اس وقت مرکزی دھارے کے ذرائع ابلاغ سمیت سوشل میڈیا کا بڑا حصہ مخصوص زاویہ سے کورونا وبا کے سدباب کی خاطر اٹھائے گئے اقدامات کوموضوع ِ بحث بنا کے لاشعوری طور پہ سیاست کی نئی جہتیں تراشنے میں مشغول ہے‘اس لیے قومی سیاست رفتہ رفتہ اس بحران میں کئے گئے حکومتی فیصلوں کے ارد گرد استوار ہوتی دکھائی دیتی ہے؛ اگرچہ بظاہرمعمول کی سیاسی سرگرمیاں معطل ہیں ‘لیکن کچھ غیر معمولی تبدیلیوں کے ساتھ جس قسم کی نئی سیاسی جدلیات ابھر رہی ہے‘ وہ بڑی تبدیلیوں کا پیش خیمہ بن سکتی ہے۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کورونا وائرس کی وبا سے پیدا ہونے والی صورت ِحال قومی سیاست کو نئی اساس دینے والی ہے۔
بلاشبہ اس وقت پوری دنیا کورونا وبا کے تدارک کی خاطر عالمی اداروں کی ہدایات کی پیروی میں مصروف ہے‘یعنی کورونا وبا نے اس دنیا کو عملاً گلوبل ولیج کی صورت میں ڈھال لیا ہے‘ لہٰذا ممکن ہے کہ یہی وبا ئی خوف‘ مستقبل میں دنیاکو انسانیت کی خاطر باہم قریب لاکر گلوبلائزیشن کے خواب کی تعبیر بن جائے‘تاہم خوف کے اس حصار میں پہلی دراڑ مشرقی یورپ کے ملک بیلاروس کے صدر نے یہ کہہ کر ڈالی کہ '' حکومت لاک ڈاؤن کرے گی ‘نہ ہم باہر سے آنے والوں کو روکیں گے‘‘۔
Belarus is the only country that has not imposed any precautionary measures against the new type of coronavirus.Recently, Belarusian President Aleksandr Lukashenko displayed an iron calm, saying, "The most important thing is not to panic."(DAILY SABAH)
اس کے بعد سویڈن نے بھی لاک ڈاؤن انکار کر دیا۔کرغزستان کی حکومت نے لاک ڈاؤن کیا‘ نہ پولیس کے حفاظتی حصار بنائے‘ بلکہ وہاں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں لفظ کورونا وائرس کے استعمال پہ پابندی عائد کر دی گئی‘صرف گورنمنٹ کی ویب سائٹ پہ کورونا بارے مصدقہ معلومات موجود ہیں‘اگر کوئی چاہے تو دیکھ سکتا ہے۔بے شک وبا یا موت کوئی ایسی چیز نہیں ‘جسے خار دار تاروں کی باڑ لگا کے روکا جا سکتا ہو‘ بلکہ موت ایسی اٹل حقیقت ہے‘جس سے گریز ممکن نہیں۔بیلاروس کے صدر نے جس جرأت کے ساتھ وبا کے خوف کو ٹھکرایا‘کسی زمانہ میں یہی دلیرانہ روش مسلمانوں کا شیوا تھی۔حیرہ کے قلعہ کی تسخیر کے بعد بوڑھے عیسائی راہب عمروبن المسیح کو جب خالد بن ولید ؓکے سامنے پیش کیا گیا‘ تو ان کی جیب سے زہر کی پڑیا نکلی۔حضرت خالد بن ولیدؓ نے پوچھا '' اسے ساتھ کیوں لائے ہو؟‘‘۔اس نے کہا ''اس خیال سے کہ اگر آپ میری قوم کے ساتھ بُرا سلوک کریں تو میں زہر پھانک کے مرجاؤں‘مگر اپنی قوم کی ذلت و تباہی نہ دیکھوں‘‘۔حضرت خالد بن ولیدؓ نے اس پڑیا سے زہر نکال کے ہتھیلی پر رکھی اور کہا '' بے موت کوئی نہیں مرتا‘اگر موت کا وقت نہ ہو تو زہر بھی کچھ اثر نہیں کرتا‘‘۔ یہ کہہ کر خالد بن ولیدؓ نے ''بسم اللہ خیر الاسماء رب الارض والسماء ‘‘کے کلمات ادا کرکے وہ زہر پھانک لی‘ بوڑھے عیسائی نے خدا پہ اعتقاد کا یہ منظر دیکھا تو ششدر رہ گیا۔
بہرحال‘اس وقت چین‘روس اور ایران سمیت اکثر مملکتیں ڈبلیو ایچ او کی طرف سے مرتب کردہ ایس او پیزکی پیروی میں اپنی بقاء تلاش کر رہی ہے‘تاہم مصنوعی عالمی ہم آہنگی کے اس ماحول میں جدا گانہ پوزیشن لے کر وزیراعظم عمران خان نے بھی خود کو ممتاز کر لیا۔ وزیر اعظم عمران خان نے آنکھیں بند کر کے لاک ڈاؤن کرنے کے فیصلہ کو پسند نہیں کیا۔اس حوالے سے وہ اپنے تحفظات کا برملا اظہار کرنے سے بھی نہیں ہچکچائے۔وزیراعظم عمران خان اگرچہ ریاست کی اجتماعی خواہش (Collective Will)کے احترام میں ایسے فیصلوں کو طوعاً و کرہاً قبول کرلیتے ہیں ‘لیکن کچھ چیزوں کو وہ اپنی دلیرانہ سوچ کے مطابق ‘ڈھالنے میں کامیاب بھی ہوئے ہیں۔انہوں نے موقف اختیار کیا کہ وہ کسی ایسے فیصلہ کو قبول نہیں کریں گے‘ جس سے شہری مبتلائے غم ہوں‘خاص کرجن اقدامات سے لیبرکلاس کی دکھوں سے لبریز زندگی مزید تلخ ہو جائے۔کابینہ کے پہلے اجلاس میں وزیراعظم عمران خان نے روزمرہ ضروریات کی ترسیل کرنے والے گڈز ٹرانسپورٹ کے اجرا کا فیصلہ کیا اور دوسرے اجلاس میں تعمیراتی انڈسٹری کی بحالی کا فیصلہ کر کے غریبوں کے مصائب کم کرنے کی کوشش کی۔انہوں نے خود ماسک‘دستانے اور خوف کی علامت بننے والے حفاظتی کلچر کو نہیں اپنایا۔ وزیر اعظم عمران خان کا یہ دلیرانہ طرزِ عمل قوم کو حوصلہ دینے کا سبب بنا؛بلاشبہ اس بحران میں وزیر اعظم عمران خان قومی لیڈر بن کے ابھرے ہیں۔
دوسری طرف سیاست کی اس الٹ پھیر میں اپوزیشن جماعتیں‘بالخصوص پی پی پی نے عوامی امنگوں کی بائیں جانب کھڑے ہو کر اپنی جمہوری ساکھ گنوا دی۔ وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے عاجلانہ انداز میں سخت فیصلے کر کے عام لوگوں کے دکھوں میں اضافہ کرنے کے علاوہ مذہبی طبقات کو بھی ناراض کردیا۔حصول ِاقتدار کی ہوس سے ممّلو ان تلخ فیصلوں نے صرف کراچی میں چالیس لاکھ سے زیادہ مزدوروں کو بھوک کے جہنم میں دھکیل دیا۔اندرون سندھ میں پولیس اورانتظامیہ نے علما کرام کو ہراساں کرنے میں بھی عار محسوس نہ کی۔ہرچند کہ یہی تمام کام حکمت اور نرمی سے بھی انجام دیئے جا سکتے تھے‘ لیکن سندھ گورنمنٹ نے طاقت کے نظام میں اپنی جگہ بنانے کی خاطر زندگی کے بہتے دھارے کو روکنے کی جسارت کر کے ایسی فاش غلطی کر ڈالی‘جس کی آئندہ انتخابات میں اسے بھاری قیمت چکانا پڑے گی۔مسلم لیگ نواز کی لیڈر شپ نے تو اس سے بھی بدتر حالت میں دوسروں کے ناگوار فیصلوں کے وبال کو گلے میں ڈال کے اپنی جماعتی سیاست کو برلب گور لا کھڑا کیا۔بظاہر یوں لگتا ہے کہ نواز لیگ کے کارکنوں اورقیادت نے ووٹ کو ''عزت دو‘‘ تحریک کے دوران جو گراں قدر قربانیاں دیں اورابتلا کے ایام میں ثابت قدمی کا مظاہرہ کر کے پارٹی کیلئے جو عزت کمائی تھی ‘ میاں شہباز شریف کی بیک ڈور ڈیلومیسی نے ان ساری قربانیوں کو رائیگاں کر دیا ہے۔افلاطون نے سچ کہا تھا کہ ''جو لوگ طلب و اکتساب ِزر کے خُوگر ہوں‘ وہ حکمرانی کے قابل نہیں رہتے‘‘۔البتہ مولانا فضل الرحمن نے قدرے محتاط طرز ِعمل اپنا کے اپنے لئے تمام آپشن کھلے رکھے۔مختصر وقفہ کے بعد جب انہیں پورے کھیل کی سمجھ آگئی تو وہ مذہبی قوتوں کے جذبات کے ترجمان اور مصائب میں گھرے عوام کی آواز بن کے سامنے آئے۔خاص طور پہ اپنے حلقہ'' نیابت‘‘ کے عوام کی مشکلات کو مخاطب کر کے پسے ہوئے طبقات کے دل جیت لئے۔ دیکھئے کہ اس کورونا وبا کی ستم کاریوں نے پہلی بار وزیراعظم عمران خان اور ان کے شدید ترین مخالف مولانا فضل الرحمن کو ایک ہی پوزیشن پہ لا کھڑا کیا ہے۔موجودہ سیاسی ماحول میں یہی دونوں رہنما عالمی اسٹیبلشمنٹ کی پالیسی لائن سے ہٹ کے اپنی مذہبی و سماجی اقدار اور معاشی ضروریات کے دائروں میں رہتے ہوئے کوروناوبا کا مقابلہ کرنے کی تدبیر کے قائل ہیں۔
بہرحال‘اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ کورونا وبا کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے بحران کی آڑ میں وہ پی ٹی آئی حکومت کا تختہ الٹ دیں گے‘ تو یہ ان کی بھول ہو گی۔پہلے تو موجودہ حالات میں ایسا ممکن نہیں اور بالفرض محال ایسی کسی مساعی کی نتیجہ میں وزیر اعظم عمران خان کی حکومت گرا دی گئی تو عوامی ہمدردی کی طاقتور لہر خان صاحب کو زیادہ مقبول بنا دے گی۔