"AAC" (space) message & send to 7575

کشمیریوں کا المیہ

افغانستان میں طالبان کی بالادستی کے بعد نہ صرف پاکستان کے صوبہ بلوچستان سمیت سرحدی پٹی میں شورش کی لہریں مدہم ہوئی ہیں بلکہ اسی ڈویلپمنٹ کی بدولت مجموعی طور جنوبی ایشیا میں سیاسی استحکام اوراقتصادی خوشحالی کی راہیں بھی کشادہ ہو ئی ہیں؛ تاہم مقبوضہ کشمیر میں بڑھتے ہوئے پُرتشدد واقعات کو روکنے اور مستقبل قریب میں تنازعِ کشمیر کے حل کی اگر سنجیدہ کوشش نہ ہوئی تو جنوبی ایشیا پائیدار امن اور اقتصادی خوشحالی کی منزل نہیں پا سکے گا۔ جنگی تنازعات کو دیکھنے والی عالمی تنظیموں نے 2016ء میں مشہور حریت پسند کمانڈر برہان وانی کی شہادت کے بعد بھارت کے خلاف بھڑک اٹھنے والے احتجاج کا مہینوں مشاہدہ کرنے کے بعد کشمیر کی اندرونی صورتحال کے مزید بگڑنے کی پیشگوئی کے علاوہ پاک بھارت سرحدوں پہ تنائو بڑھنے کا اندیشہ ظاہر کرتے ہوئے 2022ء میں کشمیر ایشو کو یمن، میانمار، ایتھوپیا، آرمینیا اور آذربائیجان جیسے اُن 10خطرناک تنازعات میں شامل کیا‘ جو جنگ کا سبب بن سکتے ہیں۔ بھارت کی طرف سے بڑے پیمانے پہ ریاستی قوت کے استعمال کے باوجود مقبوضہ کشمیر میں آزادی کی تحریکوں پر قابو پایا جا سکا ہے اور نہ ہی وادی میں معمولاتِ زندگی کو معمول پہ لانے میں کامیابی ملی ہے۔ بالخصوص 5 اگست 2019ء میں مودی سرکارکی طرف سے آئین کے آرٹیکل 370 کی تنسیخ سے وادیٔ جموں و کشمیر کی خود مختار حیثیت کو ختم کرکے اسے مرکز کے تابع دو مختلف انتظامی یونٹس میں منقسم کرنے کے فیصلے نے مقامی آبادی کوبھڑکانے اہم کردار ادا کیا۔ اگرچہ پاکستانی ریاست نے بوجوہ اس پیش دستی پہ غیرمعمولی ردعمل نہیں دیا لیکن ہمیشہ کی طرح بھارت نے عسکریت پسندی میں اضافے کو پاکستان سے منسوب کرنے کی تکرار جاری رکھی، حالانکہ 5 اگست کے بھارتی اقدام سے پیدا ہونے والے مایوسی اور غصے نے کشمیری نوجوانوں کو جس فیصلہ کن مزاحمت کی راہ دکھائی اس کی ذمہ دار بھارتی قیادت کی غاصبانہ سوچ تھی۔
پاک بھارت تنازع کا کربناک پہلو یہ بھی ہے کہ افغانستان میں امریکی جارحیت سے فائدہ اٹھانے کی خاطر بھارت نے عالمی طاقتوں کی تزویراتی ضرورتوں کی آڑ لے کر پاکستان کے مغربی سرحدی صوبوں میں شورش کی آبیاری کے علاوہ مشرقی بارڈر پہ بھی دبائو برقرار رکھا۔ امریکی فورسز کے انخلا سے کچھ ماہ پہلے‘ جس وقت پاکستانی مقتدرہ انسانی تاریخ کی مہیب ترین جنگ کی بساط لپٹنے کے مشکل ترین مرحلے سے گزر رہی تھی‘ عین اس وقت بھارت نے کشمیر جیسے متنازع علاقے کو بھارتی یونین میں ضم کرکے خطے کے دیرینہ جغرافیائی تنازعات کو مزید پیچیدہ بنا دیا۔ کشمیری فریڈم فائٹرزکی سرگرمیوں میں ممکنہ اضافے کا ایک اور محرک نیا شہریت ایکٹ اور زمین کی خرید و فروخت کے وہ متنازع قوانین بنے‘ جو بھارتیوں کو مقبوضہ جموں و کشمیر میں مستقل سکونت کا حق دینے کے علاوہ خارجی عناصر کو یہاں زمین خریدنے کی اجازت دیتے ہیں۔ اِن قوانین کا مطلب مقامی آبادی میں مسلمانوں کے تناسب کو کم کرنا لیاگیا اور اسی پیش دستی نے نفسیاتی طور پر کشمیری مسلمانوں کو اپنی بقا کے مسئلے سے دوچار کیا۔ 5 اگست سے قبل کشمیر میں صرف مقامی ہندوئوں، مسلمانوں اور بدھ باشندوں کو یہ حق حاصل تھا کہ وہ یہاں زمین کی خرید و فروخت کر سکتے لیکن اب اس جاری مشق کے ذریعے مقامی قانون ساز اسمبلی کے حلقوں کو دوبارہ ترتیب دے کر طاقت کے توازن کو ہندو اکثریت والے جموں خطہ کی طرف منتقل کرنے کی شعوری کوشش کی جا رہی ہے۔
پچھلے تیس سالوں میں بھارتی ریاست کی طرف سے کشمیری مسلمانوں کو سیاسی، معاشی اور سماجی طور پر پسماندہ رکھنے کی حکمت عملی کے نتائج تباہ کن برآمد ہوئے ہیں۔ اسی تفریق نے کشمیر میں بسنے والے سماجی طبقات اور مذہبی گروپوں میں نفرتوں کے بیج بو کر پورے بھارت کی مخلوط آبادیوں کو مضطرب کر دیا۔ پچھلے 30 سالوں کی شورش میں آزادی پسندوں نے کھانے پینے کی دکانوں اور ہندوؤں کے ذریعے چلائے جانے والے دوسرے کاروباروں کو کبھی نشانہ نہیں بنایا تھا لیکن اب جبکہ کچھ ریاستی گروہ کسی بھی بیرونی شخص کو کشمیر میں بسانے کی منصوبہ بندی کو اپنا اصل ہدف سمجھنے لگے ہیں‘5 اگست کے اقدام کے بعد سے گیارہ کے لگ بھگ ایسے غیرکشمیریوں کو نشانہ بنایا گیا جنہیں ریاستی سرپرستی میں یہاں مستقل آباد کرنے کی کوشش کی جا رہی تھی۔ بظاہر یہی لگتا ہے کہ مودی حکومت نے جارحانہ پالیسی کے ذریعے مفاہمت کے تمام امکانات کوختم کر دیا ہے۔ بھارتی مقتدرہ کی ہٹ دھرمی خطے میں تشدد کو مزید فروغ دینے کا وسیلہ بنے گی۔ مقبوضہ جموں و کشمیر کے پولیس ریکارڈ کے مطابق 2020ء کے آخری دنوں میں مختلف واقعات میں 225 ''عسکریت پسند‘‘، 38 عام شہری اور 16 پولیس افسران کے علاوہ فوج اور نیم فوجی دستوں کے 44 جوان ہلاک ہوئے۔ تشدد کے بڑھتے ہوئے انہی واقعات نے بے یقینی اور عدم تحفظ کے احساس کو بڑھایا ہے۔ خوفزدہ کشمیری اب خود کوغیر محفوظ سمجھتے ہیں۔ قدم قدم پہ پولیس ناکوں اور غیر معمولی پابندیوں کے نفاذ نے جنت نظیر وادی کو عملاً دنیا کی سب سے بڑی جیل میں تبدیل کر دیا ہے۔ شدید گھٹن کا یہ ماحول کسی بھی وقت صورتحال کو دھماکا خیز بنا سکتا ہے۔
مودی سرکار نے کشمیر کی جداگانہ حیثیت کو ختم کرکے جہاں ایک طرف کشمیریوں کو ناروا صورتحال سے دوچار کیا‘ وہاں دوسری جانب پاکستان کو سائیڈ لائن کرنے کی کوشش میں لائن آف کنٹرول پر کشیدگی بھی بڑھائی گئی، حالانکہ مقبوضہ کشمیر سے متعلق کسی بھی قرارداد میں پاکستان کے کردار کو بین الاقوامی سطح پہ تسلیم کیا جاتا ہے۔ لاریب! پانچ اگست کے فیصلے نے علاقائی استحکام کو بُری طرح متاثر کیا جس کے منفی اثرات دیر تک خود بھارتی ریاست کو وقفِ اضطراب رکھیں گے۔ کچھ تجزیہ کار پچھلے سال کی چین‘ بھارت سرحدی جھڑپوں کو بھی مقبوضہ کشمیر کی سیاسی حیثیت تبدیل کرنے سے جوڑتے ہیں کیونکہ چین نے کہا تھا ''بھارت کا یہ فیصلہ غیر قانونی، باطل اور چین کی خودمختاری کو چیلنج کرتا ہے‘‘۔ بھارت نے 5 اگست کے فیصلے کو مسئلہ کشمیر کے مستقل حل کے دعویٰ پہ محمول کیا تھا لیکن عملاً صورتحال اس کے برعکس نکلی اور 5 اگست کے بعد دنیا نے کشمیر کو ایک اور فلسطین کے طور پہ دیکھنا شروع کر دیا۔ کشمیر کی تشویشناک صورتحال کی وجہ سے پڑوس میں بسنے والوں کے علاوہ دنیا بھر میں مسلمانوں میں اضطراب بڑھے گا۔ انڈیا کی اسی پیشقدمی کی بدولت مسئلہ کشمیر کے پُرامن حل کے حامی کشمیری نوجوان بھی اب اسلحہ اٹھانے پر مجبور ہو رہے ہیں۔
گزشتہ سال کشمیر پولیس نے ''عسکریت پسند اور ان کا حامی‘‘ ہونے کے الزام میں 635 کشمیری نوجوانوں کو گرفتار کیا اور بدنام زمانہ پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت جیل بھیج دیا۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق مذکورہ ایکٹ کے ذریعے انتظامیہ سینکڑوں کشمیریوں کو بغیر کسی مقدمے کے‘ چھ ماہ تک حراست میں رکھنے کے علاوہ نہتے شہریوں کی نظر بندی کو مسلسل دہرا سکتی ہے۔ ذرائع کے مطابق 635 شہریوں کی گرفتاری 1990ء میں عسکریت پسندی بھڑکنے کے بعد کسی بھی سال میں سب سے بڑی گرفتاری ہے۔ 2020ء میں مودی سرکار نے خطے میں بھارت نواز سیاست کو فروغ دیتے ہوئے مذاکرات کے مواقع گنوانے کے علاوہ مقبوضہ کشمیر پر کنٹرول مزید سخت کرنے پر توجہ مرکوز کیے رکھی۔ پچھلے دو سالوں میں بھارتی فورسز نے انٹیلی جنس جمع کرنے اورحریت پسندوں کے خلاف انسدادی کارروائیوں کو تیز کرنے کیلئے کورونا لاک ڈاؤن کا استعمال بھی کیا۔ پاکستان نے بھارت کے ساتھ دو طرفہ جنگ بندی معاہدے پر مسلسل شکوک کا اظہار کرتے ہوئے بین الاقوامی سفارتی فورمز پر کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ لائن آف کنٹرول کے قریب تشدد کو ہوا دینے جیسے اقدامات کا مؤثرجواب دیا۔ مقبوضہ جموں و کشمیر میں درجنوں گروپ پاکستان کے ساتھ الحاق کے تصور کو عملی جامہ پہنانے کی خاطر بھارتی قبضے کے خلاف برسرِپیکار ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق 1989ء سے ابھرنے والی پاکستان نواز مزاحمتی تحریکوں کو کچلنے کی کوشش کے دوران بھارتی فورسز کے ہاتھوں اب تک ہزاروں کشمیری شہید کیے جا چکے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں