عالمی و داخلی حالات کے تناظر میں بساطِ سیاست پہ جس سرعت کے ساتھ تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں، اس سے پون صدی پہ محیط سیاسی تصورات کا وہ جمود ٹوٹ رہا ہے جس نے طویل مدت تک سماج کی مجموعی ذہنی فضا کو اپنی گرفت میں لیے رکھا۔ آج سیاستدانوں، سول سوسائٹی، جوڈیشری، بیوروکریسی اور پولیس فورس سمیت ہر شعبۂ زندگی میں جس نوع کی نت نئی سوچیں کروٹیں لیتی ہیں یہ انہی ہمہ گیر تغیرات کا اعجاز ہو گا جو ساون کے بادلوں کی مانند ہمارے سروں پہ منڈلا رہے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ چند جوہری تبدیلیوں کیلئے ہمارا معاشرہ اندر سے تیار ہو چکا ہے اور اسے اپنے مضطرب داخلی احساسات کے اظہار کیلئے خارج سے جس اپیل کی ضرورت تھی‘ وہ پکار بھی اب فضائوں میں گونجتی سنائی دیتی ہے۔ گویا حیاتِ اجتماعی اب ایک نئے لباسِ مجاز میں جلوہ افروز ہونے کو بیتاب ہے۔
عام خیال یہی تھا کہ ہمیشہ کی طرح اس بار بھی طویل اور تھکا دینے والا عدالتی عمل جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی برطرفی پہ منتج ہو گا لیکن دس رکنی بینچ کے نظرثانی درخواستوں پہ فیصلے نے نظامِ عدل کی نئی جہتوں کی نشاندہی کرکے سوچ کے روایتی دھارے کو بدل ڈالا، جس سے یہ امید بھی پیدا ہو گئی کہ اب ہماری تخلیقی صلاحیتیں ایک دوسرے کو ردّ کرنے کے بجائے ایک ڈگر پر گامزن ہو جائیں گی۔ اسی لئے شاید سپریم کورٹ کا یہی فیصلہ ہائی کورٹس سمیت ماتحت عدالتوں کو طاقتوروں سے باز پرس کی جرأت عطا کرنے کے علاوہ سابق ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن کے ان حیرت انگیز انکشافات کا محرک بھی بنا ہو گا جنہوں نے ایوانِ اقتدار کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ بشیر میمن پہلے بھی حکومت کے خلاف اسی طرح کی لب کشائی کرتے رہے لیکن سپریم کورٹ کے فیصلے سے پیدا ہونے والی مخصوص فضا میں ان کے الزامات کے مفاہیم کچھ زیادہ سنگین دکھائی دینے لگے ہیں۔ ممکن ہے کہ بہت جلد ہمیں ایسی مزید آوازیں بھی سنائی دیں۔
سیدنا عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا تھا ''اگر تم چپ رہے تو پتھر چِلّا اٹھیں گے‘‘ بلاشبہ اس عمیق اضطراب کی کیفیت میں مبتلا سماج کو زیادہ دیر تک خاموش رکھنا ممکن نہیں ہو گا، سوشل میڈیا پہ جن تباہ کن رجحانات کو پذیرائی مل رہی ہے اگر اُنہیں بروقت مینج کرنے کی فکر نہ کی گئی تو ایسی بیباک لہریں ریاست کے مجموعی ڈھانچے کو گزند پہنچا سکتی ہیں اور امر واقعہ بھی یہی ہے کہ اس کایا کلپ میں سوشل میڈیا کی وساطت سے تیزی سے پروان چڑھتی اُس رائے عامہ کا کردار نہایت اہم ہے جس نے ہمہ وقت مقتدرہ کی سرگرمیوں کی نگرانی جاری رکھی۔ لاریب! اگر نظامِ عدل اپنے بنیادی ڈھانچے کے اندر توازن پیدا کر لے تو تقسیمِ اختیارات کا آئینی فارمولہ جلد مؤثر ہو جائے گا لیکن اس خواب کی تعبیر اس وقت تک ممکن نہیں ہو سکتی جب تک اداروں اور قومی سیاست میں اخلاقی قوت کے حامل ایسے کردار نمایاں نہیں ہو جاتے جنہیں اختیارات، مراعات اور سہولتوں کے کھو جانے کی کوئی فکر دامن گیر نہ ہو۔ بدقسمتی سے ہم نے جن لوگوں کے گرد مقبولیت کا ہالہ کھینچا ان کی ممتاز ترین صفت بزدلی اور کم ہمتی تھی۔ آج بھی ہمارے اہم ترین لوگ افلاس کو اپنی عظمت کی راہ میں رکاوٹ سمجھتے ہیں لیکن ستم بالائے ستم یہ کہ معاشرے نے ایسے لوگوں کی معذرتی تاویلیں بخوشی قبول کر لیں۔ افسوس کہ کرپشن نے لوگوں کی بصیرت کو کند کر دیا، اگر انہیں اوپر کی کمائی نہ ملے تو نظامِ انہضام بگڑ جاتا ہے۔
زندگی میں تبدیلیاں ارادی نہیں بلکہ اچانک آتی ہیں؛ چنانچہ اس امر میں اب کوئی شبہ نہیں رہا کہ ہمارے سسٹم میں پائے جانے والے جمود کو توڑنے میں عمران خان کی 14 اگست 2014ء میں شروع کی جانے والی اُس پُرجوش تحریک نے اساسی کردار ادا کیا جس کے ہنگامہ خیز لانگ مارچ اور دھرنوں کے تسلسل نے ایسی جاں گسل کشمکش کو جنم دیا جس کی بپھری ہوئی لہریں ابھی تک سیاسی عمل کو وقفِ اضطراب رکھے ہوئے ہیں۔ تحریک انصاف ہی سب سے پہلے نظامِ عدل میں اصلاحات کا علم لے کر اٹھی تھی‘ اس لئے لگتا یہی ہے کہ جس جدلیات کی ابتدا عمران خان کی سیاسی فعالیت سے ہوئی تھی‘ اس کی تکمیل بھی خان صاحب کے ہاتھوں ہو گی۔ پی ٹی آئی کی برپا کردہ کشمکشِ ضدین کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی سیاسی بدنظمی اور فکری انتشار نے ہر ادارے کی بقاکو خطرات سے دوچار کر دیا؛ چنانچہ ریاستی اداروں کو اپنی بقا اور دائرۂ اختیار کے تحفظ کی خاطر مجبوراً درست راہِ عمل کا انتخاب کرنا پڑے گا کیونکہ ہم سب جانتے ہیں کہ اب شاید وہی فرد اور ادارہ دوام پائے گا جو آئین و قانون کی چار دیواری کے اندر پناہ گزیں رہ سکتا ہے۔ حالات کے تیور بتا رہے ہیں کہ آئینی دائرہ کار سے باہر نکل کے کھیلنے والوں کے لئے زمین روز بروز تنگ ہوتی جائے گی۔
بہرحال جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس کا تفصیلی فیصلہ آنا ابھی باقی ہے‘ اس لئے اس کے عواقب کا احاطہ کرنا ابھی ممکن نہیں لیکن ایف آئی اے کے سابق ڈی جی بشیرمیمن کے تازہ انکشافات ہوا کا رخ بتانے کیلئے کافی ہیں۔ مسٹر میمن کے انکشافات سے قبل قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف دائر ریفرنس اور ایف بی آر کے ذریعے سپریم کورٹ کے فاضل جج کی بیوی، بچوں کے اثاثہ جات کی چھان بین کوکنایتہ مقتدر قوتوں کی طرف منسوب کیا جا رہا تھا لیکن دس رکنی بینچ کے فیصلے میں ججزکی نظری تقسیم کے علاوہ بشیر میمن کے انکشافات نے جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف مبینہ تادیبی کارروائی کا سارا وبال پی ایم ہائوس کی طرف منتقل کر دیا اور اب وفاقی حکومت کے ماتحت اداروں کی طرف سے بشیر میمن کے بیٹے کی گھی ملز پہ چھاپہ اور خاندانی زرعی اراضی کی چھان بین جیسی عاجلانہ کارروائیوں نے اس تاثر پہ مہر تصدیق ثبت کر دی کہ اس قضیہ کی محرک اصلی وفاقی حکومت تھی۔ گورنمنٹ اگر خاموش رہتی تو پھر بھی معاملہ شک میں رہتا لیکن اس کارروائی کے بعد حقیقت کھل کے سامنے آ گئی، اس لئے اب شاید سپریم کورٹ کے فاضل جج کے خلاف ناکام مہم جوئی کے سارے مضمرات حکمراں جماعت کے وزرا اور مشیروں کو بھگتنا پڑیں گے۔
اس پوری صورت حال کا سب سے دلچسپ پہلو یہ ہے کہ مقتدرہ نے اپوزیشن کو ٹریپ کرنے کیلئے جتنے دام بچھائے‘ وہ سب رائیگاں چلے گئے۔ ابتداء میں پیپلزپارٹی کے ذریعے پی ڈی ایم کی جماعتوں کو عدم اعتماد کی تحریکوں جیسے کارِ بیکار میں الجھانے کی کوشش کی گئی جس سے گورنمنٹ نے کچھ وقت حاصل کر لیا، پھر حکومت نے ازخود تحریک لبیک کے ساتھ مبارزت کا میدان سجاکر نہایت حساس ایشو میں اپوزیشن جماعتوں خاص طور پر نواز لیگ کو کھینچنے کے علاوہ حکومت مخالف جماعتوں کو عالمی برادری کے خلاف صف آرا کرنے کی منصوبہ بندی کی لیکن یہ سکیم بھی الٹا حکومت کے گلے پڑ گئی۔ اسی طرح جہانگیر ترین کے حامی ممبرانِ اسمبلی کو کھڑا کر کے اپوزیشن کو پنجاب میں عدم اعتماد کی تحریک لانے کی بالواسطہ ترغیب دی گئی لیکن یہ زمرد بھی حریفِ دمِ افعی نہ ہوا۔ حکومت جس وقت حزبِ اختلاف کی لیڈرشپ کی ساکھ کو نقصان پہچانے کی کاوش میں مصروف تھی‘ انہی لمحات میں اپوزیشن جماعتوں نے بھی کمر توڑمہنگائی، بیروزگاری اور گورننس کی خامیوں کو نمایاں کر کے اپنی حکومت مخالف تحریک کو مؤثر بنانے کی خاطر رائے عامہ بنانے کی کوشش جاری رکھی۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ تمام تر رکاوٹوں اور دباؤ کے باوجود اپوزیشن نے اپنی عوامی جدوجہد کیلئے فضا سازگار بنا لی، اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد پی ڈی ایم نے عید کے فوری بعد جس وسیع پیمانے پہ رابطہ عوام مہم لانچ کرنے کی منصوبہ بندی کی ہے‘ وہ اب نتیجہ خیز بھی ہو سکتی ہے۔ پی ڈی ایم کے حالیہ سربراہی اجلاسوں میں سیاسی مہمات کی جزئیات تک متعین کر لی گئی ہیں۔ اگرچہ پیپلزپارٹی کی قیادت پی ڈی ایم کو دوبارہ انگیج کرنے کی کوشش میں سرگرداں ہے لیکن جہاندیدہ سیاستدانوں کا یہ گروہ اب پیپلزپارٹی کو اپنے کاروانِ جمہوریت کا حصہ بنانے کی غلطی نہیں کرے گا۔
اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ پیپلزپارٹی پاپولر ووٹ کے ذریعے بلاول بھٹوزرداری کو وزیراعظم بنوانے کی اہلیت نہیں رکھتی؛ تاہم اسے نواز لیگ اور طاقت کے مراکز کے مابین بڑھتی ہوئی خلیج میں اپنے لئے امید کی کرنیں دکھائی دیتی ہیں، اس لئے سابق صدر آصف علی زرداری یہ چاہتے ہیں کہ نوازلیگ اور جے یو آئی برسر پیکار رہیں اور وہ طاقت کے مراکز سے ایک خاص لیول کا تعلق بدستور استوار رکھیں۔ پچھلے تین سالوں میں انہوں نے زیادہ بہتر پرفارم کرنے کا تاثر پیدا کر کے یہ باور کرانے کی کامیاب کوشش کی کہ وہ نہ صرف پی ٹی آئی سے کہیں زیادہ بہتر ڈلیوری دے سکتے ہیں بلکہ ان کے وسیع تر مقاصد کی تکمیل کی پوری اہلیت بھی رکھتے ہیں۔ راز ہائے نہاں خانہ سے آگاہ حلقوں کا کہنا ہے کہ مقتدر حلقے عمران خان سے زیادہ اب آصف علی زرداری پہ اعتماد کرنے لگے ہیں، جس کی واضح دلیل کراچی کے حلقہ این اے249 کے ضمنی الیکشن میں پی پی پی کی جیت کو قرار دیا جا رہا ہے۔