قومی سیاست کی تیزی سے بدلتی حرکیات کسی نئے سیاسی بندوبست کی تکوین کی خبر دے رہی ہیں۔ اس میں اب کوئی شبہ باقی نہیں رہا کہ موجودہ بندوبست ڈِلیور کر سکا نہ اس میں مزید آگے چلنے کی سکت باقی بچی۔ پیراڈائم شفٹ کے اس نازک مرحلے پہ ہماری مملکت مربوط قومی وجود اور مضبوط سیاسی قیادت سے محرومی کے علاوہ معاشی کساد بازاری جیسے بدترین مسائل میں بھی مبتلا دکھائی دیتی ہے؛ چنانچہ سرعت کے ساتھ بڑھتے ہوئے سیاسی خلا کو پُر کرنے کیلئے عوامی حمایت کی حامل جمہوری قوتوں کو نہایت احتیاط کے ساتھ پیشقدمی کی راہ دینا پڑے گی تاکہ قومی زندگی کے اس مشکل ترین مرحلے کو بخیر و خوبی عبور کر لیا جائے۔ پچھلے ساڑھے تین سال سے جاری اس تھکا دینے والی سیاسی کشمکش کے کرداروں نے انتہائی دلیرانہ انداز میں ایک طرف مصنوعی طریقوں سے پروان چڑھائی گئی کنگز پارٹیوں کے کھیل کی ماہیت کو بے نقاب کیا اور دوسری جانب تقسیمِ اختیارات کے آئینی فارمولے کے مطابق اداروں کو اپنے قانونی دائرہ عمل کے اندرسمٹ جانے کیلئے دبائو بھی بڑھایا۔ فی الوقت قومی قیادت تقسیمِ اختیارات کے اِسی مرکزی نکتے پہ پوری قوم کو یکسو کرنے کی متمنی ہے تاکہ ادارہ جاتی توازن حاصل کرکے مملکت کو دوبارہ اس آئینی پٹڑی پر چڑھایا جا سکے‘ 1958ء میں جس سے اترنے کے بعد قوم مشرقی پاکستان جیسے سانحات اورنسلی، لسانی و مذہبی تنازعات میں الجھ کے کمزور ہونے لگی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایوانِ اقتدار کے آہنی پردوں کے پیچھے کھیلے جانے والے اس نامطلوب کھیل کو کوچہ وبازار تک لانے میں بے نظیر بھٹو اور نوازشریف کی قربانیاں کے علاوہ مولانا فضل الرحمن کی مزاحمتی ڈاکٹرائن نے بنیادی کردار ادا کیا ہے؛ تاہم قانون کی حکمرانی اور آئینی بالادستی کیلئے 2007ء کی وکلا تحریک کو بھی فراموش نہیں کیا جا سکے گا‘ جسے قومی لیڈر شپ اور مرکزی دھارے کے میڈیا کی پشت پناہی نے زیادہ وسیع تناظر فراہم کیا۔ آج بھی صحافتی انجمنیں اور وکلا تنظیمیں پوری استقامت کے ساتھ آئین و قانون کی حکمرانی اور آزادیٔ اظہارکی محدود ہوتی گنجائش کے خلاف صف آرا نظر آتی ہیں۔ البتہ جمہوریت کی علمبردار پیپلزپارٹی ایک بار پھر جاری سیاسی رسہ کشی سے اُسی طرح مفاد کشید کرنے میں سرگرداں ہے جیسے 2017ء میں نواز لیگ کے اُس آئینی پیکیج کی منظوری کو ناکام بنایا تھا جس میں نیب قوانین کے علاوہ آرٹیکل 62، 63 میں ترامیم سمیت سیاسی نظام کو پابجولاں رکھنے والی کئی اہم آئینی دفعات میں رد و بدل شامل تھا۔
شنید ہے کہ پاناما سکینڈل کے ذریعے نوازشریف کو اقتدار سے الگ کرنے کے علاوہ مسلم لیگ کو سیاسی طور پہ تنہا کرکے دیوار سے لگانے کے اس کھیل میں پیپلز پارٹی برابر کی شریک تھی جس نے جمہوری عمل کی رخ گردانی کے ذریعے ملک و قوم کو ناقابل عبور مشکلات سے دوچار کرنے میں بھی ہچکچاہٹ محسوس نہ کی؛ تاہم اِن عارضی سیاسی مفادات نے پیپلزپارٹی کی ساکھ کو داغدار اور ایک وسیع افق میں اس کی عوامی مقبولیت کو گہری زِک پہنچائی۔ گویا پیپلزپارٹی کو سیاسی موت مارنے کا جو کام چالیس سالوں میں طاقت کے بے رحمانہ استعمال کے ذریعے نہ ہو سکی‘ طاقتوروں کی آغوش میں جانے سے وہی کام نہایت آسانی سے سرانجام پا گیا؛ چنانچہ اس وقت پیپلزپارٹی قومی سیاسیات کے مرکزی دھارے سے جدا ہوکر قاف لیگ کی طرح جوڑ توڑکے علاوہ ملکی سیاست میں کوئی مؤثر رول ادا کرنے کے قابل نہیں رہی۔
انتہائی قابل اعتماد ذرائع کے مطابق طاقت کے مراکز میں روز بروز کم ہوتی گنجائش کا آشوب ہی پیپلزپارٹی کو لاہور کی طرف کھینچ لایا تاکہ ایک بار پھر پی ڈی ایم سے قربت کے ذریعے سسٹم میں اپنی بارگیننگ پوزیشن بہتر بنائی جا سکے لیکن پچھلے ساڑھے تین سالوں کے دوران پیپلزپارٹی نے اپوزیشن کی قیادت کو جس قسم کی ہزیمت سے ہم کنار کیا‘ اس نے میاں نوازشریف اور مولانا فضل الرحمن کو اس سے پوری طرح بدگمان کر دیا ہے۔ خاص طور پر سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر کے منصب کے علاوہ سٹیٹ بینک خود مختاری بل کی منظوری کے دوران پی پی پی نے جو کردار ادا کیا‘ اس نے پی ڈی ایم اور پیپلزپارٹی کے مابین ایسی دراڑیں پیدا کر دی ہیں جسے بھرنا آسان نہیں ہو گا۔
یہ بات بھی قابلِ فہم ہے کہ پی ڈی ایم نے اپنی جدوجہد کے ذریعے جس سطح کا سیاسی مقام اور جس نوع کی عوامی حمایت کو پایا ہے‘ اُسے محض چکنی چپڑی باتوں کے عوض اُس پیپلزپارٹی کے ساتھ شیئر نہیں کرپائے گی جو ہرمرحلے پر اپوزیشن کی ایڑی کا کیل بنی رہی، علیٰ ہذا القیاس! اس وقت پیپلزپارٹی کا سب سے بڑا مسئلہ سندھ میں اپنی پارٹی کی سیاسی بقا ہے، جہاں جے یو آئی (ایف )راشد سومرو کی جارحانہ جدوجہد سے دیہی سندھ میں اپنی مقبولیت کی بامِ عروج تک پہنچا کے بھٹو خاندان کی سیاسی بالادستی کا طلسم توڑ رہی ہے۔ 2023ء کے عام انتخابات میں جے یو آئی نے اگر ایم کیو ایم اور جی ڈی اے سمیت علاقائی قوتوں سے دانشمندانہ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرنے میں کامیابی پا لی تو شاید پندرہ سال بعد پیپلزپارٹی کو دوبارہ سندھ اسمبلی میں اپوزیشن بینچوں پہ بیٹھنا پڑے۔ کہا جا رہا ہے کہ ان دنوں شاید یہی خوف پیپلز پارٹی کی قیادت کو چین سے سونے نہیں دیتا۔ حالات کے تیور بتا رہے ہیں کہ اب کی بار نواز لیگ کوخیبرپختونخوا اور بلوچستان کے علاوہ سندھ میں بھی قدم جمانے کا موقع مل جائے گا۔ اگر یہ ممکن ہوا تو اندرونِ سندھ کے علاوہ شہری سندھ میں بھی نواز لیگ اپنے لیے جگہ نکال کر پی پی پی کیلئے سپیس مزید کم کر دے گی؛ چنانچہ بظاہر یہی لگتا ہے کہ پیپلز پارٹی پی ڈی ایم اور پی ٹی آئی کے مابین رابطہ کاری کا وسیلہ بننے کے باوجودکچھ خاص حاصل نہیں کر پائے گی۔
ادھر حکمراں اشرافیہ معاشی بدحالی کی بدولت حکومت کی گرتی ہوئی سیاسی ساکھ کو سہارا دینے کی خاطر ماضی کی کفایت شعاری کی پالیسی میں وقفہ اور اخراجات میں اضافہ کرکے اگلے الیکشن سے قبل عوام کو ریلیف دینے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔ یہ پلان عالمی سطح پر توانائی کی قیمتوں میں کمی کی وجہ سے محصولات میں ہونے والے عارضی اضافے کے کچھ قابلِ اعتراض مفروضوں پر بنایا گیا۔ اگر قومی آمدنی کی شرح کو بڑھانے کے علاوہ ترقیاتی منصوبوں پر وسیع اخراجات ممکنہ طور پہ ووٹروں کو پی ٹی آئی کی طرف راغب کر لیتے ہیں تو پھر حکومت قبل از وقت انتخابات کی طرف بھی جا سکتی ہے۔
حکومت کی ناقص معاشی پالیسیوں کے باعث پیدا ہونے والے شدید ترین معاشی بحرانوں نے حکومت کو آئی ایم ایف سمیت بیرونی ممالک سے مدد لینے پر مجبور کردیا، یہ وہی طرزِ عمل ہے جسے وزیراعظم ماضی میں تنقید کا نشانہ بناتے رہے۔ تاہم آئی ایم ایف کا پروگرام تاحال تعطل کا شکار ہے، جس کی بنیادی وجہ ملک کی خراب ہوتی مالیاتی پوزیشن، شرحِ نمو میں بتدریج کمی اور محصولات میں اضافے میں ناکامی ہے۔ امید کی کرن کے باوجود بین الاقوامی ماہرین ملک کے معاشی امکانات کے بارے میں کوئی مثبت نظریہ نہیں رکھتے؛ تاہم وزیرخزانہ شوکت ترین صاحب کو توقع ہے کہ آئی ایم ایف کی فنڈنگ میں اضافہ کے ساتھ اگست میں 2.8 بلین امریکی ڈالر کے خصوصی ڈرائنگ رائٹس کی مختص رقم سے مختصر مدت کے لئے ملک کو سانس لینے کی مہلت مل جائے گی۔ ایک اندازے کے مطابق سست روی کے باوجود 2022ء میں ترسیلاتِ زر تقریباً 31 بلین ڈالرتک پہنچ سکتی ہیں۔ اگرچہ کووِڈکا بھی ہماری معیشت پہ ویسا تباہ کن اثر نہیں پڑا جیسا پڑوسی ملک بھارت میں پڑا لیکن پھر بھی یہاں براہِ راست غیر ملکی سرمایہ کاری میں نمایاں کمی آئی۔
اس وقت پاکستان کے امریکہ کے ساتھ تعلقات بھی نازک مراحل میں ہیں۔ اگر امریکا اور دیگر مغربی طاقتیں طالبان کے زیر کنٹرول افغانستان کی سفارتی شناخت اور اقتصادی امداد روکے رکھتی ہیں تو پاکستانی معیشت پہ بوجھ مزید بڑھ جائے گا؛ چنانچہ پاکستان کے لیے امریکی حمایت کا پہلا امتحان ستمبر‘ اکتوبر میں آئی ایم ایف کے جائزے کی تکمیل کے ساتھ شروع ہو گا۔ اگر آئی ایم ایف پاکستان کیلئے اپنے پروگرام کو جاری رکھنے کی منظوری دیتا ہے، تو ہمیں سمجھ لینا چاہیے کہ امریکا نے کابل سے انخلا میں پاکستان کی مدد کو اہمیت دی ہے۔