بھٹو ازم کی نشاۃ ثانیہ کے موضوع پہ لکھے گئے پچھلے کالم پہ تبصرہ کرتے ہوئے ایک پرانے نظریاتی کارکن نے لکھا ہے ''اگرچہ آپ نے حقائق پہ مبنی اور غیر متعصبانہ انداز میں واقعات کی تفہیم کی‘ لیکن جہاں تک بلاول کا تعلق ہے‘ وہ ذوالفقار علی بھٹو سے نہیں بلکہ اپنے دادا حاکم علی زرداری کے نظریات سے زیادہ متاثر دکھائی دیتے ہیں، یہی سوچ ان کے والد آصف علی زرداری کی دی گئی ''ربانی ترمیم‘‘ میں بھی نمایاں نظر آتی ہے۔ بلاول اٹھارہویں ترمیم سے بھی ذرا آگے جانا چاہتے ہیں۔ ہو گا یوں کہ اب بلاول بھٹو زرداری سیکولر فیڈرل ڈیموکریٹک آئین کی بحث چھیڑے گا کیونکہ بلاول، اس بنیاد پرستی کے خلاف ہے، جس کی بنیاد ذوالفقار علی بھٹو نے 1973 کے آئین میں رکھی تھی، اس لئے عنقریب دائیں بازو کے لیے بھٹو ازم قابل قبول ہو جائے گا، مجھے لگتا ہے کہ بلاول بھی اپنے والد کی طرح دادا حاکم علی زرداری (جو سندھ نیشنل عوامی پارٹی کے صدر رہے) کو فالو کر رہے ہیں، شاید اب وفاق کا مستقبل بھی سیکولر ڈیموکریسی کا متقاضی ہو کیونکہ نکّے کے ابّو نے بھی یوم پاکستان پہ ایک سلوگن ضیاء الحق کی فلاسفی سے ہٹ کے دیا، جو بنیاد پرستانہ نہیں، سیکولر لگتا تھا، پاکستان زندہ باد‘‘۔
تمام تر فکری موشگافیوں کے باوجود ہمارے لئے بھٹو کی نظریاتی اساس کو سمجھنا آسان نہیں ہو گا۔ میرے خیال میں بھٹو سیاسی زندگی میں جواہر لعل نہرو کی نقالی کرتے تھے لیکن ذہنی طور پہ ہٹلر اور مسولینی کی نسل پرستانہ اور استبدادی سوچ سے متاثر تھے؛ تاہم عملیت پسند انسان کی مانند انہوں نے بیک وقت اسلام، سوشل ازم، جمہوریت اور آمریت سے اچھا نبھا کیا، ایک ہی ذہن ہمیں بیک وقت طاقت اور خوف کی دھوپ چھائوں میں مبتلا نظر آیا، کبھی وہ جمہوریت کے پرستار اور کبھی آمریت کے ثنا خواں دکھائی دیتے تھے‘ لیکن انہیں اپنے زمانے کے تقاضوں کا ادراک ضرور تھا اور وہ جانتے تھے کہ ترقی کے لیے کیا چیز لازمی ہے، اس لئے ان کی سحر انگیز شخصیت، جو متضاد نظریات میں متغیر رہی، کی جامع توضیح ممکن نہیں، شاید وہ ٹالسٹائی کی طرح سوشل ازم، اسلام، جمہوریت اور مقدس آمریت کے تال میل سے کوئی نیا نظریۂ سیاست تخلیق کرنے کے خبط میں مبتلا تھے۔ بلاول کی شخصیت زیڈ اے بھٹو کی مانند اگرچہ کمپلیکس اور ہمہ جہت نہیں لیکن یہ سچ ہے کہ بلاول ایک سیکولر نظام سیاست کے ذریعے مذہبی انتہا پسندی کے خاتمہ اور غیر محدود صوبائی خود مختاری کو اپنی منزل سمجھ بیٹھے ہیں۔ خوش قسمتی سے حالات کا دھارا بھی ان کے رجحانات سے ہم آہنگ ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ فی الوقت نواز شریف کی غیر دانش مندانہ مزاحمتی سیاست نے جہاں عمران خان اور ان کی جماعت، پاکستان تحریک انصاف، کے لئے اقتدار کی راہ ہموار کی‘ وہاں اسی جدلیات نے پانامہ کیس کی سماعت کے دوران پیپلز پارٹی کی دم توڑتی سیاست کو بھی طاقت کے مراکز سے نئی توانائی کشید کرنے کے مواقع دیئے۔ نواز حکومت گرانے اور شریف خاندان کو بد عنوانی کے مقدمات میں پا بہ زنجیر رکھنے کے کھیل میں آصف علی زرداری نے اتنا کچھ پا لیا جو پیپلز پارٹی اپنی چالیس سالہ سیاسی جدوجہد میں بھی حاصل نہ کر سکی ہو گی۔ الیکشن کی رات مولانا فضل الرحمن سے ٹیلی فونک بات چیت کرتے ہوئے آصف علی زرداری نے بتایا تھا: ہمیں سندھ میں وہ نشستیں بھی ملیں جو پیپلز پارٹی ذوالفقار علی بھٹو کے عہد میں بھی حاصل نہیں کر سکی تھی۔ سندھ اسمبلی میں واضح اکثریت، قومی اسمبلی کی پچاس سے زیادہ نشستیں جیت کے مرکز میں ترپ کا پتا حاصل کرنے اور سینیٹ کے ایوان میں مؤثر حصہ پیپلز پارٹی جیسی زوال پذیر جماعت کے لیے پاور گیم کا نہایت معقول پیکج تھا۔ اب اس نئے بندوبست میں سب سے زیادہ محفوظ، پُر سکون اور خوش پیپلز پارٹی ہی ہے۔
نواز لیگ اپنی بقا کی جنگ میں سرگرداں ہے اور مولانا فضل الرحمن اپوزیشن کے دشت بے اماں میں تنہا آبلہ پائی پہ مجبور ہیں۔ مذہبی اور قوم پرست جماعتیں ٹٹول ٹٹول کے شکست کی تاریکیوں سے نکلنے کی کوشش میں مصروف ہیں اور افلاس کے ہاتھوں گھبرائی ہوئی قوم کی لا محدود امنگوں کی تکمیل اور ملک کو معاشی مشکلات کے دلدل سے نکالنے کی بھاری ذمہ داری تحریک انصاف کے ناتواں کندھوں پہ ہے‘ لیکن پیپلز پارٹی دل پہ کوئی بوجھ لیے بغیر اقتدار اور اپوزیشن‘ دونوں کے مزے لوٹ رہی ہے۔ اس سب سے بڑھ کے زرداری صاحب کے لاڈلے بلاول بھٹو زرداری کے لیے سیاست کی وہ تنگ راہیں کشادہ ہو گئیں‘ جو بے نظیر بھٹو کی نا گہانی موت کے بعد مطلقاً مسدود ہو گئی تھیں۔ دہشت گردی کے ''خطرات‘‘ کے باعث وہ سندھ کے علاوہ پنجاب، بلوچستان اور خیبر پختون خوا میں عوامی رابطہ مہم نہیں چلا سکتے تھے‘ لیکن اب وہ ملک کے طول و عرض میں متحرک رہنے کے لئے آزاد ہیں۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ سندھ کے وہ رہنما‘ جو کبھی پنجابی ایجنٹ کا طعنہ دے کر پیپلز پارٹی کی راہ میں کانٹے بچھاتے رہے، اب خود طاقت کے مراکز سے ہم آہنگ ہو چکے ہیں۔ سندھی قوم پرستوں کی نئی نسل پنجاب مخالف نعروں سے دستبردار ہو کے خود سپردگی کی کیفیت میں ڈھلتی دکھائی دیتی ہے۔ ایم کیو ایم کی قیادت ایسے نفیس لوگوں پہ مشتمل ہے‘ جنہیں بیٹھنے کا کہو تو لیٹ جاتے ہیں۔ سندھی قوم پرستوں کی باقیات کو ایاز لطیف پلیجو کی قیادت میں ڈیموکریٹک الائنس کی تنظیم میں مقید کر کے سندھ کی فضائوں کو پیپلز پارٹی کی قیادت کے لیے صاف کر دیا گیا۔ اب پیپلز پارٹی کی نئی لیڈرشپ اٹھارہویں ترمیم کے فرضی خاتمے کو جواز بنا کے مرکز گریز سندھی ووٹرز کی ہمدردیاں سمیٹنے میں آزاد ہے، ان کی راہ میں کوئی سیاسی رکاوٹ باقی نہیں بچی۔ اس وقت پی ٹی آئی کے علاوہ پیپلز پارٹی ہی واحد جماعت ہے جس کی قیادت اقتدار کے بل بوتے پہ بڑے جلسوں کا انعقاد کر کے رابطہ عوام مہم چلا رہی ہے۔ پیپلز پارٹی کی لیڈرشپ کے خلاف کارروائیاں علامتی محسوس ہوتی ہیں۔ ڈاکٹر عاصم کا کھربوں کی کرپشن کا مقدمہ حالات کی گرد میں گم ہو گیا۔ شرجیل میمن کے خلاف اشتہارات کی تقسیم کا کیس نہایت کمزور ہے اور آمدن سے زیادہ اثاثوں کے کیس میں گرفتار سندھ اسمبلی کے سپیکر آغا سراج درانی کے ان اہل خانہ کو خاموشی کے ساتھ امریکہ پہنچا دیا گیا، جن کے نام پہ وہ مبینہ اثاثے ہیں، جنہیں جواز بنا کے سراج درانی صاحب کو گرفتار کیا گیا‘ لیکن دوسری جانب نواز شریف اور ان کے پورے خاندان کے علاوہ شہباز شریف اور ان کی بیوی‘ بیٹیوں کے خلاف منی لانڈرنگ سمیت آمدن سے زیادہ اثاثے رکھنے کے الزام میں مقدمات بنانے کا عمل روز افزوں ہے، کم و بیش لیگ کی پوری قیادت کے نام ای سی ایل پہ ہوں گے۔ سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار، سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اور خواجہ سعد رفیق کے علاوہ خواجہ آصف سمیت نواز لیگ کے متعدد فعال رہنما مقدمات کے کبھی نہ ختم ہونے والے سلاسل میں الجھتے جا رہے ہیں۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ نواز شریف اور مریم نواز سمجھوتوں کے باوجود بھی قابل قبول نہیں ہوں گی اور شہباز شریف یا ان کے بیٹے کو مسلم لیگ کی پوری متاع غرور سرنڈر کرنے کے بعد صرف پنجاب میں سیاست کی مہلت مل سکتی ہے۔ بظاہر یوں لگتا ہے کہ مستقبل کے خاکے میں نواز لیگ کا وجود کہیں نظر نہیں آتا۔ اب تحریک انصاف کا متبادل پیپلز پارٹی بنے گی اور اسی مقصد کے لیے بلاول بھٹو زرداری کی پرموشن جاری ہے۔ آصف زرداری کا مولانا فضل الرحمن کی وساطت سے نواز شریف کو انگیج کرنا‘ اور گجرات کے چوہدریوں کے ذریعے حمزہ شہباز کو راہ راست پہ لانے کی حکمت عملی پیپلز پارٹی کے لئے آگے بڑھنے کی سکیم کا حصہ ہو سکتی ہے۔