"AAC" (space) message & send to 7575

قومی سیاست اور مذہبی اقدار!

2015ء میں وجود پانے والی خادم حسین رضوی کی تحریک لبیک کی بنیاد اگرچہ توہین رسالت کے قوانین کے تحفظ پہ رکھی گئی اور اسے عالمی سطح پر شہرت بھی نومبر 2018ء میں آسیہ مسیح کی بریت کے خلاف پُرتشدد ردعمل سے ملی لیکن اب وہ وسیع تناظر میں ایک جامع تصورِ حیات کے ساتھ سماجی و سیاسی فلاح کا پروگرام لے کر انتخابی سیاست کے میدانِ عمل میں برسرپیکار دکھائی دیتی ہے۔ یہی ہماری ملی تاریخ کا وہ ابدی دائرہ ہے جس میں ہماری اجتماعی سوچ ہمیشہ رخشِ خرام رہی ہے۔ خوارج کی پُرتشدد تحریک سے لے کر عباسیوں کی مسلح سیاسی جدوجہد اور فاطمیوں اور ابن تیمیہ کی مزاحمتی تحریکوں تک نے مسلمانوں کے سیاسی تصورات پہ گہرے اثرات مرتب کئے۔ خاص طور پہ عباسیوں کے پین اسلام ازم کے نظریے نے مسلم حکمرانوں کے شوقِ جہانبانی کو مہمیز دے کر جب انہیں مملکت کے داخلی نظم و ضبط اور سماجی ڈھانچے کی تدوین جیسے ضروری کام سے بے نیاز کیا تو مسلم دنیا میں وقفے وقفے سے ایسی پُرتشدد تحریکیں برپا ہونے لگیں جنہوں نے سیاسی نظام کے فطری ارتقا کو درست بنیادوں پہ استوار ہونے کی مہلت نہ دی۔ بہرحال اس طویل اضطراری کیفیت سے گزرنے کے باوجود اسلامی نظام کا تصور ایسے سیاسی فلسفے میں ڈھلتا گیا جو اس بات پر زور دیتا ہے کہ جدید ریاستوں اور خطوں کو آئینی، اقتصادی اورقانونی لحاظ سے ازسر نو متشکل کرکے اجتماعی حیات کو پیغمبر اسلامﷺ کی پیش کردہ نظریاتی اساس کی طرف واپس موڑ دیا جائے۔ علامہ اقبالؒ کی پیش کردہ فعالیت کا لب لباب بھی ریاستی طاقت کے ذریعے معاشرے کو اسلامائز کرنے کی انقلابی حکمت عملی پہ محمول نظر آتا ہے؛ البتہ صوفیا کرام کے علاوہ تبلیغی جماعت جیسی چند دیگرتنظیمیں نچلی سطح پر مذہبی و سماجی سرگرمیوں کے ذریعے معاشرے کو اسلامی قالب میں ڈھالنے کیلئے پُرامن اصلاحات کی حامی ہیں۔ مولانا مودودیؒ کی جماعت اسلامی جیسی سیاسی جماعتیں شریعت کے نفاذ کے علاوہ پین اسلامی سیاسی اتحاد کی علمبردار رہیں، ان کے پیش نظر بلادِ اسلامیہ میں مسلم ریاستوں کے قیام کے ذریعے اقتصادی، عسکری، سیاسی، سماجی یا ثقافتی دائروںسے غیرمسلموں کے اثرات کا خاتمہ ترجیحِ اول تھا۔ مغربی تجزیہ کار اسے تہذیبوں کی جنگ اورشناخت کی سیاست کی ایک قسم قرار دیتے ہیں، جس میں ہمیں مسلم شناخت پہ اصرار‘ امانت و دیانت، سخاوت و شجاعت جیسی اقدار، وسیع تر علاقائیت، احیا پسندی اور خاندانی نظام پہ استوار معاشرہ کے دوام کی مساعی ملتی ہے؛ تاہم بعض مسلم سکالر خاص طور پر پروفیسر احمد رفیق اختر جیسے دانشور سیاسی فعالیت کے ذریعے اصلاحات کی حمایت نہیں کرتے بلکہ طاقت کے حصول و استعمال کے رجحان کو فطرت کے فلسفۂ اصلاح کے منافی تصور کرتے ہیں۔ عہدِ جدید کے اکثر مصنفین نے اسلامی فعالیت کو ترجیح دی جن میں تیونس کے راشد الغنوشی کے علاوہ بیسویں صدی کے سید راشد رضا، حسن البنا، سید قطب، ابوالاعلیٰ مودودی، حسن الترابی اور روح اللہ خمینی نمایاں نظر آتے ہیں۔ افسوس کہ اخوان المسلمون ایسی تحریکیں، بحرین، روس، شام، مصر، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میںکالعدم قرار دی گئیں جوانقلابی طور طریقوں کے بجائے جمہوری عمل کے ذریعے جائز مقاصد حاصل کرنے کی کوشش میں یقین رکھتی تھیں، اس رجحان کی اگر حوصلہ شکنی نہ کی جاتی تو جمہوری روایات مسلمان معاشروں کے بنیادی تصورات میں رچ بس سکتی تھیں لیکن مغرب کی روشن خیال اشرافیہ، مسلمانوں کو جمہوری اور دستوری طریقوں سے بھی اپنے پسندیدہ طرزِ معاشرت کو اپنانے کی کھلے دل سے اجازت نہ دے سکی۔
سرد جنگ کے زمانے میں امریکی و یورپی مقتدرہ نے اپنے سیاسی مفادات سے مطابقت کے باعث اسلامی تحریکوں کی افزائش میں بالواسطہ مدد فراہم کی اور انہی تحریکوں نے مشرقِ وسطیٰ میں ہمہ جہت تبدیلیوں کی راہ ہموار کی۔ انہوں نے سیاست، معاشرت، اقتصادیات حتیٰ کہ سرحدات کی نئی تعریف تخلیق کی۔ بلاشبہ بہارِ عرب کے بعد کچھ طبقات نے جمہوریت سے توقعات وابستہ کرنے کی کوشش بھی کی لیکن مصر میں فوجی بغاوت کے ذریعے پہلے منتخب صدر محمد مرسی کی حکومت کا تختہ الٹنے کی حمایت کرکے عالمی طاقتوں نے داعش جیسی سفاک ملیشیائوں کو ایندھن فراہم کیا۔ اسلامی نظامِ ریاست ایک ایسا تصور ہے جس کے مفہوم پر عوامی اور علمی دونوں حلقوں میں بحث جاری رہی‘ یہ ہمہ گیر اصطلاح اس بات کی وکالت کرتی ہے کہ نجی و سیاسی زندگی کی رہنمائی مذہبی اصولوں سے ہونی چاہیے؛ تاہم اس اصطلاح کے بارے میں ہمیں کوئی متفقہ وضاحت نہیں ملتی ۔
بانیانِ پاکستان نے ہماری مذہبی اقدار اور ملکی پالیسیوں کے درمیان تعلق کواُنہی بنیادوں پہ جوڑا جو مملکت کیلئے سیاسی جواز اور قوم کے بنیادی نظریہ تشکیل دیتا ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اسلام ہماری سماجی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ قراردادِ مقاصد میں اسی نظریے کو ملک کے آئینی طریقہ کار اور حکومتی نظام کیلئے رہنما اصول کے طور پرتسلیم کیا گیا۔ منتخب سیاسی رہنمائوں کے علاوہ آمروں نے بھی مذہبی عقائد کو سرکاری توثیق اور طاقت کے حصول کیلئے استعمال کیا، اسی کارن ہماری سیاست میں مذہب کی متضاد توضیحات نے جنم لیا جس کے نتیجے میں ملک کے اندر فرقہ وارانہ تنازعات میں شدت آئی، اقلیتوں پر دست درازی اور انتظامی اتھارٹی کی بے اختیاری بڑھتی گئی لیکن دنیا بھر میں جمہوریت کے ذریعے سماجی انصاف کی فراہمی میں ناکامی اور مغربی سیاست کے دہرے معیارات نے ہمارے معاشرے میں مذہبی تشریحات کے تنازع کو کم کیا۔ بنیادی عقائد میں گہری مماثلت کے علاوہ یہاں کے مسالک کے پیغمبر اسلامﷺ کی حرمت کے دفاع پہ متفق ہو جانے کے رجحان نے بھی ہمارے اندرونی تضادات کو ہموار بنانے میں مدد دی۔ مصر کے سیکولر مصنف حسین ہیکل نے 1960ء کی دہائی میں لکھی گئی مشہور کتاب ''حیاتِ محمدﷺ‘‘ میں لکھا تھا کہ دنیا میں خدا کے وجود یا عدم وجود پہ کوئی تنازع باقی نہیں رہا، اب دنیا فقط محمدﷺ کی حمایت و مخالفت پہ منقسم رہے گی‘‘۔ امر واقعہ بھی یہی ہے کہ اس وقت مغربی طاقتیں لوحِ انسانیت پہ پیغمبر اسلامﷺ کے لازوال اثرات کو مٹانے کی فکر میں سرگرداں ہیں۔مغرب کے اہل دانش فرانسیسیوںکی جسارت کو آزادیٔ اظہار کے خوبصورت لبادے سے مزین کرکے پوری انسانیت کو دھوکا دینا چاہتے ہیں۔ مذہبی تعصب اور نفرت پہ مبنی اسی طرزِ عمل کی بدولت کچھ عرصہ قبل پیرس کے قریب سکول ٹیچر سیموئیل کو کلاس میں توہین آمیز خاکے دکھانے پر قتل کر دیا گیا تھا۔
بلادِ عرب کی سیاسی تاریخ سے قطع نظر‘ برصغیر پاک و ہند میں کئی مقبول تحریکوں کا محرک بننے کے باوجود مذہبی جماعتیں کبھی پاپولر سیاسی حمایت حاصل نہیں کر سکیں۔ اپنی تمام تر فعالیت اور معاشرتی عوامل پہ گہرے اثرات رکھنے کے الرغم مذہبی تحریکیں عوامی حمایت سے اقتدار کے سنگھاسن تک پہنچ نہیں پائیں؛ چنانچہ ہماری نظر میں ٹی ایل پی ہمارے سیاسی تمدن پہ کوئی خاص اثر نہیں ڈالے گی۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ گزشتہ الیکشن میں سندھ اسمبلی کی تین نشستوں پہ کامیابی اور 22لاکھ ووٹ لے کر پنجاب میں تیسرے نمبر پہ آنے والی لبیک پارٹی مسلم لیگ نواز کے ووٹ بینک کو نقصان پہنچا سکتی ہے لیکن ہمارے خیال میں نواز لیگ کی سیاسی پروگریس کا تاحال کوئی مداوا نہیں ہو سکتا۔ سیاسی منظرنامے میں آج اور ماضی قریب میں بھی ایسے اشارے ملتے رہے ہیں کہ آئندہ عام انتخابات میں تحریک انصاف پنجاب میں‘ ق لیگ، پیپلزپارٹی اورٹی ایل پی کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرکے نوازلیگ کا مقابلہ کرنے کی کوشش کرے گی، اسی تناظر میں سابق صدر آصف علی زرداری بھی طاہرالقادری سے رابطہ کرکے پنجاب میں سیاسی حمایت پانے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن سیاسی حقائق ایسی کسی مساعی کے بارآور ہونے کی تصدیق نہیں کرتے۔ اس وقت سویلین بالادستی کا مزاحمتی بیانیہ مقبولیت کی انتہائوں کو چھو رہا ہے اس لئے ٹی ایل پی جیسی ابھرتی ہوئی جماعت کو گرتی ہوئی مقبولیت والی پی ٹی آئی سے وابستہ ہو کر اپنی ساکھ کو مجروح کرنے کے بجائے پنجاب میں نوازلیگ اور سندھ میں جے یو آئی کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ سے کچھ سیاسی فائدہ مل سکتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں