پولیس آرڈر 2000ء کی منظوری کے ذریعے اس امید پہ پولیس کو جوابدہی کے روایتی نظام سے ماورا کرکے وسیع اختیارات دیئے گئے کہ یہاں سیاسی مداخلت سے آزاد ہو کے فرینڈلی ماحول میں اعلیٰ سطح کی مہارت پہ مبنی ایسی مثالی پولیسنگ متعارف کرائی جائے‘ جس میں شہریوں کے جان و مال اور آبرو کا تحفظ یقینی بنایا جا سکے۔دوسری طرف ہماری سیاسی اشرافیہ نے اس عظیم مقصد کے حصول کی آڑ لے کر انسانی تاریخ میں پہلی بار کسی فورس کو اپنے ہی اختیارات کے تعین اور جوابدہی کا میکنزم خود تشکیل دینے کا موقعہ فراہم کیا‘ لیکن بدقسمتی سے پولیس نے لامحدود اختیارات سمٹنے کے باوجود سروس ڈلیوری اور جوابدہی کے اپنے ہی تیار کردہ میکنزم کو دانستہ کند بنا کے فلسفہ قانون کی روح کو اجاڑ ڈالا۔
ستم بالائے ستم یہ کہ اب ‘ہماری مملکت میں اس المیہ پہ لب کشائی کرنے والا بھی کوئی نہیں بچا؛حتیٰ کہ صوبوں کے انتظامی سربراہوں سمیت قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے وہ ممبران‘ جنہوں نے ان قوانین کو منظور کر کے معاشرے کی کمر پہ دوہرا بوجھ ڈالا تھا ‘عوامی مصائب کی جانب آنکھ اٹھا کے دیکھنے کو تیار نہیں؛اگرچہ کسی ایکٹ کا دیباچہ نہیں ہوتا ‘لیکن پولیس ایکٹ 2017ء کے مصنف سابق آئی جی ناصر درانی نے پولیس ایکٹ 2017ء کے فخریہ پرولاگ میں خود لکھا کہ ''ہم نے اس ایکٹ میں دیگر سرکاری اداروں کی جانب سے پیش کی گئی تمام ترامیم کو مسترد کردیا‘‘۔مسٹر ناصر درانی نے پولیس ایکٹ کے پانچ بنیادی ستون متعین کئے‘جن میں پہلا‘سیاسی غیرجانبداری‘جو کماحقہ حاصل کر لی گئی‘یہاں تک کہ اب‘ پولیس نظام میں صوبہ کے وزیراعلیٰ کا کردارمحض علامتی نگرانی تک محدود ہوگیا‘ کوئی وزیر‘مشیر اور ممبر اسمبلی انہیں چیک نہیں کر سکتا۔دوسری‘ آپریشنل اٹانومی‘پولیس نے اپنی داخلی کمانڈ کو ریگولیٹ کرنے کی خاطر کامل خود مختاری پا لی‘صوبائی لیول پہ آئی جی پی اورضلعی سطح پہ ڈی پی او کو ماتحت اہلکاروں کی پوسٹنگ ٹرانسفرز کا حتمی اختیار مل گیا۔حیرت انگیز طور پہ بائیس گریڈ میں کام کرنے والا آئی جی(جو اکثر خود بھی اکیس گریڈ کا ہوتا ہے) 21 گریڈ کے ایڈیشنل آئی جی کو وزیراعلیٰ سے مشورہ یا پیشگی اجازت لئے بغیر جب چاہیے تبدیل کر سکتا ہے؛ حالانکہ کسی بھی صوبہ کا چیف سیکرٹری اٹھارہ گریڈ سے اوپر کے کسی بھی افسر کی وزیراعلیٰ سے پیشگی منظوری کے بغیر تبدیلی نہیں کر سکتا۔
2000ء تک آئی جی پی‘ ہوم سیکریٹری کے ماتحت ہوا کرتا تھا‘ لیکن اب‘ وہ چیف سیکریٹری‘ بلکہ وزیراعلیٰ کو بھی جوابدہ نہیں؛اگرچہ آج بھی پولیس کا ایڈمنسٹریٹو ڈیپارٹمنٹ‘ہوم ڈیپارٹمنٹ ہی ہے ‘لیکن آئی جی پی نے بربنائے عہدہ حکومت سے سیکریٹری(Ex officio Secretary) کے پاور لیکر غیر محدود مالیاتی خود مختاری بھی حاصل کر لی۔ابھی حال ہی میں یہاں ڈی پی او نے دو ماہ کے اندر تھانہ سٹی میں چار اور کینٹ تھانہ میں سات ایس ایچ اوز تبدیل کر کے ریکارڈ قائم کر دیا۔تیسرا‘جمہوری احتساب۔پولیس ایکٹ 2017ء کے اس تیسرے ستون‘جمہوری احتساب کے تحت عوام کو پولیس اہلکاروں کی زیادتیوں سے بچانے کی خاطر پبلک سیفٹی کمیشن کا قیام ناگزیر تھا‘ لیکن پولیس کی لیڈر شپ نے دانستہ روڑے اٹکا کہ پچھلے بیس برسوں سے پبلک سیفٹی کمیشن کے قیام کو ناممکن بنا دیا۔پولیس ایکٹ 2017ء کی ملکیت کی دعویدار پولیس آگے بڑھ کر سیفٹی کمیشن کا قیام ممکن کیوں نہیں بناتی؟۔حیران کن طور پہ کسی نے بھی پولیس ایکٹ 2017ء کے تحت پولیس کو حاصل لامحدود اختیارات کو عدالت میں چلینج نہیں کیا ‘لیکن ''بعض‘‘لوگوں نے اُس پبلک سیفٹی کمیشن کے خلاف عدالتوں سے حکم امتناعی حاصل کرلئے ‘جس میں پولیس سے جوابدہی کا نظام اور عوام کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کے ازالہ کا میکنزم شامل تھا‘اسی سے واضح ہے کہ پولیس والے عوام کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کے ازالہ کا کوئی قانونی طریقہ کار قبول کرنے کو تیار نہیں۔
کچھ عرصہ قبل صوبائی حکومت نے ہر ضلع کے ڈپٹی کمشنر کو پبلک سیفٹی کمیشن کا سیکریٹری بنانے کی تجویز پیش کی تو پولیس بپھر گئی‘کوئی بتا سکتا ہے کہ جس ایکٹ کے تحت پولیس نے لامحدود اختیار حاصل کر لئے ‘اسی ایکٹ کے تحت پچھلے بیس برسوں میں پبلک سیفٹی کمیشن کیوں نہ بن سکا؟ریاستی مقتدرہ کی طرف سے دانستہ بنیادی انسانی حقوق کی خلاف وردی پہ معزز عدلیہ(ہائی کورٹ) کو ازخود نوٹس لینا چاہیے تھا۔
واضح رہے کہ مذکورہ پولیس ایکٹ کا چوتھا ستون !پیشہ ورانہ مہارت کا فروغ ہے‘ جبکہ پولیس کے نفسیاتی رویے میں پروفیشنل اپروچ اور تفتیش کے طریقہ ٔ کار میں وہ خصوصی مہارت ہمیں کہیں نظر نہیں آتی‘ جس کا اس ایکٹ میں پوری شد ومد سے چرچا کیا گیا ہے۔
بدقسمتی سے پولیس آج بھی پبلک مینجمنٹ میں روایتی طرزِ عمل کا مظاہرہ اور تفتیش میں وہی فرسودہ طریقے آزما رہی ہے‘ جو پچھلے ڈیڑھ سو سال سے پولیس سسٹم میں رائج چلے آ رہے تھے۔اس ایکٹ کا پانچوان ستون‘پولیسنگ میں عوامی شراکت تھی۔ اسی مقصد کو پانے کیلئے پولیس نے مصالحاتی کمیٹیوں کا ایسا مہمل نظام متعارف کرایا ‘جو عملاً پولیس کے روایتی مدگاروں کی پناہ گاہ اور متوازی عدالتی نظام میں بدل گیا‘جس میں وسیع عوامی تلویث کے کوئی آثار دکھائی دیتے ہیں‘ نہ مصالحتی کمیٹیوں کے ممبران کو پولیس کے کام کی شفافیت اور قانونی کی عملداری کوجانچنے کی اجازت ہے ‘کیونکہ یہ پورا نظام مشاہدہ اور تجربات کی مہارت سے عاری ایسا بے بنیاد طریقہ کار تھا جس کا سوانگ محض عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے رچایاگیا۔
ہیومین رائٹس واچ نے جنوری 2020ء کی رپورٹ (Police abuse and Reform in Pakistan) میں لکھا ہے کہ عوامی سروے اور حکومتی احتساب و تدارک کرنے والے اداروں کی اطلاعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ اب بھی پاکستان میں پولیس کے خلاف شہریوں کو خوفزدہ کرنے کی شکایات سب سے زیادہ ہیں۔ پولیس ہی سب سے کم عوامی اعتماد کا حامل ایسا سرکاری ادارہ ہے‘ جس میں جوابدہی کے واضح نظام کی کمی اور اعلیٰ سطح پہ بدعنوانی چھائی ہوئی ہے۔ضلعی سطح کی پولیس مقتدر سیاستدانوں‘دولت مند زمینداروں اور معاشرے کے طاقتور افراد کے زیر اثر ہے۔ پولیس کے خلاف جرائم پیشہ افراد کے ماورا عدالت قتل‘زیر حراست افراد سے پرتشدد طریقوں سے اعتراف جرم کرانے‘ہراساں کرنے اور زیادتی کے متعدد واقعات سامنے آئے ہیں۔ہیومین رائٹس کمیشن کی جنوری2014ء اور مئی 2018ء کے دوران چار سال بارے تیار کی گئی رپورٹ میں ملک بھر میں 2117 پولیس مقابلوں میں 6610 مرد‘23 خواتین اور12 بچوں کے مارے جانے کی جو تفصیل ملتی ہے‘ اس میںصرف کراچی میں مبینہ پولیس مقابلوں میں3345 شہریوں کے ہلاک ہونے کا ذکر شامل ہے۔
پچھلے بیس برسوں میں تھانہ کلچر کی قباحتیں مزید گہری ہوئیں‘ملک بھر میں جرائم کی شرح بڑھ گئی اورشہریوں کے خلاف پولیس زیادتیوں کی شکایات کے ازالہ کا کوئی قانونی ضابطہ کار موجود نہیں ہے۔بی بی سی اردو جیسے عالمی نشریاتی ادارے نے رپورٹ کیا ہے کہ چند دن قبل سوشل میڈیا پہ پولیس کے خلاف مزاحیہ پوسٹ شیئر کرنے کی پاداش میں ڈیرہ اسماعیل خان پولیس نے رات کی تاریکی میں چھاپہ مار کے ایک چودہ سالہ نوجوان کو گرفتار کرکے کم سن بچے اور اس کے والدین کو اذیت ناک عمل سے گزارا‘جس کا کسی اتھارٹی نے نوٹس نہیں لیا۔