وزیراعظم سے استعفیٰ طلب کرنے کی ڈیڈ لائن ختم ہونے کے بعد اتوار کی شب دھرنا کے شرکاء سے مولانا فضل الرحمن کا جذباتی خطاب بیم و رجا کے دومیان لڑکھڑاتی سوچ کی غماضی کر رہا تھا۔کچھ تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ مولانا ایسی بند گلی میں پہنچ چکے ہیں‘ جہاں سے واپسی ممکن نہیں‘ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس نامطلوب کشمکش نے صرف مولانا ہی کو نہیں‘ بلکہ اپوزیشن سمیت پوری ریاستی مقتدرہ کو دو راہے پہ لاکھڑا کیا ہے۔زمان و مکان کے حساب سے مولانا کا آزادی مارچ ایسی اثرانگیز سرگرمی ثابت ہوا‘جس نے التباسات کی ساری دھند صاف کر کے جمہوریت اورآمریت کے درمیاں خطِ امتیازکھینچ کے سوادِ اعظم کے سیاسی شعور کو جِلا بخشی ‘لیکن یہی مزاحمتی سرگرمی حکمران اشرافیہ کی ساکھ کوبربادکر کے عملاً حکومتی رٹ کے خاتمہ پہ منتج ہوگی۔شاید اسی امکان کو بھانپ کے مولانا فضل الرحمن کہہ گزرے کہ ''یہ ہجوم اتنی قدرت رکھتا کہ وہ آگے بڑھ کے وزیراعظم کو گرفتار کر لے‘‘۔بہرحال‘اب اس مہلک وار سے حکومت‘ اگر بچ بھی گئی تو وہ کچھ کرنے کے قابل نہیں رہے گی۔یہ سچ ہے کہ مولانا کیلئے اب واپسی کی راہیں مسدود ہیں اور اگر انہیں کوئی محفوظ راستہ نہ ملا ‘تو وہ زندگی بھر کی سیاسی کمائی گنوا بیٹھیں گے۔
لیکن دوسری طرف ملکی تاریخ میں پہلی بار کسی حکومت کے خلاف اٹھنے والی سیاسی تحریک کا سامنا مقتدرہ کو کرنا پڑے گا‘ورنہ ماضی میں ایسی صورتحال میں اسٹیبلشمنٹ نہایت آسودہ ہوتی تھی‘باہم دست و گریباں فریقین ‘یعنی حکومت اور اپوزیشن‘دونوں مقتدرہ کی حمایت کے طلبگار اور ان کی ثالثی ماننے کو تیار ہو جاتے تھے‘مگر آج صرف مقتدرہ ہی نہیں ‘سارے آئینی ادارے ایک جیسی مشکلات سے دوچار ہیں۔جب حکمران جماعت کی طرف سے اپوزیشن کو حق مانگنے کیلئے عدالت یا پھر الیکشن کمیشن سے رجوع کرنے کا مشورہ دیا گیا تو مولانا فضل الرحمن نے یہ کہہ کہ انکار کر دیا کہ سیاسی معاملات کو عدالتوں میں لے جانے کی غلطی دُہرائیں گے‘ نہ الیکشن کمیشن میں جائیں گے‘وہ الیکشن کمیشن جو پچھلے چھ برسوں میں پی ٹی آئی فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ نہ کر سکا‘ وہ عام انتخابات میں وسیع پیمانے پہ کی گئی دھاندلی جیسے پیچیدہ تنازعات کو کیسے نمٹائے گا؟اپوزیشن نئے انتخابات کا مطالبہ تو کرتی ہے ‘مگر وہ ماضی کے تلخ تجربات کے باعث سکیورٹی فورسز کی نگرانی میں الیکشن کروانے کو تیار نہیں ‘ لیکن عملاً صورت حال یہ ہے کہ الیکشن کمیشن سمیت دیگر ریاستی ادارے‘ سکیورٹی فورسز اور مقتدرہ کی مدد کے بغیر انتخابات کروانے کی طاقت نہیں رکھتے۔
مولانا فضل الرحمن‘ جب وزیراعظم کا استعفیٰ مانگتے ہیں تو ریاست کے پاس اس کا معقول جواز موجود ہے کہ وہ چند ہزار لوگوں کے دھرنا سے ڈر کے کسی وزیراعظم سے استعفیٰ کیسے لے سکتے ہیں؟اگر اس طرح حکومتیں گرانے کی روایت پڑ گئی تو یہ ملک اورخود جمہوریت کے مستقبل کیلئے مہلک ثابت ہو گی۔مولانا کو ایک بڑی شخصیت یہ مشورہ دے چکی کہ پی ٹی آئی کے پاس 171 ووٹ ہیں‘ اپوزیشن والے 172 ووٹ برابر کر لیں‘ تو وزیراعظم گھر چلے جائیں گے ‘لیکن اپوزیشن کہتی ہے کہ اس آئینی عمل کا انجام وہ سینیٹ میں سنجرانی کے خلاف عدمِ اعتماد کی تحریک کے دوران دیکھ چکے ہیں‘اس لئے عدمِ اعتماد کی تحریک کے ذریعے ڈیڈلاک کا خاتمہ ممکن نہیں۔ مقتدرہ کی طرف سے آئینی حدود میں رہ کرجمہوری عمل کی حمایت کے اعادہ کے باوجود مولانا فضل الرحمن سمیت پوری اپوزیشن کسی ضمانت پہ اعتبارکرنے کو تیار نہیں۔خود اپوزیشن پارٹیوں کے مابین بھی دھرنا میں پُرتشدد سرگرمیوںاور مشتعل ہجوم کو ڈی چوک تک لے جانے پہ اختلاف پایا جاتاہے۔نواز لیگ اور پیپلزپارٹی کی لیڈر شپ مولانا فضل الرحمن کی قیادت میں اٹھنے والی اس اینٹی گورنمنٹ تحریک کی کامیابی کو سیاسی نظام پہ مذہبی قوتوںکی بالادستی کے طور پہ دیکھتی ہے‘اس لئے دونوں بڑی جماعتیں پھونک پھونک کے قدم رکھ رہی ہیں۔مولانا فضل الرحمن کے چارٹر آف ڈیمانڈ میں آئین کی اسلامی شقوں کا تحفظ اور مدارس میں اصلاحات کو روکنا شامل ہے ‘لیکن عالمی برادری‘ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے گلو خلاصی اور ورلڈ بینک کی مالی معاونت کے عوض مدرسہ اصلاحات اور آئین میں شامل چند مذہبی شقوں میں مناسب ترامیم کا تقاضا کر رہی ہے۔گورنمنٹ عالمی اداروںکے تحفظات دور کرنے کا عہد کئے بیٹھی ہے‘اسی عہد وپیماں کو عملی جامہ پہنانے کیلئے حکومت نے ایف اے ٹی ایف کی ٹیم کو منی لانڈرنگ کی مانٹرنگ کیلئے اسلام آباد میں باقاعدہ اپنا سیکریٹریٹ کھولنے کی اجازت دی ہے۔
ادھرآئی ایم ایف کی ٹیم بھی مالی امداد کی اگلی قسط کے اجراء کی پیشگی شرائط پہ عملدرآمدیقینی بنانے کیلئے پچھلے ایک ہفتہ سے حکومتی اہلکاروں کے ساتھ مصروف ہے۔ان حالات میں تو یہی لگتا ہے کہ اپوزیشن کی سیاسی مزاحمت صرف مولانا فضل الرحمن کو ہی بند گلی تک نہیں لے آئی‘ بلکہ حکومت اور اپوزیشن سمیت پوری ریاستی مشینری کو ایسے دلدل میں اتار چکی‘جس سے نکلنے کی کوئی راہ سجھائی نہیں دیتی۔فی الوقت ملکی نظام سیاسی ڈیڈ لاک کی گرفت میں ہے۔اپوزیشن عدم اعتماد کی تحریک کے ذریعے ان ہاؤس تبدیلی کے آئینی عمل سے مایوس‘ اسٹیبلشمنٹ حکومت کی حمایت پہ مجبور‘متحارب فریقین میں ثالثی اور اس پہ عمل درآمدکرانے والی تیسری قوت ناپید‘الیکشن کمیشن نامکمل اورسیاسی تناؤ کی وجہ سے آئینی طور پہ اس کی جلد تشکیل کے امکانات معدوم۔ سکیورٹی فورسز کی نگرانی میں انتخابات کے انعقاد کو اپوزیشن مانتی نہیں ‘مگر الیکشن کمیشن سمیت تمام سرکاری ادارے‘ سکیورٹی فورسز کے بغیر الیکشن کروانے کی ہمت سے محروم ہیں۔ادھرایک ایسا مشتعل ہجوم پارلیمنٹ کے دروازے پہ بیٹھا ‘وزیراعظم سے استعفیٰ مانگ رہا ہے‘جس کیخلاف طاقت کا استعمال کبھی نہ ختم ہونے والی خانہ جنگی میں بدل سکتا ہے‘ لیکن مجمع کے دباو پہ وزیراعظم کا مستعفی ہونا حالات کو مزید خراب کرنے کاسبب بنے گا۔اگر بالفرض وزیراعظم رضاکارانہ طور پہ مستعفی ہو جائیں اور اس کے بعد اپوزیشن ان ہاؤس تبدیلی کے ذریعے کوئی مخلوط حکومت بنا بھی لے تو عالمی مالیاتی اداروں کے تقاضے کون پورے کرے گا؟کیا مولانا فضل الرحمن‘ پیپلزپارٹی اور نواز لیگ کی مخلوط حکومت کو عالمی اداروں کی ایما پہ مدرسہ اصلاحات کی اجازت دے سکیں گے؟کیا نئی حکومت‘ پچھلی گورنمنٹ کے عالمی اداروں کے ساتھ کئے گئے معاہدات کو پس پشت ڈال سکے گی؟ ہرگز نہیں! اگر عمران خان کے استعفیٰ کے باوجود بھی سیاسی بحران ختم نہیں ہوتا تو پھر ان سے استعفیٰ مانگنے کی منطق کیا ہے؟اگر کل جماعت اسلامی سمیت دیگر مذہبی قوتیں پی ٹی آئی کو ساتھ لیکر اگلی منتخب حکومت کے خلاف مزاحمت پہ اتر آئیں تو سسٹم انہیں کیسے سنبھالے‘گا‘علیٰ ہذالقیاس!یہ اور ایسے ہی کئی خطرناک سوالات ہمارے سامنے ہیں‘جن کا کسی کے پاس معقول جواب نہیں۔ہمارے خیال میں اس پورے تنازع کا سنٹر آف گرویٹی نوازشریف ہیں‘اگر ہماری حکمران اشرافیہ صرف انہیں سنبھال لیتی تواداروں سمیت سسٹم کو بچانا آسان ہوتا‘ بصورتِ دگر حالات کسی کے کنٹرول میں نہیں رہیں گے‘صرف نوازشریف ہی اس پوزیشن میں ہیں کہ وہ باآسانی آگے‘پیچھے اور دائیں‘بائیں پیشقدمی کر کے تمام سٹیک ہولڈرز کو سہولت دے سکتے ہیں۔
آپ دیکھ لیں ‘چوہدری شوگر ملز کیس میں احتساب عدالت میں پیشی کے دوران جب نوازشریف نے مولانا کے آزادی مارچ کی حمایت کی تو اسی دن یہ موہوم سرگرمی مؤثر ہو گئی‘ورنہ اس سے قبل تو یار لوگ‘ مولانا کا مذاق اڑاتے رہے۔سوئے اتفاق سے اب پھرجس دن مریم نوازکو ضمانت ملی ‘اسی دن مولانا کی پسپا ہوتی سوچ ایک بار پھر حوصلہ پا کے برسرمیدان آ گئی۔کہنہ مشق سیاستدان محمود اچکزئی نے درست کہا ہے ''نوازشریف ہی اس وقت ملک کے وہ مقبول لیڈر ہیں‘ جو پبلک سینٹی منٹ کو کمانڈ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں‘‘۔