"AAC" (space) message & send to 7575

جمہوریت اور ہمارا اضطراب

15ستمبر کویومِ جمہوریت کے موقعہ پر جمہوریت کے متلاشی اس ملک میں کوئی تقریب منعقد ہوئی نہ کسی کو ڈیموکریسی کی برکات زیربحث لانے کا خیال آیا۔بلاشبہ عام انسانوں کے لیے جمہوریت ہمیشہ ایک پُرکشش چیز رہی ہے‘کیونکہ اس نظام میں دانا اور احمق دونوں مسرت اور طاقت میں برابر کے شریک ہوتے ہیں‘تاہم مغربی مفکرین کہتے ہیں کہ جمہوریت ہمہ وقت‘سیاسیات‘اقتصادیات اور روح میں کشمکش برپا رکھتی ہے اور یہی طاقتور جدلیات ریاستی نظام کی استواری‘سماجی نظم و ضبط کی تشکیلِ نو اور فکرِ انسانی کومسلسل ارتقا پذیر رکھ کے انسانی معاشروں کو جمود کی یبوست سے بچاتی ہے(یہ تعریف کم از کم ہم پہ صادق آتی ہے)۔بلاشبہ ہماری مملکت میں جمہوریت و مساوات کے نعروں نے ہمیشہ جمودپرور قوتوں کولرزہ براندام رکھا ‘ لیکن ہماری کم صلاحیتی کی بدولت یہ کشمکش ہمیں زندگی کی وسعتوں سے ہم آہنگ نہ کر سکی‘ بلکہ یہی جدلیات ہرآن ہمیں سیاسی استقلال اور انتظامی استحکام سے دور کرتی گئی۔
سچ پوچھئے تو آمریت و جمہوریت دونوںہمیں راس نہیں آئیں۔آزادی کے فوری بعد کمزورترین سیاسی پارٹیوں نے جمہوری آزادیوںکے مطالبات اٹھائے تو ایوب خان جیسے طاقتور آمر کو دوامِ اقتدارکی خاطر ایسے مضحکہ خیز قوانین بنانے پڑے جن سے نوآبادیاتی دور کا وہ مضبوط ریاستی ڈھانچہ کمزور ہوتا گیا‘جسے اگر برقرار رکھا جاتا تو وہ ادارہ جاتی نظام کے ارتقا کا مستقل وسیلہ بنتا۔پتہ نہیں آمر اتنے بزدل کیوں واقع ہوئے‘جن سے نحیف آوازیں بھی برداشت نہیں ہوئیں۔اگر ان کمزور آوازوں سے گھبرا کے صدرایوب خان انگریز کے بنائے ہوئے انتظامی ضوابط اور سرکاری روایات میں بلاوجہ ردوبدل نہ کرتے تو ریاست پہ انتظامیہ کی گرفت کبھی ڈھیلی نہ پڑتی۔مشرقی بنگال میں شیخ مجیب الرحمن کی عوامی بغاوت اٹھتی نہ استحصالی طبقے کے نمائندہ ذوالفقارعلی بھٹو ایسے کلاسیکی جاگیردارعوامی مقبولیت سے لطف اندوز ہو سکتے تھے‘ کیونکہ جلاؤ گھیراؤ والی یہ انبوہی سیاست جمہوری شعور میں کبھی ڈھل ہی نہیں سکتی تھی۔
ہمارے سماج میں جمہوریت کی علامت سمجھے جانے والے مسٹر بھٹو کو خود جمہوریت میں یقین نہ تھا ‘وہ پوری زندگی پارٹی ڈکٹیٹر شپ کے قائل رہے۔اگر ہم پیچھے پلٹ کے دیکھیں تو انگریزوں کے عہد میں بھی سیاسی آزادیوں اور بنیادی حقوق کے حصول کی کئی تحریکیں اٹھیں‘ لیکن اسی طاقتور نوآبادیاتی انتظامی ڈھانچے کی بدولت ان میں سے کوئی تحریک بھی برصغیر کے سماجی نظم و نسق کو منتشر نہ کر سکی ۔فیلڈمارشل ایوب کے جانشین جنرل یحییٰ خان نے بھی علامتی سیاسی تحریکوں سے گھبراکے خود کو اپنے ہی بنائے ہوئے ایل ایف او کا قیدی بنا لیا۔اگر وہ مجیب الرحمٰن کے مقابل مسلح تنظیموںکو صف آرا کر کے نسلی تصادم کو مہمیز نہ دیتے تو انگریز کے بنائے ہوئے انتظامی ڈھانچے میں اتنی طاقت موجود تھی کہ وہ چھوٹی موٹی بدنظمی کو باآسانی سنبھال لیتا۔ذوالفقار علی بھٹو نے بھی 1973ء کے آئین میں وزیراعظم کو طاقت کا سرچشمہ بنانے کی حرص میں بیوروکریسی کی انتظامی اتھارٹی کو کمزور کر کے اس شاخ کو ہی کاٹنے کی جسارت کی‘ جس پہ اس کے اقتدار کا آشیانہ رکھا تھا‘مگر افسوس کہ یہاں کوئی بھی مقبول سیاسی رہنما جمہوریت کی اخلاقی بنیادیں مضبوط کرنے کی خاطر بخوشی اقتدار سے دستبراری پہ تیار نہیں ہوا۔
جنرل ضیا الحق نے 1973ء کے آئین میں آٹھویں ترمیم شامل کر کے وزیراعظم‘صدر اور جوڈیشری کے مابین تقسیم اختیارات کی متعین حدود کو متنازعہ کر کے اس کمزور سیاسی نظام کو کبھی نہ تھمنے والی آویزش کے حوالے کر دیا۔ 1988ء سے لے کر 1999ء تک ایوانِ صدر اور منتخب وزیراعظم کے مابین کانٹے دار لڑائی لڑی گئی اور اسی نامطلوب جدلیات کی کوکھ سے نوازشریف کی صورت میں تواناسیاسی قیادت نمودار ہوئی‘جس سے جان چھڑانے کی خاطر مقتدرہ کو تیسرے مارشل لا کا سہارا لینا پڑا۔روشن خیال جنرل پرویزمشرف نے بھی موجودہ انتظامی ڈھانچے اور میسر قوانین پہ اکتفا کرنے کی بجائے غیرمحدود اختیارات کے حامل احتساب ادارے اور نئے بلدیاتی نظام متعارف کرانے کے علاوہ دہشت گردی کے تداراک کے لیے ایسے قوانین بنائے جن سے سماج کی بنیادی آزادیاں محدود ہوتی گئیں۔چینی ضرب المثل کے مطابق ہماری آمریتیں قوانین بناتے بناتے بوڑھی ہوگئیں۔جنرل مشرف نے ضلعی سطح کے بنیادی انتظامی یونٹ کو تحلیل کر کے ایسا مہمل بلدیاتی نظام متعارف کرایا جو پہلے مرحلے میں ناکام ہو گیا‘ جس کے بعدسربراہ حکومت کی نچلی سطح کے انتظامی دفاتر پہ گرفت ختم ہو گئی۔دہشت گردی کے خوف کی آڑ میں پولیس کو مطلق العنان بنا دیا گیا اورمؤثر نگرانی کی عدم موجودگی نے سروسز فراہم کرنے والے سرکاری اداروں کو بانجھ بنا ڈالا‘باایں ہمہ عدم تحفط کا احساس بڑھتاگیا جس نے ریاست کے ساتھ فرد کی وفاداری کا رشتہ کمزور کر دیا۔ دوسرا مرکزی دھارے کی سیاسی جماعتوں کو اکھاڑے سے باہر رکھنے کے نتیجے میں پیدا ہونے والے سیاسی خلا کو پُر کرنے کے لیے سندھ میں ایم کیو ایم اور خیبر پختونخوا میں متحدہ مجلس عمل کی قیادت کوشریکِ اقتدار بنا کے پاور پالیٹکس کی راہداریوں میں نئی بدعات متعارف کرانا پڑیں۔جنرل مشرف کی اسی سیاسی سکیم کے بطن سے الطاف حسین کی باغیانہ شوریدگی اور مولانا فضل الرحمٰن کی شکل میں ایک سنجیدہ سیاسی مزاحمت نمودار ہوئی جو ہرقدم اورہرمرحلے پہ سیاسی و انتظامی اتھارٹی کو سبق پڑھانے لگی۔اب وقت گزرنے کے ساتھ جمہوری مطالبات پہ مبنی ہمہ جہت سیاسی مزاحمت نے طاقت کے مراکز کو گھیر لیا ہے۔فی الوقت ملک کے کونے کونے میں انتظامی اتھارٹی کو مسلح مزاحمتی گروپوں کے علاوہ سیاستدانوں‘ڈاکٹرز‘وکلا‘کلرکوں‘اساتذہ اور ٹرانسپورٹرز کی نرم مزاحمت کا سامنا ہے‘جو ایک خاص ترتیب کے ساتھ بڑھتی ہوئی نظر آتی ہے۔
تحریک انصاف کی نوزائیدہ حکومت نے گھٹن کی اس کیفیت کو تحلیل کرنے کی بجائے اپنی پوری توجہ ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں کو دبانے پہ مرکوز رکھی ‘جس کے ردعمل میں ایک ایسی مؤثر سیاسی مزاحمت پروان چڑھتی دکھائی دیتی ہے جو با لآخر سویلین بالادستی اور آئین و قانون کی حکمرانی کے لیے درکار پختہ کار سیاستدانوںکی فراہمی کا وسیلہ بنے گی‘خاص طور پہ مسلم لیگ نواز کی لیڈر شپ جس دلیری کے ساتھ ریاستی استبدادکا سامنا کر رہی ہے‘ہماری سیاسی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔پیپلزپارٹی کی قیادت اگرچہ سندھ میں اقتدار بچانے کے آشوب میں الجھی ہوئی ہے ‘لیکن پھر بھی بلاول بھٹو زرداری‘رضا ربانی‘فرحت اللہ بابر اور کئی دیگر رہنما اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے صوبوں کو ملنے والی متنازعہ خود مختاری کے تحفظ کی خاطر مزاحمت پہ کمربستہ نظر آتے ہیں۔بلوچستان اور خیبر پختونخوا جیسے چھوٹے صوبوں کی ناتواں علاقائی جماعتیں اور شوریدہ سر سیاسی کارکن بھی قانون کی حکمرانی اورجمہورکی بالادستی کے علم اٹھا رہے ہیں‘جس طرح 2007 ء میں چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی قیادت میں ابھرنے والی عدلیہ آزادی کی تحریک میں سندھ‘بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے وکلا پیش پیش تھے‘بالکل اسی طرح آج سپریم کورٹ کے دو ججز کے خلاف صدارتی ریفرنس کے دفاع میں بھی متذکرہ بالا دونوںصوبوں کی وکلا قیادت صف ِاول میں نمایاں نظرآتی ہے۔
یہی وہ بدلتا ہوا ذہنی رجحان ہے جو بتدریج فکری وحدت میں ڈھل کے چاروں صوبوںکے جمہور پرستوں کو باہم متحدکردے گا۔اس سے تو یہی لگتا ہے کہ تمام تر مشکلات کے باوجود یہی پیش پا افتادہ سیاستدان بہت جلد اپنے آخری نصب العین کا اظہار کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔بلاشبہ جمہوریت زندگی کے انہی تصورات کی توجیح کرتی ہے اور اپنے عزم کے وسیلے سے جبریت کی طاقتوں کی تسخیر کر لیتی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں