سینیٹ کے حالیہ اجلاس میں آئی ایم ایف کی شرائط کی تکمیل کی خاطر سٹیٹ بینک کی خود مختاری جیسے حساس بل کی منظوری کے دوران اپوزیشن جماعتوں نے جس بے حجابانہ انداز میں سہولت کاری کا فریضہ انجام دیا‘ اس نے ہمارے سیاسی نظام اور ریاستی ڈھانچے کی بے ثباتی کی قلعی کھول دی ہے۔ اس حوالے سے اب لاتعداد دستاویزی شہادتیں میسر ہیں کہ پچھلی پون صدی سے ہماری مملکت میں فیصلہ سازی کا بیشتر نظام اورحکمرانوں کے عزل و نصب کا اختیار نظر نہ آنے والی عالمی مقتدرہ کے ہاتھ میں رہا لیکن رموزِحکمرانی کے ماہرین نے اس کلاسیکی بندوبست کو ایسی باکمال مہارت سے نبھایا کہ یہاں وقوع پذیر ہونے والے تمام واقعات وحوادث کی توجہی ہمیں فطری دکھائی دیتی تھی۔ پہلے وزیراعظم نوابزادہ لیاقت علی خاں سے لے کر حسین شہید سہروردی‘ ذوالفقار علی بھٹواور نواز شریف سمیت اس سنہرے جال کو توڑنے کی جسارت کرنے والوں کے انجام کے محرکات کو ہم اپنی داخلی جدلیات میں تلاش کرتے رہے حالانکہ یہ سب کچھ ایک وسیع عالمی سکیم کے تحت تشکیل پانے والے اُس بندوبست کے مطابق ہوتا رہا جس میں عالمی مالیاتی نظام کے تحت قرضوں اور امداد کے ذریعے مملکتوں کو کنٹرول کرنے اورسیاسی تشدد کے ذریعے کمزور ممالک کے وسائل پہ قبضہ کرکے دنیا بھر میں ایسی استبدادی حکومتوں کو برداشت کیا گیا جو عالمی طاقتوں کی اطاعت قبول کر لیتی تھیں۔ اب یہ کوئی راز نہیں رہا کہ مغربی طاقتیں خطوں پہ اپنی گرفت مضبوط رکھنے کی خاطر مختلف ملکوں کو لانچنگ پیڈ کے طور پہ استعمال کرتی رہی ہیں۔ اس وقت ہمارا اصل مسئلہ آئینی طریقوں سے پُرامن انتقالِ اقتدار کا حساس مرحلہ ہے‘ بظاہر یہی لگتا ہے کہ موجودہ رجیم ٹرانزیشن آف پاور کے فیز کومینج کرنے کا روادار نہیں اور یہی وہ سیاسی نزاکتیں ہیں جنہوں نے قومی قیادت کوحد سے زیادہ محتاط کر دیا ہے۔
ہماری جدید سیاسی تاریخ میں پیپلزپارٹی وہ پہلی عوامی جماعت تھی جس نے صدیوں کے منجمد معاشرے کو جمہوری آزادیوں اور سیاسی حقوق کی مزاحمت کا شعور دے کر ایسی دور رس تبدیلیوں کی راہ ہموار کی جن کی گداز لہریں آج بھی ہمارے اجتماعی وجود کو وقفِ اضطراب رکھتی ہیں۔ زیڈ اے بھٹو کی اٹھان سے قبل ہمارے سماج کی نفسیاتی فضا تسلیم و رضا کی اس قدیم ثقافت پہ مبنی تھی جس میں حکمرانی اور فیصلہ سازی کا اختیار نہایت محدود طبقات کا حق مانا جاتا تھا۔ اسی ذہنی فضا میں ہمارا معاشرہ سیاسی عمل کو دجل و فریب کا کھیل اور سیاست سے وابستگی کو مکروہ سمجھتا رہا؛ تاہم یہ ذوالفقارعلی بھٹو ہی تھے جنہوں نے عوام کے حقِ حکمرانی، جمہوری آزادیوں اور سماجی انصاف کے نعروں کو قبولیت عامہ کا درجہ دے کر مشرق کے جمودپرور معاشروں کی رائے عامہ کو منظم کرکے ایسی حیرت انگیز جدلیات کو مہمیز دی جس کے اثرات نے اجتماعی حیات کی ہر اکائی کو متاثر کیا۔ 1970ء کے بعد ابھرنے والی تمام تحریکیں ذوالفقار علی بھٹو کے تخلیق کردہ فلسفۂ سیاست کی خوشہ چین نظر آتی ہیں، حتیٰ کہ بھٹو صاحب کے خلاف اٹھنے والی پی این اے کی تحریک نے بھی انہی حربوں کو استعمال کیا جنہیں بھٹوصاحب نے خود متعارف کرایا تھا۔ بھٹو کی پھانسی کے بعد بینظیر بھٹو نے بھی صحت مند جمہوری جدوجہد کے ذریعے انہی پُر شکوہ سیاسی اقدار اور ان درخشندہ روایات کو زندہ رکھا جنہوں نے آمریتوں کے چہروں سے نقاب الٹ ڈالے تھے۔ قطعِ نظر اس بات کہ مسٹر بھٹو اور بینظیر بھٹو نے سمجھوتوں کے ذریعے اس حتمی تصادم سے گریز کیا جس کی اس ملک کو اشد ضرورت تھی لیکن پھر بھی اُن کی گراں قدر مساعی نے اپنے عہد کی روح کی تطہیر میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ یہ انہی کے زرخیز دماغ کی گونج ہے جو آج ہمیں میاں نواز شریف اور مولانا فضل الرحمن کے لب و لہجے سے چھلکتی نظر آتی ہے لیکن افسوس کے بے نظیربھٹو کی شہادت کے بعد پیپلزپارٹی کو ملنے والے اقتدار کے دوران آصف علی زرداری اور ان کے رفقا نے جس مفاہمتی فلسفۂ سیاست کی بنیاد رکھی‘ وہ عوام اور پیپلزپارٹی کے مابین حائل ہو گیا۔
پیپلزپارٹی کی افزائش مزاحمتی ماحول میں ہوئی تھی‘ اسے سمجھوتوں اور مفاہمتوں سے مزین وہ پُرسکون فضا راس نہیں آئی جس کے تال میل نے اس کی مزاحمتی دھار کو کند کر دیا۔ اسی باعث پیپلز پارٹی نے جمہوری ساکھ کے علاوہ اس وسیع عوامی حمایت کو بھی کھو دیا جو کبھی اس کا طرۂ امتیاز ہوا کرتی تھی۔ شاید پارٹی قیادت جانتی ہیں کہ اب اس کے لیے مسندِ اقتدار کی منزل کا حصول خاصا مشکل ہے؛ چنانچہ عالمی مقتدرہ کی اشیرباد سے وہ انہی روایتی طریقوں سے حصولِ اقتدار کی متمنی ہے جن سے شوکت عزیز نے استفادہ کیا۔ وہ یہ بھی نہیں چاہتی کہ کوئی دوسری سیاسی قوت اس کی مزاحمتی وراثت کو لے کر آگے چلے‘ اس لیے وہ جمہوری جدوجہد کی راہ پہ چلنے والی جماعتوں کو بھی انگیج کرکے اپنی ڈگر پہ لانے میں سرگرداں ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے بعد نوازشریف نے عوام کے حقِ حاکمیت کو پانے کی خاطر مزاحمت کی راہ اختیار کرکے مقبولیت حاصل کی لیکن وہ بھی ہمیشہ فیصلہ کن جنگ لڑنے سے گریزاں رہے۔ وہ تین بار وزارتِ عظمیٰ تک پہنچنے کے باوجودکئی بار حکیمانہ پسپائی اختیار کرکے غیراعلانیہ سمجھوتوں کے ذریعے اپنے سیاسی مفادات کا دفاع کرتے رہے بلکہ انہوں نے ایوانِ اقتدار سے نکالے جانے کے بعد بھی جزوی سمجھوتوں کے ذریعے دائیں بائیں سے ریلیف لینے میں حجاب محسوس نہ کیا۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ جب تک مقبول سیاستدان خود اور بااثر لوگوں کا سرمایہ اور اولادیں دیارِ غیر میں مقیم ہوں گی‘ اس وقت تک ہماری قومی سیاست عالمی مقتدرہ کے ہاتھوں یرغمال رہے گی۔ ممکن ہے کہ اب یہ سب کچھ بدل رہا ہو لیکن قومی سیاست کی حرکیات اور پارٹی پالیٹکس سے جڑے حقائق کے بارے میں ہماری محدود معلومات سیاسی تنقیحات کی توضیح کے لیے ناکافی ہیں؛ تاہم ایک بات طے ہے کہ ووٹ کا حق دیگر تمام حقوق کا ضامن ہے۔ اگر قومی قیادت یہاں منصفانہ انتخابات کے انعقاد کو ممکن بنانے میں کامیاب ہو گئی تو ہمیں اپنی گم گشتہ آزادی واپس مل سکتی ہے۔ بلاشبہ ملکی قوانین اورسیاسی و اقتصادی پالیسیاں سیاسی عمل کو چلانے والے انتخابی قوانین سے بہت زیادہ متاثر ہوتی ہیں۔ اس لیے ہماری لیڈرشپ کے لیے قومی خود مختاری کے تحفظ اور حقیقی آزادی کے حصول کے لیے منصفانہ انتخابات کا ہدف حاصل کرنا زیادہ اہم ہو گا۔ افسوس کہ ہمارا انتخابی نظام کئی پہلوئوں سے مغربی جمہوریتوں سے مماثلت نہیں رکھتا اورعالمی ادارے ایسے ممالک کو غیر مشروط فنڈنگ نہیں کرتے جن کا جمہوری ڈیزائن ان کے مفادات کے تابع نہ ہو۔ ہماری جمہوریت کے بہت سے مسائل کے حوالے سے سیاستدانوں اور پالیسی سازوں کے مابین اختلافات پائے جاتے ہیں۔ ہم آپس میں بحث کر سکتے ہیں کہ بہترین آپشن کون سی ہے لیکن سب انتخابی نظام میں ایسی جامع اصلاحات پہ متفق ہیں جو سیاسی نظام کی مکمل بحالی کے بغیر نسبتاً آسانی سے نافذ کی جا سکتی ہوں کیونکہ وسیع تر انتخابی اصلاحات کے طویل مدتی اور نتیجہ خیز اثرات ہو سکتے ہیں۔
مغربی ماہرین کہتے ہیں کہ اگرچہ جمہوریت کا اقتصادی ترقی پر براہِ راست نہیں پڑتا لیکن اس کے نہایت اہم بالواسطہ اثرات ترقی میں معاون ہوتے ہیں۔ تمام شہریوں کے قانون کے سامنے مساوی ہونے اور قانون سازی کے عمل تک یکساں رسائی میں مساوات جھلکتی ہے۔ لاریب قانونی مساوات، سیاسی آزادی اور قانون کی حکمرانی کو اکثر اچھی طرح سے کام کرنے والی جمہوریت کی بنیادی خصوصیات کے طور پر پہچانا گیا، اسی لیے جمہوریت کی اساس انسانی سرمایے کے ذخیرے، کم افراطِ زر، کم سیاسی عدم استحکام اور اعلیٰ اقتصادی آزادی پہ رکھی گئی۔ جمہوری معاشرہ ایسے نظریات کو فروغ دیتا ہے جس میں احترامِ آدمیت اور قیادت کے انتخاب کا حق شامل ہو۔ جمہوریت کی حمایت سے نہ صرف مذہبی آزادیوں اور سیاسی کارکنوں کے حقوق جیسی بنیادی اقدار کو فروغ ملتا ہے بلکہ معاشرہ ایسا محفوظ، مستحکم اور خوشحال ماحول استوار کرنے میں بھی کامیاب ہو جاتا ہے جس میں تحمل، برداشت، درگزر، خواتین اور دیگر طبقات کے حقوق اور تمام افراد کے لیے ترقی کے یکساں مواقع ملتے ہیں۔ اس لیے جمہوریت ہمیشہ زیادہ شفاف اور جوابدہ حکومت کے قیام میں دلچسپی رکھتی ہے۔