دنیا میں معاشی اور نظریاتی بنیادوں پر تیزی سے تشکیل پاتی نئی عالمی صف بندیاں کسی نئے عہد کی تمہید دیکھائی دیتی ہیں۔ لیبیا کی سول وار میں الجھی ہوئی عیسائی اور مسلم مملکتیں کسی بھی وقت نئی صلیبی جنگوں کا نقارہ بجا کر شورش کی آگ کو پورے یورپ تک پہنچا سکتی ہیں۔گویا مڈل ایسٹ کی راکھ سے اٹھنے والی چنگاریاں بہت جلد روشن خیال یورپ کے عشرت کدوں تک پہنچ سکتی ہیں۔جرمن چانسلر انگیلا مرکل نے درست کہا کہ بحیرہ روم کی مشرقی جانب مڈل ایسٹ کی بدامنی‘مغربی مملکتوں کو کبھی چین کی سانس نہیں لینے دے گی۔ حالیہ دنوں عالمی طاقتوں نے اپنے معاشی اور تزویری مفادات کے پیش نظر لیبیا کے سیاسی تنازع کو کبھی نہ تھمنے والی پراکسی جنگوں کی جدلیات میں بدل کر اسے دوسرا شام بنانے کی شعوری کوشش کی۔تیل کے وسائل پہ تصرف پانے کی خاطر 2011 ء میں نیٹو کی فضائی طاقت استعمال کر کے کرنل معمر قذافی کی حکومت گرانے کے بعد وہاں سیاسی عدم استحکام کی جو لہر اٹھائی گئی وہ بظاہر اب پیچیدہ شکل اختیار کرکے پورے یورپ کو اپنی لپیٹ میں لینے والی ہے ۔قذافی آمریت کے بعد وہاں یو این او کی چھتری تلے کمزور مینڈیٹ کی حامل مختلف سیاسی جماعتوں کی جو مخلوط حکومت بنائی گئی وہ لیبیا کی حاکمیت اعلیٰ کے تحفظ میں کامیاب نہیں ہو پائی؛چنانچہ داعش جیسے کئی مسلح گروہوں نے تیل کے ذخائر سے بھرے مشرقی علاقوں پر قبضہ جما لیا۔حسب ِمعمول پڑوسی ملک مصر نے گیارہ سال سے امریکہ میں بیٹھے منحرف جنرل خلیفہ ہفتارکی کمانڈ میں فوجی مہم کے ذریعے داعش کا صفایا کر کے لیبیا کی مشرقی بندرگاہ سے ملحقہ علاقوں میں متوازی حکومت کھڑی کر دی جسے یو اے ای‘سعودی عرب‘فرانس‘جرمنی اور کسی حد تک روس کی پشت پناہی مل گئی۔جنرل ہفتار نے تین بار طرابلس پر چڑھائی کی کوشش کی جسے السراج نے ترکی کی مدد سے ناکام بنایا۔لیبیا کے تنازع میں امریکی مقتدرہ کا کردار التباسات کی دھند میں مستور ہے‘ وہ یو این کی حمایت سے بنی منتخب حکومت کی حمایت کریں تو سعودی دوست ناراض ہوتے ہیں‘ اگر جنرل ہفتار کے باغی گروہ کی طرفداری کریں تو یو این کا ادارہ بے توقیر ہو جائے گا؛چنانچہ ٹرمپ انتظامیہ نے بظاہر خود کو اس تنازع سے لاتعلق رکھا ہوا ہے‘ تاہم صدرڈونلڈ ٹرمپ نے باغی جنرل ہفتار کو ٹیلی فون کر کے''انتہاہ پسندوں‘‘کے خلاف ان کی کارروائیوں کی تعریف کرکے لیبیا کی شورش کو بڑھاوا دینے میں حجاب محسوس نہیں کیا۔
مغربی ذرائع ابلاغ کے مطابق متحدہ عرب امارات فضائی مدد کے علاوہ جدید ہتھیاروں کی فراہمی کے ذریعے جنرل ہفتار کی مدد کر رہا ہے اور سعودی اسے نہایت فراخ دلی سے فنڈ مہیا کرتے ہیں جبکہ فرانس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ منحرف جنرل کو بڑے پیمانے پر فوجی امداد دیتا ہے۔گزشتہ سال ایل این اے کے ایک اڈے پہ فرانسیسی میزائل پکڑے گئے تھے‘ تاہم فرانس سرکاری سطح پہ ہفتار کو اسلحہ دینے کی تردید کرتا ہے۔روس پر الزام یہ ہے کہ اس نے لیبیا میں کرائے کے فوجی تعینات کر رکھے ہیں۔دوسری جانب ترک پارلیمنٹ نے جنوری کے آغاز سے لیبیا میں فوجی مشن بھیجنے کی منظوری دی جس کے بعد انقرہ نے پہلے طرابلس کی طرف دفاعی مشیر روانہ کئے‘اب طیب اردوان نے کہا ہے کہ وہ فوجیوں کی تعیناتی کے ذریعے لیبیا اور تیونس پہ کنٹرول بڑھائیں گے ‘تاہم مصری صدر جنرل سیسی نے کہا ہے کہ اگر ترکی نے ریڈ لائن کراس کی تو مصر لیبیا میں فوج داخل کر دے گا۔ترک گورنمنٹ پہلے بھی طرابلس کو ڈرون جیسے سازوسامان مہیا کر چکی ہے اور ایسی اطلاعات بھی موصول ہوئی ہیں کہ شام کے کئی جنگجو گروہوں نے لیبیا کی السراج گورنمنٹ کی حمایت میں لڑنے کی خاطر ترکی کی وساطت سے معاہدہ کرلیا ہے۔
ان حالات میں بدامنی کے ستائے ہوئے لیبیا کے ہزاروں باشندے سمندری راستوں سے یورپ کی طرف نقل مکانی کر رہے ہیں‘ لیکن حیران کن طور پر لیبیا بحران کے حوالے سے نیٹو ممالک یکسو نہیں ہو سکے۔ لیبیا تنازعہ میںچین کی پالیسی بھی واضح نہیں ‘تاہم جرمنی‘اٹلی اور روس کی طرف سے بات چیت کے ذریعے مسئلے کا حل تلاش کرنے کی متعددکوششیں نتیجہ خیز ثابت نہیں ہو سکیں۔امر واقعہ یہ ہے کہ فرانس اور جرمنی سمیت یورپ کے اکثر ممالک جو لیبیا کے تیل پہ انحصار رکھتے ہیں‘ جنہیں مشرقی کوسٹ کے تیل سے لبریز علاقوں پہ قابض جنرل خلیفہ ہفتار کی حمایت کے عوض مناسب مقدار میں سستا تیل مل رہا ہے‘سول وار کے یہ بینیفشری خانہ جنگی کو دوام دینے کی خاطر تنازعات میں توازن چاہتے ہیں ‘لیکن براعظم ایشیا اور یورپ کے سنگم پہ واقع ترک گورنمنٹ لیبیا کی خانہ جنگی کو اپنے لئے نظریاتی گنجائش پیدا کرنے کا بہترین موقعہ تصور کرتی ہے ‘ جبکہ طیب اردوان اس جنگ کو یورپ کے اندر تک دھکیلنے کی کوشش میں سرگرداں نظر آتے ہیں۔ترک صدر کی ایما پر السراج گورنمنٹ نے دائیں بازو کی سخت گیر جماعت اخوان المسلمون کو شریک ِاقتدار کیا تو ترکی نے طرابلس حکومت کو بچانے کی خاطر نہ صرف اپنے ڈرون بھجوائے بلکہ فرانس کی جانب سے باغی جنرل خلیفہ ہفتار کو سمندری راستوں سے اسلحہ کی سپلائی بھی روک دی گئی۔ابھی حال ہی میں ترک نیوی نے لیبیا کی مشرقی کوسٹ کی طرف جانے والے اسلحے سے لدے فرانسیسی جہاز پر حملے کی دھمکی دے کر اسے واپس جانے پہ مجبور کر دیا جس پہ سیخ پا ہو کر فرانسیسی صدر نے دھمکی دی کہ ترکی آگ سے کھیل رہا ہے۔طیب اردوان نے لیبیا کی السراج حکومت کے ساتھ معاہدہ کر کے بحیرہ روم کے پانیوں پر اپنے پرانے دعوے کی تجدید کر لی ہے جس کے بعد ترکی کے لئے سمندر سے تیل نکالنے کی راہ ہموار ہونے کے علاوہ قبرص اور یونان کا معاشی محاصرہ کرنا بھی آسان ہو جائے گا۔سلطنت ِعثمانیہ کا وارث ترکی اب بھی لیبیا‘مصر اور لبنان کے علاوہ ان تمام ممالک کو اپنی علامتی خلافت کا جُز سمجھتا ہے جو ماضی میں کبھی عثمانی خلافت کا حصہ رہے۔ مسجد آیا صوفیہ کی بحالی کے ذریعے اس نے یورپی ممالک کو یہ پیغام دیا کہ وہ کھلی جنگ کے لئے تیار ہیں۔آیاصوفیہ پہ تصرف کی علامتی حیثیت وہی ہے جیسی پہلی جنگِ عظیم کے دوران اگست 1920ء میں فرانسیسی جنرل ہینری جوزف گیراڈ نے دمشق کی فتح کے بعد صلاح الدین ایوبی کی قبر پر ٹھوکر مار کر کہا تھا : Awake, Saladin. We have returned. My presence here consecrates the victory of the Cross over the Crescent.۔ جنرل گیراڈ کے ان توہین آمیز الفاظ نے مسلمانوں کے دل چیر کے رکھ دیئے تھے۔بلاشبہ آج مسجد آیا صوفیہ کے علامتی معنی بھی یہی ہیں کہ صلیب کے فرزندو جاگو کہ مسلمان پھر آ رہے ہیں۔
بلاشبہ اہلِ یورپ نے آیا صوفیہ پہ تصرف کے ذریعے بھیجے گئے پیغام کو سمجھا لیکن اس وقت وہ جنگ کے متحمل نہیں تھے۔یورپ کی اشرافیہ نے کبھی سوچا بھی نہیں ہو گا کہ اسرائیل کی تخلیق‘جو مڈل ایسٹ کے مسلمانوں کے لئے تباہی کا پیغام لائی تھی‘سے پھوٹنے والی لامتناہی کشمکش بڑھ کر با لآخر فرنگیوں کے اپنے خرمن کو جلانے کا ذریعہ بن جائے گی۔فطرت کی سکیم میں ایسا ممکن نہیں کہ تشدد سے بھری اس دنیا میں کہیں امن کے جزیرے قائم کر کے کوئی پُرسکون زندگی گزار سکے۔پچھلے سو سالوں میں بحیرہ روم کے مغربی جانب پھیلے براعظم یورپ میں تاحد ِنظر زندگی کی رعنائیوں سے لبریز دلکش تہذیب پھلی پھولی ‘لیکن اس کے برعکس بحیرہ روم کی مشرقی طرف تیل کی دولت سے مالامال مڈل ایسٹ میں استبدادی ریاستوں کے جمود کی یبوست اورکبھی نہ ختم ہونے والی کشیدگی نے دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں کو اجاڑ کے رکھ دیا‘ لیکن اب مڈل ایسٹ کی یہی غیر مختتم شورش روشن خیال یورپ کے دروازے پہ دستک دینے والی ہے۔ہمارے خیال میں لیبیا کی خانہ جنگی میں ترکی کی مداخلت مڈل ایسٹ کے مقدر کو بدل سکتی ہے۔اگرچہ مغربی طاقتیں ترکوں کی پیشقدمی روکنے کی خاطر سخت مزاحمت کریں گی لیکن قرائن بتا رہے ہیں کہ اس کشمکش میں آخری فتح مسلمانوں کو حاصل ہوگی۔