"AAC" (space) message & send to 7575

تبدیلی اور ریاستی بقا کے تقاضے

ملکی اور عالمی قوتوں نے بوجوہ نئے سیاسی بندوبست کی تشکیل کے لیے دس سالوں سے قائم جمے جمائے جمہوری نظام کو اکھاڑ کر جس خوشنما تبدیلی کی جوت جگائی‘ تمام تر دلفریبی کے باوجود اُس تراشیدہ سیاسی بندوبست کو دوام ملا نہ قومی سیاست کے اُن توانا کرداروں کو سیاسی اکھاڑے سے آئوٹ کیا جا سکا جن سے نجات کی خاطر پیچیدہ عمل اور احتساب کیسز سے مدد لی جاتی رہی۔ جولائی2018ء کے الیکشن کے بعد میاں نوازشریف اور مولانا فضل الرحمن جیسے سیاستدانوں نے جس خاموش مزاحمت کی بنیاد رکھی‘ اس نے پی ٹی آئی کو چین سے حکومت کرنے دی نہ اس ہائبرڈ نظام کو جڑیں گہری کرنے کا موقع دیا‘ جس کی تشکیل کی خاطر وسیع پیمانے کی سیاسی و اقتصادی ناکامیوں کا رسک لیا گیا۔ ساڑھے تین سالوں پہ پھیلی اعصاب شکن کشمکش کے بعد زخم خوردہ اپوزیشن لانگ مارچ کی دھمکیوں‘ تحریک عدم اعتماد کے لیے ناقابل یقین جوڑ توڑ اور فارن فنڈنگ جیسے مقدمات کی پیروی کے ذریعے حکومت کو اسمبلیوں کی تحلیل سمیت ادارہ جاتی تنائو کی کیفیت تک لے آئی۔ موجودہ حکومت میں اگر سیاسی نظام کو ریگولیٹ کرنے کی صلاحیت ہوتی تو وہ دیوار سے لگانے کے بجائے اپوزیشن کو انگیج کرکے اپنی کارگزاری بہتر بنا سکتی تھی لیکن افسوس کہ پی ٹی آئی کی لیڈرشپ ملکی سیاست کی حرکیات اور اپوزیشن جماعتوں کی حقیقی قوت کا اندازہ لگانے میں غلطی کربیٹھی۔ اب بھی اگر اپنی کمزور حکومت کوبچانے کی خاطر سیاسی بدعنوانی کا سہارا لینے کے بجائے یہ مستعفی ہو کے عوام میں جائے تو قومی سیاست کو ایسی سنہری روایات دے سکتی ہے جس کے معیار کی مثالیں کنٹینر پہ چڑھ کے دی جاتی تھیں مگر افسوس کہ تیسری دنیا کے لیڈروں نے سیاسی اخلاقیات کا نیا باب رقم کرنے سے ہمیشہ گریز کا راستہ اپنایا اور اس کا نتیجہ مملکتوں کو بھگتنا پڑا۔
اس پیچیدہ سیاسی کشمکش کے دوران حکومت اور اپوزیشن کے مابین واقع خطِ امتیاز پہ چلنے کی کوشش میں پیپلزپارٹی کی پختہ کار قیادت نے بھی اپنی اخلاقی ساکھ اورسیاسی مستقبل کو مخدوش بنا لیا۔ 2018ء کے انتخابات کے فوری بعد جب اپوزیشن نے اسمبلیوں کے بائیکاٹ کا فیصلہ کرکے سسٹم کو مفلوج بنانے کی ٹھانی تو پیپلزپارٹی نے پارلیمنٹ کے اندر مقابلے کی تجویز پہ اصرار کرکے نسبتاً محفوظ راہِ عمل اختیار کرنے کی دلیل دی تھی جسے اپوزیشن جماعتوں نے چار و ناچار قبول کر لیا۔ اسی دوران وزارتِ عظمیٰ کے لیے مسلم لیگ نواز اور سپیکر کے منصب کے لیے پیپلزپارٹی کو امیدوار سامنے لانے کا حق دیا گیا لیکن جب مسلم لیگ نواز نے شہبازشریف کو امیدوار بنایا تو پیپلز پارٹی نے یہ کہہ کر اپوزیشن کا ساتھ دینے سے انکارکر دیا کہ وہ میاں شہبازشریف کو ووٹ نہیں دے سکتی۔ یوں پیپلزپارٹی کی جانب سے پیش کردہ یہ مہمل جواز عمران خان کے وزراتِ عظمیٰ کے منصب تک پہنچنے کی راہ ہموار بنا گیا جس کے بعد اپوزیشن سپیکر کے مقابلے پہ مشترکہ امیدوار لانے کے قابل ہی نہ رہی۔ چیئرمین سینیٹ کے لیے مسلم لیگ کی طرف سے رضا ربانی کو متفقہ امیدوار بنانے کی فراخدلانہ پیشکش کو مستردکرکے صادق سنجرانی کوسینیٹ کا چیئرمین منتخب کرایا گیا اور یوں نئے سیاسی بندوبست کو طاقتور اوراجڑی ہوئی اپوزیشن کو مزید کمزور کر دیا گیا۔ صدراتی انتخاب کے موقع پر بھی مولانا فضل الرحمن کو اپوزیشن کا مشترکہ امیدوار تسلیم کرنے کے برعکس بیرسٹراعتزازحسن کو میدان میں اتارکر ڈاکٹر عارف علوی کو منصبِ صدرات تک پہنچانا پیپلز پارٹی کی ہی کرشمہ سازی تھی۔ شاید اس نئے بندوبست کی اہم بینی فشری کی حیثیت سے اسے یقین ہو گاکہ نوازلیگ اور جے یو آئی جیسی راندۂ درگاہ جماعتیں پھر کبھی صریرآرائے مسند نہیں ہو پائیں گی لیکن اب اِسی ہائبرڈ نظام کی ناکامی کے نتیجے میں تیزی سے بدلتی سیاسی صورتحال نے پیپلزپارٹی کی فرسودہ سیاست کو پیچھے چھوڑ کر جب ایوانِ اقتدار میں اس کے قدم رکھنے کی گنجائش کو کم کیا تو پیپلز پارٹی کی قیادت نے رائیونڈ جاکر خود ہی شہبازشریف کو وزارتِ عظمیٰ کا متفقہ امیدوار بنانے کی پیشکش کرکے اپنی سیاسی بصیرت کی تردید کرنے کے علاوہ ستائیس فروری کو ٹرالی مارچ جیسی بے مقصد مشق کے ذریعے اپوزیشن کی تقسیم کے تاثر کو اجاگر کرنے کی بھی ٹھان لی۔ انہی تضادات نے پیپلزپارٹی جیسی جمہوری پس منظر رکھنے والی جماعت کو پائے رفتن نہ جائے ماندن کی کیفیت تک پہنچا یا ہے۔ بظاہر یہی لگتا ہے کہ اگلے بندوبست میں پیپلزپارٹی کے لیے لیلائے اقتدار سے ہم آغوش ہونے کے امکانات مزید کم ہو جائیں گے۔
ہماری قومی تاریخ میں حکومتوں کی تبدیلی کے لیے سیاسی شورشوں یا انقلابی بغاوتوں کے بھڑک اٹھنے سے قبل ہی مخصوص طریقہ کار کے مطابق ظاہری اور خفیہ مداخلتوں کے ذریعے رجیم چینج کے عمل کو ریگولیٹ کیا جاتا ہے جس سے انتظامی ڈھانچے اورعوامی امنگوں کے مابین ٹکرائو کی نوبت نہیں آتی لیکن فی الوقت پیش بینی میں تاخیر نے حالات کو گنجلک بنا دیا ہے جس سے ایک طرف سیاسی نظام پہ گرفت ڈھیلی پڑ گئی تو دوسری طرف حکومت معاشی اور سیاسی عوامل کو ریگولیٹ کرنے میں ناکامی کی بدولت قوم کی اجتماعی خواہش سے تصادم تک بھی آن پہنچی ہے؛ چنانچہ اس سیاسی بندوبست کو اگر کسی مربوط سیاسی عمل کے ذریعے تحلیل نہ گیا تو حالات بگڑ سکتے ہیں۔ اس لیے مقبول سیاسی جماعتوں کو باہمی تال میل کے ذریعے نئی صف بندی کی راہ دے کر ایسا کشن تیار کیا جا رہا ہے تاکہ ممکنہ سیاسی تبدیلی کی صورت میں مملکت کے اجتماعی وجود کو نقصان سے بچایا جا سکے۔ اسی تناظر میں گورنمنٹ کی اتحادی جماعتوں کی مولانا فضل الرحمن کے علاوہ شہبازشریف سے خفیہ اور علانیہ ملاقاتیں بہت اہمیت اختیار کر گئی ہیں۔ خاص طور پر شہبازشریف کی چودھری بردران سے بات چیت میں عبوری مرحلے کیلئے پرویز الٰہی کو بطور وزیراعلیٰ پنجاب قبول کرنے کی پیشکش غیرمعمولی حالات کا پتا دے رہی ہے۔
دنیا بھر میں سیاست کے ماہرین حکومت کی ناکامی کومعاشیات کے تناظر میں دیکھتے ہیں۔ اگرچہ کساد بازاری حقیقی آزاد منڈی میں موجود نہیں ہوتی لیکن حکومتی مداخلتیں معاشی ناکامیوں کے اسباب مہیا کر دیتی ہیں۔ جدید عالمی نظام میں ایسی گورنمنٹ لوگوں پہ حکمرانی کاحق کھو دیتی ہے جو اپنے شہریوں کی کلیدی ضروریات پوری کرنے میں ناکام ہو جائے۔ کچھ ایسی ہی کوتاہیوں کی کوکھ سے جنم لینے والے مسائل نے پی ٹی آئی گورنمنٹ کو ناکامی کی کھائی تک پہنچایا ہے۔ ایک ایسی صورتحال جس میں کھیل کے قوانین کے مختلف سیٹ ایک ہی ماحول میں ایک ساتھ رہنے کے باوجود شہریوں کو پیچیدہ اور ناقابل یقین حالات کی طرف دھکیل رہے ہیں۔ ریاستی نظام میں سٹیٹس کو برقرار رکھنے والے اہلکاروں کی صلاحیتیں، مہارتیں اور ریاست کے ذیلی نظام کے اندر تنظیمی ثقافت کی جدلیات، مخالف آوازوں اور سیاسی سرگرمیاںکو تشددکے سہارے دبانے کی کوشش سیاسی تنازعات کو مزید بڑھانے کا سبب بھی بن سکتی ہے۔ ان حالات میں ایک ترقی پذیر ریاست کی سیاسی و معاشی ناکامیوں اور جنگ ِدہشت گردی کے مضمرات کو سنبھالنے اور بعد کی تعمیرِ نو کا جائزہ لینے کے لیے تنازعات کی معاشی بنیادوں اور باہمی انحصار کو سمجھنے کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔ بیان کردہ اصولوں کے مطابق گورنمنٹ کی ناکامی کی نوعیت کے بارے میں جاننے کے لیے اس بات کی وضاحت ضروری تھی کہ آخر ترقی پذیر ریاستوں میں سیاسی نظم و ضبط کو کیسے برقرار رکھا جائے۔
درحقیقت ہمیں درپیش مسائل اور موجود شواہد سے پتا چلتا ہے کہ طاقت کے مراکز کی سرپرستی ریاستی لچک میں اہم کردار ادا کرتی ہے لیکن اس تعلق کے بنیادی میکانزم کو برتنے کے لیے بھی مزید تحقیق کی ضرورت پڑے گی۔ حکومت نے سیاسی استحکام کو اہمیت دینے کے بجائے اپنی بقا کی اساس سیاسی بدنظمی پہ رکھی اور یہ سب کچھ محض اتفاق نہیں بلکہ شعوری کوشش تھی کہ حکومت نے دانستہ، پرتشدد کارروائیوں کو محدود رکھنے والی اُس مضبوط قومی سیاسی تنظیم کی طرف کوئی توجہ نہیں دی جس سے ایک مضبوط قوم کی تشکیل کے امکانات پیداکیے جا سکتے تھے۔ اگرچہ اس سے تمام گروہی تنازعات تو ختم نہ ہوتے لیکن یہی پیشقدمی سودے بازی کے لیے ادارہ جاتی تناظرضرور فراہم کرتی جو ریاست کی ناکامی کو متحرک کیے بغیر معاشی جھٹکوں اور بحرانوں کو سہنے کے لیے نسبتاً لچکدار ماحول مہیا کرتا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں