اقتدار کی غلام گردشوں سے الگ ہونے کے بعد مولانا فضل الرحمن نے اپنے آبائی ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں پہلی بار طاقت کا مظاہرہ کرنے کی خاطر ملین مارچ کے نام سے جی پی او چوک پہ بڑے سیاسی اجتماع کا انعقاد کیا، جس میں قبائلی اور جنوبی اضلاع سے ہزاروں افراد شریک ہوئے۔ جلسے کے داخلی نظم و ضبط کو جمعیت کی انصار الاسلام فورس کے کارکنوں نے قائم رکھا‘ اور ضلعی انتظامیہ نے اندرون شہر کے گنجان آباد علاقے میں ٹریفک مسائل اور شہریوں کی سکیورٹی کے لیے موثر انتظامات کر کے جے یو آئی کے ملین مارچ کو بہترین سہولیات فراہم کیں۔ مولانا ان دنوں پی ٹی آئی حکومت کے خلاف جلسوں اور ریلیوں کے انعقاد کے ذریعے اپنی سیاسی قوت کو مجتمع رکھنے کے علاوہ انتخابی شکست کے مضمرات پہ قابو پانے کے لیے سرگرداں ہیں، لیکن ان کی تحریک کا اصل ہدف وہ ریاستی ادارے ہیں جو سیاسی نظام کو کنٹرول کرتے ہیں، اس مقصد کی خاطر حسب روایت انہوں نے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف یہود و نصاریٰ کی سازشوں اور ختم نبوت جیسے انتہائی حساس ایشوز کو اٹھا لیا، جن کے مضمرات مسلم معاشرے کو مزید تقسیم کرنے کا سبب بن سکتے ہیں۔ مولانا کہتے ہیں کہ پس چلمن بیٹھ کے سیاسی عمل کو مینج کرنے والوں پہ انگلیاں تو اٹھیںگی، ہم کسی ادارے کے مخالف نہیں لیکن اداروں کی خیر خواہی اور وطن سے وفاداری کے تقاضے ہمیں جمہوری انداز میں ان پالیسیوں کو ہدفِ تنقید بنانے کی اجازت دیتے ہیں‘ جن سے بائیس کروڑ انسانوں کا مستقبل وابستہ ہو۔ بے شک مولانا فضل الرحمن نے اپنی عملیت پسندی اور ذہنی لچک سے دم توڑتی مذہبی سیاست کو نئی زندگی عطا کی‘ اور مذہبی حلقوں میں ایک ایسے نظام فکر کو متعارف کرایا جو وقت کی رفتار کے ساتھ ہم آہنگ رہنے کی سکت رکھتا ہے‘ لیکن وہ ابھی پوری طرح مذہبی حرارکی کو قرون وسطیٰ کے روایتی تصورات سے نکالنے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔
مولانا نے عملی سیاست کا آغاز جنرل ضیاء الحق کی آمریت کے خلاف مزاحمت سے کیا تھا۔ وہ پہلے مذہبی لیڈر تھے جنہوں نے ایم آر ڈی جیسی سیکولر تحریک کو جوائن کر کے مذہبی سیاست کے افق وسیع کئے۔ 1999 تک وہ پوری استقامت کے ساتھ جمہوری سیاست سے جڑے رہے؛ تاہم سن دو ہزار میں انہوں نے جنرل مشرف کی روشن خیال آمریت کے ساتھ یارانہ گانٹھ کے ریاستی اداروں کی ان پالیسیوں سے استفادہ کرنے میں عار محسوس نہ کی، جنہیں آج وہ ہدف تنقید بناتے ہیں۔ قومی سیاست میں حصہ لینے والی مذہبی جماعتیں مہنگائی، بے روزگاری، سماجی نا انصافیوں اور عوامی دکھوں کے ازالے کو سیاسی ایجنڈے کا حصہ بنانے کی بجائے ان نظریاتی تنازعات کو اپنی سیاسی تحریکوں کا مواد بناتی رہیں‘ جو انتہائی سرعت کے ساتھ مذہبی جذبات کو بھڑکا کے سماجی و سیاسی نظام میں تخریب کا محرک بنتے ہیں؛ تاہم مذہبی جذبات کو بروئے کار لانے والی ایسی تحریکوں کی کامیابی کا انحصار ہمیشہ طاقت کے مراکز کی حمایت سے مشروط رہا ہے۔ ایسی تحریکوں کے ثمرات بھی دینی جماعتوں کو ملنے کی بجائے کسی اور کی جھولی میں گرے‘ لیکن دین داروں نے کبھی اس جدلیات کو سمجھنے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ 1977 کی تحریک نظام مصطفیٰ کمزور جمہوری سسٹم کو ڈی ریل کرنے میں تو کامیاب ہو گئی مگر اپنے اعلانیہ مقاصد کو سیاست کی بھول بھلیوں میں گنوا بیٹھی؛ چنانچہ خاطر جمع رکھئے، پہلے تو مولانا کی تحریک کسی کا کچھ بگاڑ نہیں پائے گی، اگر خدانخواستہ کچھ کر گزری تو اس کے نتائج اور فوائد جے یو آئی کو نہیں ملیں گے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ حالات اب بدل چکے ہیں‘ اور وقت کے تقاضے پاور پالیٹکس کو ریگولیٹ کرنے کے لیے مذہبی جذبات کے استعمال کو سود مند نہیں سمجھتے؛ چنانچہ ہر گزرتے دن کے ساتھ مذہبی جماعتوں کی ہیئت بدلتی جائے گی۔ ریاست رائے عامہ پہ اثر انداز ہونے والے دانشوروں اور علمائے کرام کی خدمات حاصل کر کے مذہبی سیاست میں ضروری اصلاحات اور دینی جماعتوں کے ان آفاقی نظریات کو مملکت کی جغرافیائی حدود میں محدود رکھنے کی سنجیدہ کوشش کرے گی، جو کرہ ارض پہ مسلمانوں کی حکمرانی قائم کرنے کی خاطر کبھی نہ ختم ہونے والی مسلح جدوجہد کا محرک بنتے ہیں۔ یہ عین ممکن ہے کہ تیونس کی اسلامی پارٹی کے سربراہ راشد الغنوشی کی طرح اگلے چند سالوں میں ہمارے دینی رہنما بھی اپنے سیاسی ایجنڈے کو مذہبی نظریات سے الگ کرنے پہ قائل ہو جائیں۔ اگر یہ ممکن ہوا تو یہی پیش قدمی قوم کی تقدیر بدلنے کے لے اہم موڑ ثابت ہو گی۔ بد قسمتی سے مذہبی جذبات سے سرشار ہر نظریاتی تحریک کی لیڈر شپ اپنی بصیرت کو معیار حق سمجھ کے انسان اور ان ابدی صداقتوں کے درمیان حائل رہی‘ جنہیں فطرتِ انسانی از خود تلاش کرتی ہے۔ دنیا میں آنے والے ہر شخص کی جبلت میں تلاش حق کی جستجو کا داعیہ موجود ہوتا ہے‘ مگر معاشرے میں موجود مذہبی تعصبات اور طبقاتی مفادات کے تقاضے اس تجسس کی رخ گردانی کر کے اسے فرسودہ روایات میں الجھا دیتے ہیں۔ یہ بات آدمیت کے خلاف ہے کہ انسانوں کو کسی خارجی مقصد کے حصول کی خاطر استعمال کیا جائے؛ تاہم عام طور پہ سیاسی طاقت کے حصول کی متمنی تحریکیں انسان کی مقدس خواہشات کے استحصال سے گریز نہیں کرتیں‘ لیکن تاریخ بتاتی ہے کہ مذہبی قیادت سیاست میں خود اپنے ہی بنائے ہوئے اصولوں کے ہاتھوں برباد ہوئی، وہ سیاسی مصلحتوں کے تحت دنیاوی طاقتوں سے سمجھوتے کرنے اور انہی خدمات کے صلہ میں مادی و مالی فوائد حاصل کر کے اپنے دینی مقاصد کو فراموش کرتی رہیں۔ اہل دانش کہتے ہیں کہ انسان کا مشترکہ مذہبی ادراک اخوت انسانی کا شعور ہے‘ لیکن سیاست کی بے رحم حرکیات میں اپنے ہی بھائیوں کا خون بہانا مباح اور اخوت انسانی کا تصور مفقود ہو جاتا ہے۔ اس سے بھی بڑھ کے مذہبی جماعتوں کے وہ منجمد نظریاتی اصول‘ جو ایک خاص مرحلہ پہ انہیں طاقت فراہم کرتے ہیں، وقت کی رفتار اور زمانے کی بوقلمونی کا ساتھ نہیں دے سکتے، بہت جلد ان کی نا قابل عمل مثالیت پسندی سیاسی مصلحتوں اور رموز حکمرانی کی عیارانہ فعالیت سے مات کھا جاتی ہے‘ اور یوں وقت کی ایک ہی کروٹ ان کے سیاسی فلسفہ کو بیکار بنا کے رکھ دیتی ہے۔ پچھلے ہزار سال میں اٹھنے والی ہر مذہبی تحریک بالآخر ایک فرقے کی صورت اختیار کر کے معاشرے کو مزید تقسیم کرنے کا سبب بنی، خاص طور پہ معتزلہ، عمالقہ اور خوارج کی ان پُر تشدد مذہبی تحریکوں نے دشمنوں کی بجائے مسلم سماج کو زیادہ نقصان پہنچایا، جو ایک مخصوص عہد کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے اٹھی تھیں۔ لیکن فعالیت پسند مذہبی تحریکوں کی بہ نسبت ان صوفیا کرام کا طریق زیادہ پُر اثر نکلا، جنہوں نے خود کو حصول اقتدار کی آرزو سے الگ رکھنے کے علاوہ اپنی ذات کی نفی کر کے ذہنی محبت، بے ریا انکساری اور حکمت کے ساتھ ابدی صداقتوں کی نقاب کشائی کی، بلا شبہ صداقت دھڑے بندی نہیں کرتی، اس لیے ان کی ہستیاں غیر متنازعہ اور کردار معاشرتی وحدت کے لیے مفید ثابت ہوا؛ تاہم جس طرح تیونس کی اسلامی جماعت نے مذہب و سیاست کے یک جا ہونے کے عمرانی فلسفہ کو ترک کر کے اسلام کی عالمگیر اخلاقی حیثیت کی راہ میں حائل سیاسی مصلحتوں کو ہٹانے میں کامیابی پائی‘ وہ بھی قابل ستائش تھی، اس جرأت مندانہ کوشش کے دور رس اثرات ان بنجر تصورات کو زرخیز بنانے میں معاون ثابت ہوں گے، جنہیں عباسی حکمرانوں کی سیاسی مصلحتوں نے ہمارے مذہبی افکار کا مستقل حصہ بنا دیا تھا۔