ریاستی ضوابط کی تمام تر جکڑبندیوں کے باوجود اپوزیشن کے کہنہ مشق سیاستدان بالآخر سیاسی درجہ حرارت کو اس سطح تک پہنچانے میں کامیاب ہو گئے‘جہاں حکومتی اتھارٹی اپنی اثر پذیری کھو دیتی ہے۔13 جولائی کی عام ہڑتال کا پیغام یہی تھا کہ سیاسی کشمکش کسی خود کار عمل کے ذریعے رفتہ رفتہ معاشرے کی جزیات تک اترتی جا رہی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے‘ جیسے جو کچھ ہو رہا ہے‘ یہ کسی فطری قانون کے تحت ہو رہا ہے‘ جسے روکنا اب کسی کیلئے ممکن نہیں ہو گا اور پہلی بار کسی اعانت یا سیاسی پشت پناہی کے بغیر ہونے والی ایسی عمیق ہڑتالیں‘ کئی خطرناک رجحانات کی غماضی کرتی نظر آتی ہیں‘جنہیں ‘اگر سنجیدگی سے نہ لیا گیا ‘تو صورتحال حکومت کے ہاتھ سے نکل جائے گی۔
وکلاء اور تاجروں کے اس احتجاج کو 1977ء کی ہڑتالوں سے تشبیہ دینا بھی درست نہیں ‘ کیونکہ اس وقت ایک تو پی این اے کی تحریک میں طاقت کی ایماء شامل تھی‘ دوسرے بھٹو گورنمنٹ سات سال پہ محیط اپنے ہنگامہ خیز دور ِاقتدار میں ایسی ایمرجنسی کی بیساکھیوں پہ کھڑی رہی‘جس سے وہ اپنی سیاسی ساکھ کھو بیٹھی تھی۔ملک کے پہلے منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے پورے دورِاقتدار میں بنیادی انسانی حقوق معطل کرکے سیاسی آزادیاں محدود کررکھیں تھیں ‘جس سے سیاسی ماحول میں گھٹن بڑھتی گئی۔مسٹر بھٹو نے پوری منصوبہ بندی سے ملک کو پارٹی ڈکٹیٹرشپ کی طرف لے جانے کی کوشش کی‘ جس سے چھوٹی سیاسی جماعتوں کو بقاء کا مسئلہ درپیش ہو گیا۔اس وقت عدلیہ آج کی طرح آزاد تھی‘ نہ 184(3)کی دھار اتنی تیز ہوا کرتی تھی کہ وہ حکومتی اتھارٹی کی جارحیت کو روک سکتی۔اخبارات نہایت سست وکمزور اورمیڈیا گروپ غیر فعال تھے۔وکلاء تنظیموں سمیت تمام پریشر گروپ‘ انتظامی اتھارٹی کے سامنے بے بس دیکھائی دیتے تھے۔اس وقت حکومت کے زیرکنٹرول سرکاری ادارے سیاسی مخالفین کو نجی کیمپوں میں پابند سلاسل رکھنے اور صحافتی ناقدین کو بدترین سیاسی انتقام کا نشانہ بنا کے معاشرے میں خوف کی فضا قائم رکھنے میں بیباک ہوا کرتے تھے۔سب سے بڑھ کے مسٹر بھٹو کے سات سال پہ محیط طویل ‘مگر اعصاب شکن دور اقتدارکے اختتام پہ کروائے گئے انتخابات میں گورنمنٹ کی مداخلت اس قدر عیاں تھی کہ معاشرہ اسے ہضم نہیں کر سکتا تھا۔پروفیسر غفوراحمد نے اپنی کتاب''پھر مارشل لاء آ گیا‘‘ میں لکھا ہے ''قومی اتحاد کے نامزد امیدوارمولانا جان محمد عباسی کاغذات نامزدگی جمع کروانے لاڑکانہ پہنچے توکاغذات جمع کرانے سے قبل اسے چھ ساتھیوں سمیت گرفتار کر کے نامعلوم جگہ پہنچا دیا گیا‘کئی روز تک انہیں وکیل سے ملنے کی اجازت نہ ملی‘بلامقابلہ کامیابی پر مبارک باد وصول کرنے کی بجائے کاش! مسٹر بھٹو کو اس وقت یہ احساس ہوتا کہ یہ ان کی پہلی رسوا کن شکست تھی۔اپنے لئے یہ کارنامہ انجام دیکر وہ پارٹی کے دوسرے بدعنوان امیدواروں کو دھاندلی کی راہ دیکھا رہے تھے۔ وزیراعظم کی بلامقابلہ کامیابی کے بعد یہی کارنامہ چاروں صوبوں میں دُہرایا گیا۔ صوبوں میں کاغذات نامزدگی جمع کرانے کی آخری تاریخ 22 جنوری تھی‘ اسی دوران اعلان ہوا کہ سندھ کے وزیراعلیٰ مصطفیٰ جتوئی اور پنجاب کے وزیراعلیٰ صادق حسین قریشی بلامقابلہ کامیاب ہو گئے‘اسی طرح صوبہ سرحد (اب خیبر پختونخوا)کے وزیراعلیٰ نصراللہ خٹک اور بلوچستان کے وزیراعلیٰ محمد خان بادوزئی بھی حریفوں کے کاغذات مسترد ہونے کی بنا پہ کامیاب قرار پائے‘اس کے علاوہ سندھ میں 26 امیدوار اور بلوچستان کی کل چالیس نشستوں میں سے22 امیدواربلامقابلہ کامیاب ہو گئے‘‘۔
حتیٰ کہ بھٹو عہد کے چیف الیکشن کمشنر جسٹس ریٹائرڈ سجاداحمدجان (وسیم سجاد کے والد) نے سرکاری خبررساں ایجنسی کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں تسلیم کیا کہ '' حکومتی پارٹی کے امیدواروں کا طرز عمل انتخابی عمل کی ناکامی کا سبب بنا‘‘سب سے بڑھ کر اس وقت سیاسی تنازعات سیاسیدانوں کے مابین محدود ہوا کرتے تھے اور ریاستی اداروں‘پیشہ ور تنظیموں‘صحافتی انجمنوں اور معاشرے کے دیگر پریشر گروپوں کی سیاسی عمل اور پالیسی امور میں تلویث نہ ہونے کے برابر تھی‘اس زمانہ میں دنیا دو قطبی تھی اور چھوٹے ممالک کے معاملات میں عالمی طاقتوں کی مداخلت بھی اس قدر زیادہ نہیں ہوا کرتی تھی‘ جیسی اب ہے۔القصہ مختصر‘ اگر مقتدر قوتیں مداخلت نہ کرتی تو سیاسی تحریکوں کیلئے اس وقت بھٹو حکومت کو گرانا ممکن نہیں تھا‘ لیکن اب صورتحال یکسر تبدیل ہو چکی ہے۔
ایک تو یہاں تازہ دم منتخب جمہوری حکومت اور مقبول سیاسی لیڈر شپ برسراقتدارہے‘ دوسرے عدلیہ آزاد ہے۔عدالتوں کے ذیشان ججز پوری آزادی کے ساتھ بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ اور سرکاری اداروں کی جارحیت روکنے کیلئے مستعد بیٹھے ہیں۔دیگر پیشہ ور تنظیموں سمیت وکلاء تنظیمیں زیادہ منظم اور اتنی طاقتور ہیں کہ حکومتیں ان کی رائے کو نظرانداز نہیں سکتیں‘ایک نہایت سرعت پذیر اور بیدارمیڈیا پوری طرح فعال ہے‘ جو ریاستی پالیسیوں کی مانیٹرنگ کرکے رائے عامہ تک پہنچاتا ہے‘پھر عام شہری کی سوشل میڈیا تک رسائی نے بائیس کروڑ افرادکو باہم جوڑ کے رائے عامہ کو زیادہ طاقتور اور جارحانہ بنا دیا ہے۔غرض اس مملکت کے تمام سٹیک ہولڈرز پالیسی امور اور سیاسی معاملات پہ اثرانداز ہونے کی پوری صلاحیت پا چکے ہیں‘جنہیں نظام سیاست سے دور رکھنا یا پھر ان کے اثرات کو کم کرنا ‘اب کسی لئے ممکن نہیں رہا ۔دوسری طرف سیاسی جماعتوں کے نیٹ ورک بھی اتنے طاقتور ہو چکے ہیں کہ وہ کسی طاقت کی ایما ء کے بغیرغیرمحدود اختیارات رکھنے والے احتسابی اداروں کے خلاف مزاحمت کر سکتے ہیں‘ لیکن 1977ء میں ایسا کچھ موجود نہیں تھا‘اس وقت ملک بھر میں اتنی ہمہ جہت سیاسی مزاحمت کی جا سکتی تھی ‘نہ ایسی عمیق ہڑتال کرانا ممکن تھا ‘جیسی وسیع ہڑتال تاجروں نے13 جولائی 2019ء کے دن کروائی۔ملک کے ان بڑے شہروں کو تو چھوڑیئے‘ جہاں پررونق تجارتی مراکز اور تاجر تنظیمیں ہمہ وقت سرگرم نظر آتی ہیں۔یہاںخیبر پختونخوا کے ان دور افتادہ علاقوں میں بھی کاروبارِ زندگی بند رہا‘ جہاں تاجرتنظیمیں تھیں‘ نہ موبائل فون سروس کام کرتی ہے۔بلاشبہ اس وقت سیاسی مزاحمت ہمہ جہت اور زیادہ جارحانہ ہو چکی ہے اور حالیہ سیاسی تنازعات کی جڑیں اسقدر گہری ہیں‘ جو ریاست کے بنیادی ڈھانچہ کی چولیں ہلا سکتی ہیں؛چنانچہ اس پُرخطر اور پیچیدہ عہد میں حکومت کیلئے معاشرے کے مجموعی تعاون کے بغیر سیاسی توازن قائم رکھنا اور ریاستی امور پہ اپنی گرفت مضبوط بنانا مشکل ہوتا جائے گا۔
ادھرمسلم لیگ ن کی مریم نواز کی طرف سے ویڈیو زلیک سکینڈل نے تضادات کی دھار کو زیادہ تیزکر کے پورے سیاسی ماحول کو تصادم کی دہلیز پہ لا کھڑا کیا ہے‘ تو اس میں دوسروں کے علاوہ خود سیاستدانوں کی آزمائش کا سامان بھی موجود ہے۔یہ ایک منقسم اور خطرناک مزاحمتی عمل ہے ‘جو دو دھاری تلوار کی مانند مخالفین کے ساتھ خود سیاستدانوں کو بھی کاٹے گا اوراس کٹھالی سے صرف وہی کندن بن کے نکلیں گے‘ جن کے اندر زندہ رہنے کی طاقت موجود ہو گی۔بہرحال مریم نواز کی جارحانہ حکمت عملی کے باعث موافق ماحول اورسیاسی آزادیوں کے باوجود پیپلزپارٹی کے جواں سال لیڈر بلاول بھٹو زرداری پس منظر میں جاتے نظر آتے ہیں‘بظاہر وہ نہایت غیر محسوس انداز میں اس جدلیات سے جدا ہوتے جا رہے ہیں‘ جو ہمارے سیاسی مستقبل کا فیصلہ کرے گی‘تاہم حکومتی اتھارٹی کا پورا دباؤ‘ میڈیا کا فوکس اور رائے عامہ کی توجہ جاتی عمرہ کی طرف منتقل ہو رہا ہے۔