"AAC" (space) message & send to 7575

نئی دہائی کا سیاسی اضطراب

اگر 2010ء کی دہائی جنگوں، بد نظمی اور انتشارکی دہائی تھی تو پیش گوئی ہے کہ 2020ء کی دہائی حکومت مخالف مظاہروں سے لبریز ہو گی، خاص طور پر مشرق وسطیٰ کے سیاسی منظر نامہ پہ غیر یقینی سایہ فگن نظر آتی ہے۔ مڈل ایسٹ کی تیل پیدا کرنے والی ریاستوں کو معاشی اور معاشرتی اصلاحات کے نفاذ میںہمہ جہت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ عالمی معاشی بحران کے تناظر میں توانائی کی برآمدات پر انحصار کم کرنے جیسے چیلنجوں سے نمٹنے کے علاوہ عمرانی معاہدوں میں یک طرفہ تبدیلیوں کے باعث نوجوانوںکا حکومتی اداروں سے اعتماد اٹھ گیا جس سے مطلق العنان حکومتیں دباؤ میں ہیں، اب جب نئی دہائی کا آغاز سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ جیسے استبدادیت کے حامی حکمران کی جگہ جوبائیڈن جیسے جمہوریت پسند حکمران کی آمدسے ہو گا تو اضطراب کی نئی لہریں ضرور جنم لیں گی کیونکہ ٹرمپ کے برعکس بائیڈن جمہوری اقدار اور بنیادی آزادی پر زور دیں گے۔ جوبائیڈن کے اسی طرزِ عمل کے باعث مشرق وسطیٰ، شمالی افریقہ اور پاکستان کا ماحول عوامی مظاہروں سے گونج سکتا ہے۔
اس دہائی کا آغاز پوری دنیا میں احتجاج کے ذریعہ کیا گیا، چلی میں طلبہ کی ریلیوں سے لے کر وال سٹریٹ پر قبضے کے علاوہ‘ جکارتہ میں ایندھن کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف مظاہروں تک‘ نئے سیاسی تمدن کے امکانات نمایاں ہوئے۔ 2011ء میں عوامی شورشوں نے الجیریا، سوڈان اور لیبیامیں حکومتوں کا تختہ پلٹا۔ 2012ء میں چلی میں احتجاج کی لہر نئے آئینی نظام کیلئے ووٹ ڈالنے پہ منتج ہوئی۔ 2018ء میں حزبِ اختلاف کی جماعتوں نے پاکستانی حکومت کے جواز کو چیلنج کیا جبکہ نسل پرست پولیس والوں کے ذریعے سیاہ فام شہری کا قتل امریکا میں پُرتشدد مظاہروں کا سبب بنا۔ ایسا لگتا ہے کہ پچھلی دہائی کی مانند رواں دہائی میں بھی سیاسی فضا مضطرب رہے گی۔ 
تیل اور گیس کی مارکیٹوں کی فوری بحالی کے امکانات نظر نہیں آتے اس لئے کمزور معیشتوں کی حامل وہ خلیجی مملکتیں‘ جنہوں نے بڑی تعداد میں پناہ گزینوں کی میزبانی کی یا پھر وہ ریاستیں جنہیں توانائی کی قیمتوں کے خسارے کا سامنا ہے‘ ڈگمگاتی رہیں گی۔ نوجوانوں کی اکثریت والے ممالک آزادی کے نعروں سے لرز اٹھیں گے، جہاں کورونا وبا سے قبل سہولتوں کی حالت پریشان کن تھی‘ وہاں اب ملازمتوں اور دیگر سہولتوں کی فراہمی کے مطالبات زور پکڑیں گے۔ عالمی بینک کے مطابق دنیا کے وہ ممالک جہاں نوجوانوں کی تعداد زیادہ تھی‘ وہاں بے روزگاری مزید بڑھی۔ 2011ء میں 1.90 ڈالر فی کس روزانہ آمدن والے ممالک میں غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی تعداد 8 ملین تھی جو بڑھ کر 28 ملین ہوگئی۔ 2015ء میں یہ تعداد 3.8 فیصد بڑھی اور2018ء میں غربت کی شرح دوگنی ہو گئی۔ خلیج کی ریاستیں تیزی سے بدلتی رائے عامہ سے خائف ہیں‘ انہیں معلوم ہے کہ چلنے والی نئی ہواؤں کا رخ کس طرف ہو گا۔ ماہرین کہتے ہیں کہ اگرچہ انسانی معاشرے انفرادی اخلاقیات اور اقدار کی پاسداری کو اہمیت دیتے ہیں لیکن رائے عامہ‘ خاص طور پر نوجوانوں کی سوچ کو بدلنے کی خاطر عرب حکمراں انہیں غیر معمولی سہولتیں دینے کی کوشش میں سرگرداں ہیں۔ امارات اور سعودی عرب کے حکمران معاشرتی پابندیاں نرم کر کے زیادہ پیشہ ورانہ طرزِ عمل اپنانے کے مواقع پیدا کر رہے ہیں۔ ایک سروے کے مطابق عرب یوتھ کے رائے دہندگان میں سے دوتہائی کا خیال تھا کہ مذہبی اداروں کی ضرورت باقی نہیں رہی؛ اگرچہ وہ بنیادی مذہبی تصورات پر سوالات اٹھا رہے ہیں لیکن اس سب کے باوجود وہ مذہب کو اپنی شناخت کا سب سے طاقتور عنصر سمجھتے ہیں۔ بغاوت کے بعد سوڈان کے نوجوانوں نے مذہب پر مبنی حکمرانی سے اس لئے رجوع کر لیا کہ صدر عمر البشیر وسیع پیمانے پر بدعنوانی کے مرتکب ٹھہرے تھے؛ تاہم نئی حکومت اگر نوجوانوں کی امیدوں پر پورا نہ اتری تو مذہب آج بھی کسی نئی سیاسی تحریک کا محرک بن سکتا ہے۔ اگر عبوری حکومت شہریوں کو بنیادی سہولتوں کی فراہمی اور بدعنوانی سے نمٹنے میں کامیاب رہی تو عوام مذہب میں اصلاحات کے تصورکو قبول کر لیں گے بصورت دیگر عوامی پریشانیاں یونہی باقی رہیں تو مذہبی رہنماؤں کا ایک نیا گروہ ان مقاصد کے حصول کے لئے نئی تحریک اٹھانے میں کامیاب ہو جائے گا۔
ادھر توانائی سے مالا مال خلیجی ممالک کی حکومتوں نے انفراسٹرکچر اورعوامی فلاح و بہبود کے منصوبوں میں سرمایہ کاری کم کر دی ہے۔ مئی 2020ء میں دبئی چیمبر آف کامرس نے مستقبل کے مسائل کی پیش گوئی کرتے ہوئے کہا: امارات کے 70 فیصد کاروباری ادارے اگلے چھ ماہ میں اپنے دروازے بند کردیں گے کیونکہ تیل کی کم شرح نمو معیشت کو نڈھال کر دے گی۔ خلیج اور مشرق وسطیٰ کی دیگر ریاستوں میں وبائی مرض کے بعد معاشی بحالی تکلیف دہ اور زیادہ پیچیدہ ہونے کے علاوہ علاقائی تنازعات میں الجھی رہے گی۔ الجیرین، سوڈانی، لبنانی اور عراقی شہریوں کی مانند خلیجی عوام کی سوچ جمہوری آزادیوں کی طرف مائل ہو گی۔ مصر، لیبیا اور یمن کے مظاہرین نے 2011 ء کی ناکام بغاوتوں سے یہی سبق سیکھا کہ وہ حکومتوں کے خاتمے کے بعد بھی احتجاج جاری رکھیں گے، اب وہ سیاسی نظام کی مکمل نگرانی پہ مصر ہیں، اسی لئے لیبیا اور سوڈان میں گورننگ کونسل تشکیل دینا پڑی، الجزائر کے عوام نئے آئین پر ریفرنڈم کرانے میں کامیاب ہوئے۔ لبنان اور عراق میں مظاہرین نے فرقہ وارانہ بنیادوں پر قائم سیاسی ڈھانچے کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا جس نے دونوں ممالک کے سیاسی نظام کو مفلوج کر رکھا ہے۔ 
ماہرین کہتے ہیں کہ سیاسی تبدیلی کیلئے جوان نسل کی ضرورت پڑتی ہے اس تناظر میں کسی بھی معاشرے میں سب سے خطرناک گروہ نوجوان مرد ہیں جن کی فطری جارحیت کو پیداواری و تعمیری عمل میں بروئے کار لانے کے مواقع اگر پیدا نہ کئے جائیں تو وہ تباہ کن راستوں کی طرف راغب ہو جاتے ہیں۔ عرب حکومتوں نے طویل عرصہ تک جمہوری اور مؤثر اداروں کا ارتقا روکے رکھاجس سے سیاسی و سماجی عمل کا توازن بگڑ گیا، اس خلا کو وہاں آج شدت سے محسوس کیا جارہا ہے، ان مملکتوں میں کوئی قابل اعتماد ادارہ باقی نہیں بچا جو مؤثر انداز میں لوگوں کے مطالبات سن سکے، اسی لئے ان کا انجام واضح نہیں؛ چنانچہ بحر اوقیانوس کے ساحل سے لے کر وسطی ایشیا تک پھیلا خطہ بین الاقوامی امن کے لئے خطرہ رہے گا، علی ہٰذا القیاس۔
جیسے 1970ء کی دہائی میں امریکی صدر جمی کارٹر کی انسانی حقوق کے لئے حمایت نے شاہ ایران کے خلاف مزاحمت کو فروغ دے کر ایران میں انقلاب کی راہ ہموار کی‘ اسی طرح صدر جوبائیڈن کی جمہوری آزادیوں کی بحالی کی پالیسی مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں بڑے پیمانے پر عدم اطمینان کی لہر اٹھا سکتی ہے۔ امریکی صدر براک اوباما اور ان کے نائب جو بائیڈن نے تقریباً ایک دہائی قبل 2011ء میں عرب میں ہونے والی عوامی بغاوتوں کو سنبھالنے کی کوشش کی۔ ان کے ناقدین الزامات عائد کرتے ہیں کہ اوباما کی پالیسیوں کی بدولت مصر میں اخوان المسلمین اقتدار حاصل کرنے کے قابل ہوئی، اخوان المسلمون کے عروج نے ایسی انقلابی سوچ کو جنم دیا جس کے نتیجے میں مصر میں فوجی بغاوت، لیبیا، شام اور یمن میں خانہ جنگی کا آغاز ہوا؛ چنانچہ اہل دانش اسی سے استدلال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ انسانی حقوق کی حمایت امریکی مفادات کی قیمت پر نہیں ہونی چاہئے۔ بائیڈن انتظامیہ مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں ممکنہ طور پر جاری احتجاج کو کس طرح سنبھالے گی؟ حقیقت یہ ہے کہ رائے عامہ کے حالیہ سروے نے یہاں ایسے نوجوان کی تصویر کھینچی جو 2011ء والی امید ہار چکا ہے، اگر وہ مستقبل کے امکانات سے مایوسی نہیں بھی تو حکمراں اشرافیہ کی معاشرتی اور معاشی مسائل حل کرنے کی صلاحیت کو مشتبہ سمجھتا ہے۔ اس سے بدامنی کی پیشگوئیاں زیادہ حقیقی نظر آتی ہیں لہٰذا آنے والے عشرے کا سبق یہی ہے کہ احتجاج کی لہروں سے جنم لینے والے سیاسی تغیرات، دن، مہینوں یا سال تک محدود نہیں رہیں گے بلکہ یہ ایک طویل الاثر عمل ہے جو اگلی کئی دہائیوں پرمحیط ہو جائے گا۔ 2011ء میں بغاوت اور اختلافِ رائے کے عالمی دور کی شروعات کا سنٹر آف گرویٹی عرب بغاوتوں کو قرار دیا گیا، ممکن ہے کہ 2020ء کی دہائی کے یہی مظاہرین زیادہ نازک نتائج برآمد کر لیں‘ قطع نظر اس بات کہ عوام یا بالادست طبقات میں سے کون غلبہ حاصل کرتا ہے‘ دونوں صورتوں میں بدترین عدم استحکام معمول بننے کا امکان ہے۔ اس صورت حال کے تدراک کے لئے عوام اور حکومتوں کو نئے معاشی، سیاسی اور معاشرتی نظام پر متفق ہونا پڑے گا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں