان میں کمیں گاہ کو کہتے ہیں۔ اسی نسبت سے یہ قلعہ بلوٹ کہلایا، بعد میں مغرب سے آنے والے مسلم حملہ آوروں نے ہدف بنانے کی خاطر اسے کافر کوٹ کا نام دیا۔ چرن جیت کے مطابق ملتان کے بادشاہ قطب نگار نے دہلی کے حکمراں بہلول لودھی کی جارحیت روکنے کے لئے مکران کے بلوچوں سے افرادی قوت مانگی‘ جس کے صلہ میں شاہ نگار نے کوہ سلیمان کے دامانی علاقے دو بلوچ سرداروں، غازی خان اور سہراب خان کے حوالے کر دیئے۔ 1469ء میں سہراب خان نے پہلی بار قلعہ کافر کوٹ کو اپنا ریاستی مرکز بنایا۔ سہراب خان نے اپنے جواں سال بیٹے اسماعیل خان کی نا گہانی موت کے بعد دریا کنارے نیا شہر بسا کر اسماعیل خان کے نام سے موسوم کیا۔ یہی اب ڈیرہ اسماعیل خان کہلاتا ہے۔ پانی پت کی لڑائی سے تین سال قبل غالباً 1523 میں مغل حکمراں بابر نے بھی قلعہ کافر کوٹ کو تسخیر کرنا ضروری سمجھا۔ بلوچوں کی نو پشتوں نے اسی مرکز سے یہاں حکومت کی۔ 1750 میں احمد شاہ ابدالی نے حملہ کر کے داخلی انتشار میں الجھے بلوچوں کو باج گزرا بنا لیا۔ 1792ء میں کابل کے بادشاہ کامران درانی اسی قلعہ سے آخری بلوچ سردار نصرت خان کو گرفتار کر کے کابل لے گئے۔ کامران درانی نے نصرت خان کی تسخیر کے بعد اس خطہ کی عنان محمد خان سدوزئی کے حوالے کر دی۔ محمد خان سدوزئی اور اس کے جانشینوں نے چالیس سال تک رنگ پور کھیڑیاں کے قریب قلعہ منکیرہ میں بیٹھ کے اس علاقہ پہ حکومت کی۔ جارج ٹکر صاحب نے لکھا ہے کہ 1546 سے لے کر 1947 تک پورے پانچ سو سال تک یہ خطہ قندھار اور ملتان کے درمیان سب سے اہم تجارتی روٹ رہا۔ 1917 کے کمیونسٹ انقلاب تک وسط ایشیائی ریاستوں سے ہندوستان کی ساری تجارت اسی راستہ سے ہوا کرتی تھی۔ 1835 میں سدوزئی حکمرانوں کو شکست دے کر رنجیت سنگھ نے منکیرہ، بھکر، میانوالی اور ڈیرہ غازی خان کو براہ راست لاہور کے کنٹرول میں لینے کے باوجود ڈیرہ اسماعیل خان کو نواب محمد خان سدوزئی کے داماد حافظ احمد خان سدوزئی کے پاس رہنے دیا؛ تاہم بعد میں نواب شیر محمد کے دور میں سکھ حکومت کے جرنیل فتح خان ٹوانہ نے حملہ کر کے ڈیرہ اسماعیل خان کو سکھ سلطنت کا حصہ بنا لیا۔ اسی دور میں رنجیت سنگھ کے پوتے نونہال سنگھ نے قلعہ کافر کوٹ کی تعمیر و مرمت کرا کے اسے دوبارہ رہنے کے قابل بنایا۔ یہی اس قلعہ میں کسی حکمران کا آخری پڑائو تھا۔ سکھوںکے بعد انگریز حکمرانوں نے ان عمارات کو نظر انداز کر کے تغیرات زمانہ کے حوالے کر دیا۔
اب دست بردِ زمانہ کے ہاتھوں قلعہ کافر کوٹ اور اس سے ملحقہ عالی شان مندروں کے آثار مٹتے جا رہے ہیں۔ اس قلعہ کے شمال اور مغرب کی جانب اب بھی کچھ قدیم بستیاں موجود ہیں، خاص کر بلوٹ شریف، جہاں پیر شاہ عیسیٰ کی خانقاہ کے علاوہ ہندوئوں کے عظیم دیوتا سری کیول رام کی سمادھی موجود ہے، جہاں ہر سال ملک بھر سے ہزاروں یاتری بیساکھی کا تہوار منانے آتے ہیں۔ چیت بہار میں پیر شاہ عیسیٰ کے عرس کا میلہ بھی اس خطہ کی جاندار تہذیب کی عکاسی کرتا تھا‘ جس میں جھنگ سے لے کر میانوالی، لیہ، بھکر اور شاہ پور تک سے ہزاروں زائرین شریک ہوتے۔ 1861ء کے بعد جب انگریز نے اس خطہ کا انتظام سنبھالا تو مغربی سرحدوں سے پیشہ ور حملہ آوروں کی یلغار رک گئی۔ ایک مضبوط حکومت نے یہاں کے باسیوں کو امن اور نظم و ضبط دے کر خوف سے آزادی دلائی، جس کے بعد یہاں تجارت اور تہذیب کو بے پناہ فروغ ملا۔ اسی عہد میں ڈیرہ اسماعیل خان بین الاقوامی تجارت کا مرکز بنا۔ انگریزوں نے یہاں ٹیکس فری زون بنا کے کاروباری سرگرمیوں کو بڑھاوا دیا۔ ڈپٹی کمشنر سی لیمار نے لکھا ہے کہ اسی زمانہ میں ہندوستان کی بڑی بڑی تجارتی کمپنیوں کے برانچ آفس کلکتہ اور ہیڈ آفس ڈیرہ اسماعیل خان میں ہوا کرتے تھے۔ سماجی امن اور معاشی خوشحالی کے نتیجے میں اس خطہ کی تہذیب خوب پھلی پھولی، جدید تعلیمی ادارے اور کھیل کے میدان آباد ہوئے، تھیٹرز اور سینما ہائوسز سجائے گئے، نئے تہواروں کے علاوہ صدیوں پرانے میلوں اور مذہبی تہواروں کی نشاۃ ثانیہ ہوئی، ہزاروں سال پرانا بیساکھی کا تہوار اور سینکڑوں سال قدیم بلوٹ شریف میں چیت کا میلہ‘ جگمگانے لگے۔ چودہوان کے میلہ قالو قلندر کے علاوہ سرکاری سرپرستی میں سجنے والا میلہ مویشیاں و اسپاں کا انعقاد بھی زندگی کی رعنائیوں کا مظہر بن گیا۔ لیکن بد قسمتی سے سن اَسّی کی دہائی میں ابھرنے والی فرقہ وارانہ دہشتگردی کی لہر نے معاشرتی نظم و ضبط کو تہ و بالا کر دیا۔ برادریاں‘ جو ہمارے تعلقات میں نظم کا نام تھیں‘ بکھرنے لگیں اور نفرتوں کی لہر نے خونی رشتوں کو توڑ ڈالا۔ اسی جدلیات کی بدولت یہاں کا سیاسی اقتدار انتہا پسندوں کے قبضے میں چلا گیا۔ رفتہ رفتہ تمام اثر و رسوخ اور وسائل انہی پہ مرکوز ہو گئے، خوف اور تشدد نے ہمیں ذہنی شکست، باہمی انتقام اور غربت سے دوچار کر دیا۔ شہر پہ ایک وقت ایسا بھی آیا جب غیر معینہ مدت تک کرفیو کا نفاذ ہوا۔ ڈیڑھ سال تک موٹر سائیکل چلانے پہ مطلق پابندی اور موبائل فون سروس بند رکھی گئی۔ موٹر سائیکل سپیئر پارٹس اور موبائل فونز کی ہزاروں دکانیں بند ہو گئیں۔ موبائل اور موٹر سائیکل کے کاروبار سے وابستہ تاجروں اور مکینکس کے گھرانے فاقہ زدہ ہو گئے۔ موت کے خوف اور افلاس کے ہاتھوں نالاں ہزاروں شہری نقل مکانی پہ مجبور گئے۔ اس ماحول میں سینکڑوں گھرانے ایسے بھی تھے جن کے پاس اپنی سانسوں کے سوا کچھ باقی نہ بچا۔ مذہبی تشدد کے بڑھتے ہوئے رجحانات کا پہلا ہدف انسان، دوسرا‘ تہذیب و ثقافت اور رسم و رواج بنے۔ دیکھتے ہی دیکھتے اجتماعی حیات کے سارے رنگ بدل گئے۔ روایتی میلوں پہ مسلح جتھوں کی یلغار اور گرنیڈ حملوں نے سماجی اجتماعات کی رونقیں ماند کر ڈالیں۔ خود کش حملوں کے خوف سے وہ سیاسی سرگرمیاں بھی سمٹ گئیں‘ جو معاشرتی تنوّع کا اظہار بنتی تھیں۔ حفاظتی اقدامات کی آڑ میں شادی بیاہ کی وہ رسمیں بھی مٹنے لگیں‘ جو دکھوں سے لبریز زندگی کو حسین بناتی تھیں۔ ایک مدت تک شہر میں ڈھول کی تھاپ اور شہنائیوں کی گونج سنائی نہیں دی۔ جنازوں کے جلوسوں پہ خود کش حملوں میں سینکڑوں بے گناہوں کی درد ناک اموات نے انسانوں سے آنسو بہانے کا حق بھی چھین لیا۔ خوفزدہ لوگ اپنے پیاروں کی درد ناک موت پہ اجتماعی آہ و فغان سے کترانے لگے۔ الغرض، عمیق تشدد نے گزشتہ بیس سالوں میں غم، خوشی اور سماجیات کے ہر قرینے کو بدل ڈالا اور حفاظتی انتظامات نے شہر کو قید خانے میں بدل دیا۔ شہری پورا دن قدم قدم پہ لگے ناکوں کے ہاتھوں ہراساں ہونے لگے۔ اس طویل جنگ میں شہر کی روح تھک گئی۔ بلا شبہ اس تمدن کو دہشت گردی سے زیادہ نقصان، انتظامیہ کی بدحواسیوں نے پہنچایا۔ اب بھی کسی گلی محلے میں شادی کی تقریب میں رقص و موسیقی کی دھنیں بکھرنے لگیں تو پولیس چھاپے مار کے دلہا کو گرفتار کر لیتی ہے۔ کوئی ہے جو دم توڑتی تہذیب کو بچا سکے؟۔