اس عہد جدید کے انسانوں کو میسر سماجی آزادیاں چار ہزار سال پہ محیط پیچیدہ انسانی جدوجہد کا محاصل اور تہذیب کا سرچشمہ ہیں۔انسان نے جب خوف پہ قابو پا لیا تو تجسّس و تعمیری اپچ آزاد ہوئے اور وہ قدرتی طور پہ زندگی کی تفہیم اور تزائین کی طرف مائل ہوتا گیا۔شاید محسوس کرنے اور کہنے کی آزادی کا یہی رجحان ہی تہذیب و ثقافت کی تخلیق کا محرک بنا‘اسی تہذیب و شائستگی کے ادراک نے انسان کو موروثی عادات اور ابائی جبلتوں کو عقلی ہدایت کے تابع لانے کی راہ دیکھا کے اشرف المخلوقات بنا دیا۔
متھیوآرنلڈ کا کہنا ہے ''کلچر‘تعصب و تشدد سے آزادی کا نام ہے‘‘یعنی جن معاشروں میں انسانوں کے بنیادی حقوق معدوم اور سماجی آزادیاں چھن جاتی ہیں‘ وہاں تعصبات طاقتور‘تشدد فزوں تر اور تہذیب پسپائی اختیار کرلیتی ہے‘خوف وجبریت انسانی روّیوں میں بگاڑ کا سبب بنتی ہے اور مغلوب سماج مجموعی طور پہ برداشت‘عفو ودرگزر اور رواداری جیسی شائستہ اقدارگنوا دیتا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ جب بھی انسانوں کوایک متعین طرزِعمل اپنانے اورکسی مخصوص راستے پہ چلنے پہ مجبور کیا گیا‘ تو اس کی فکری‘نظری اورجسمانی آزادیاں محدود ہوتی گئیں۔یہی تحدید اس کی ذہنی ساخت اور سوچنے کے عمل کو متاثر کرتی ہے۔
علیٰ ہذالقیاس! غلامی چاہیے جس نوع کی اورجتنی بھی منصفانہ کیوں نہ ہو ‘ وہ روح کیلئے پنجرے کی حیثیت رکھتی ہے۔گویا ذہن انسانی کی صحت مند نشوو نما کیلئے بنیادی آزادیوں کا فروغ ناگزیر ہے۔مشہور مصری مصنف حسین ہیکل نے لکھا ہے کہ '' پیغمبر اسلام کی بعثت سے قبل صدیوں تک جزیرہ نما عرب کا سماج ہر قسم کی قانونی‘ریاستی اورسماجی جکڑبندیوں سے آزاد رہا‘ایک وسیع و عریض صحرا‘جہاں مکہ میں واقع ایک زیارت کے سوا‘کسی قسم کی اقتصادی کشش اورکوئی ریاستی مقتدرہ موجود نہیں تھی‘وہاں حملہ آور مہم جوئی کیلئے کیوں جاتے‘اُس زمانہ کے تقریباً تمام فاتحین شمال میں واقع شام کی خوشحال ریاست کا رخ کرتے یا پھر انتہائی جنوب کی ساحلی پٹی میں واقع ملک یمن کی تسخیرکی طرف متوجہ ہوتے؛چنانچہ عرب کے لق و دق صحرا میں پلنے والی قبائلی معاشرت ہرقسم کے بیرونی ثقافت اور بدیسی خیالات کی آمیزش سے مبرا ‘غیر ملکی فاتحین کے غلبہ‘قانونی تادیب اور ریاستی جبریت کے قہرمانیوں سے آزاد رہی۔صدیوں پہ محیط اسی لامحدود آزادی نے جہاں ان کے ذہنوں کو وسعت نظر بخشی‘وہاں بحیثیت ِ قوم ان کے اندرشجاعت‘ سخاوت‘عہد و پیمان کی پاسداری اوراپنے قول پہ کٹ مرنے جیسی عظیم انسانی صفات بھی پروان چڑھتی رہیں‘اسلام سے قبل عرب سماج ذہنی طور پہ اس قدر فعال اورتوانا ہو چکا تھا کہ ایک عام بدو مٹھی بھر ریت کو سونگھ کے صحرا کی وسعت بتانے کے علاوہ یہ بھی جانتا تھا کہ کس رفتار سے چلنے والا اونٹ کتنے دنوں میں اس صحرا کو عبور کر لے گا۔عام عربی ایک اونٹنی کو دیکھ کے اس کی سات پشتیں بتا سکتا تھا‘لہٰذا جس وقت حضورﷺ کی بعثت ہوئی تو عرب سماج بہترین انسانی صفات سے بہرورایسا طاقتور معاشرہ تھا‘ جو اس امانت علمی کو سنبھالنے کیلئے تیار تھا‘ جسے آخری نبیﷺ نے انسانیت تک پہنچانا تھا‘پھر دنیا نہ دیکھا کہ انہیں بادیا نشینوں نے قیصر وکسریٰ کی عظیم سلطنتوں کی تسخیر کے ذریعے پوری انسانیت کو مذہبی‘سیاسی اور سماجی آزادیوں کا ذائقہ چکھایا‘‘۔
شاعر مشرق علامہ اقبالؒ کے بقول ''پلتی ہے بیاباں میں ستاری و غفاری‘‘۔حکیم الامت اسی حقیقت سے واقف تھے کہ خوف کے آسیب میں پلنے والا گھٹن زدہ سماج بہت جلد ذہنی آسودگی‘ تہذیبی شائستگی اور جوہر مردانگی کھو دیتا ہے‘ایسا مقہورسماج اپنے وجود کے اندر رواداری‘برداشت‘احسان اور عفو و درگزرجیسی اعلیٰ صفات کی افزائش کا داعیہ نہیں رکھتا۔بدقسمتی سے آج جس معاشرہ میں ہم جی رہے ہیں‘ وہاں بتدریج بنیادی انسانی حقوق اورسماجی آزادیاں محدود ہوتی گئیں‘ایسا لگتا ہے کہ بلیک ہول کی مانند ہمارا تمدن اندر کی طرف سفر کرتے ہوئے جیسے سمٹ رہا ہے۔
انگریز کے زمانے میں لوگوں کو جتنے قانونی و سماجی حقوق اور ذہنی آزادیاں میسر تھیں‘آزادی کے بہتر سالہ سفر میں ہم سے وہ بھی چھن گئیں۔ 1977ء تک اجتماعی حیات پرامن اور شخصی زندگی نہایت آسودہ تھی؛اگرچہ مساجد میں بہت کم لوگ جاتے اور عام لوگوں کی بود وباش بھی مذہبی نہ تھی‘ لیکن بازاروں میں بغیر ملاوٹ کے اشیائے خوردنی سستے داموں مل جاتیں‘دکاندار پورا تولتے‘رشوت اور سفارش نہ ہونے کے برابر اور دفتری نظام ڈلیور کر رہا تھا۔اس وقت تک جان و مال کے لٹ جانے اور افلاس کا خوف سایہ فگن نہیں ہوا تھا‘فعال سماجی دھارا ہموار انداز میں بہتا تھا۔موسمی میلوں اور روایتی تہواروں میں زندگی کا بھرپور اظہار ملتا تھا‘کھیل کے میدان پوری طرح آباد تھے‘ کشتی‘ کبڈی‘ گھڑ دوڑ‘ کتا دوڑ اور نیزہ بازی جیسے روایتی کھیلوں کے علاوہ سکولز کالجز اور یونیورسٹیز کے طلبہ میں ہاکی‘فٹ بال‘کرکٹ والی بال‘بیڈمنٹن‘ٹینس اورٹیبل ٹینس جیسی جدیدگیمز مقبول تھیں۔رمضان کی شب بیداریاں‘عید کی مناجات اورمزارات کے سالانہ عرس‘ زندگی کی تلخیوں کے ستائے لوگوں کیلئے روح کی بالیدگی کا وسیلہ بنتے۔گرمیوں کی راتوں میں شہروں کے لوگ چارپائیاں ڈال کے گلی کوچوں میں بے خوف سو جاتے‘کراچی جیسے گنجان آباد شہر میں ہزاروں مزدور فٹ پاتھوں پہ چین کی نیند سو لیتے تھے۔غریبوں کیلئے سنیما‘مڈل کلاس کیلئے تھیٹرز اور امراء کیلئے کلبز آباد تھیں‘پوراسماج ذہنی طور پہ صحت مند اور جسمانی طور پہ توانا تھا۔معاشرہ شہ زوروں‘سورماوں اور دلیرانہ انداز میں زندگی کی بازی لگانے والوں بہادر جوانوں کو عزت واحترام کی نظر سے دیکھتا تھا۔
عام لوگوں کی آمدنی اس قدر معقول تھی کہ ایک کلرک حلال کی کمائی میں باآسانی اپنے بچوں کو میڈیکل یا انجینئرنگ کروا لیتا‘مڈل کلاس کا دائرہ وسیع اور امیر و غریب کے درمیان تفاوت کم تھا۔رسم و رواج کی پاسداری پورے سماج کو باہم جوڑ لیتی تھی۔ برداشت‘درگزر اورایثار جیسی سنہری اقدار کی بدولت مذہبی رواداری قائم تھی‘تاہم 1979ء کی افغان وار کے بعد ہمارا سماج بدلنے لگا‘ریاستی مقتدرہ کی تزویری پالیسی نے سیاسی آزادیوں کو محدود اور سماجی تہواروں کی حوصلہ شکنی کو شعار بنا لیا‘عسکری تنظیموں کو خام مواد کی فراہمی کی خاطر انتہا پسند جماعتوں نے رسم و رواج‘میلوں ٹھیلوں اور تہواروں کو ہدف تنقید بنا کے اجتماعی زندگی کی رنگینوں کو ماند کر ڈالا۔ان تنظیموں کو اپنانے والے نوجوانوں کی قابل ذکر تعداد ازخود سماجی آزدیوں کو ترک کر کے زندگی کے اجتماعی دھارے سے جدا ہوتی گئی۔مسلح تحریکیں بزور قوت سیاسی پالیسیوں پہ اثر انداز ہونے کی کوشش میں ریاست کی رٹ کو چیلنج کرنے لگیں‘بعض گروہوں نے تشدد کو ہوا دیکر معاشرتی تنظیم کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔مایوس رہنماؤں نے نسلی‘لسانی اور علاقائی تعصبات کی آبیاری کے ذریعے انسانوں کوتقسیم کر کے سماج کو مزید کمزور کر دیا۔
الغرض رسم و رواجات اور سماجی اقدار کی گرفت ڈھیلی پڑی تو معاشرتی بندھن ٹوٹنے لگے اورانتظامی اتھارٹی کے اضمحلال کی وجہ سے قانون کی حکمرانی معدوم ہوتی گئی‘جس کے نتیجہ میں باہمی بداعتمادی‘عدم تحفظ‘بھوک کا خوف اور بے یقینی کی تاریکی بڑھ گئی۔رفتہ رفتہ کھیل کے میدان سنسان‘موسمی تہوار‘سماجی وظائف اورمیلوں ٹھیلوں کا انعقاد محدود ہوتا گیا‘خوف کی بدولت لوگ مذہبی‘نسلی اور علاقائی تعصبات میں پناہ لینے لگے‘ جس سے تشدد فزوں تر اور تہذیب پسپا ہونے لگی ۔یہ ہماری تہذیبی پسپائی نہیں تو اور کیا ہے؟