دس دِنوں سے عالمی منظر نامے پہ یوکرین‘ روس جنگ کی بازگشت ہی سنائی دے رہی ہے۔ مذاکرات کے کئی ادوار کے باوجود اب تک جنگ جاری ہے۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق روس نے 15 لاکھ کی اپنی کُل فوج کا لگ بھگ نصف یوکرین میں جھونک دیا لیکن یوکرینی فورسز نے نہایت حکمت کے ساتھ مضبوط روسی فورسز کو انگیج کر لیا، جس سے جنگ کے طول پکڑنے کا امکان بڑھ گیا؛ چنانچہ جلد قابو پانے کی خواہش کے زیر اثر روس‘ آنے والے دنوں میں اپنی مزید فوجیں میدان میں اتار سکتا ہے۔ ابھی تک بڑے پیمانے پہ جانوں کے زیاںکی خبریں تو نہیں ملیں؛ تاہم یوکرینی گورنمنٹ روسی فوج کے مقابل عوام کو میدان میں لانے کی حکمت عملی پہ کام کر رہی ہے، جو کسی بڑے انسانی المیہ کو جنم دینے کا وسیلہ بن سکتی ہے۔ یوکرینی صدر نے ملک میں مارشل لا نافذ کرکے ماسکو نواز لیڈرشپ سمیت روس کے حامی سیاسی کارکنوں کی بڑی تعداد کو جیلوں میں ڈال دیا ہے۔ یہ پیش دستی یوکرین میں نئی داخلی تقسیم کا سبب بنے گی۔ یہ تو واضح ہے کہ جنگ میں روسی فوج کا پلڑا بھاری ہے لیکن یوکرین کی فوج کا متاثر کن پہلو یہ ہے کہ اس نے اپنی مزاحمتی قوت کوتاحال کمزور نہیں ہونے دیا۔ بلاشبہ روس کو یہاں ایسی مزاحمت ملی جس کی اسے توقع نہیں تھی۔ مغربی ذرائع ابلاغ کے مطابق روسی فوجیوں نے یوکرین کے جنوب میں کھیرسن کا کنٹرول سنبھال کر دیگر شہروں بشمول دارالحکومت کیف، شمال مشرقی شہر خارکیف اور جنوب مشرق میں ماریوپول پر حملے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ادھر بیلاروس میںکیف اور ماسکو کے مابین جاری بات چیت کے دوسرے دور میں فریقین نے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر راہداری بنانے کے عارضی منصوبے پر اتفاق کیا ہے۔ روسی حملوں کے باعث اب تک کم و بیش 10 لاکھ سے زائد لوگ یوکرین سے نقل مکانی کر چکے ہیں۔ توقع ہے کہ روس ڈونباس کو ضم کرنے کے علاوہ یوکرین میں روس نواز حکومت کی تشکیل کا ہدف حاصل کرکے ہی جنگ بندی معاہدے پہ راضی ہو گا۔
اب یہ سوال اور زیادہ اہم ہو گیا کہ جوہری ہتھیاروں کا استعمال کیا واقعی صدر پوتن کے لیے آخری آپشن ہو گا؟لاریب، مغربی دانشور یہی سمجھتے ہیں کہ روسیوں کو اب تک یوکرین میں جس مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا اسی نے انہیں اس فیصلے تک پہنچانے میں بنیادی کردار ادا کیا کیونکہ توقع کے برعکس جنگ شاید روس کے ہاتھ سے نکل رہی ہے، اس لیے وہ دوبارہ پہل کرکے کھیل کو بدلنا چاہتا ہے‘ یعنی صدر پوتن چاہتے ہیں کہ ان کے مخالفین غیر متوازن اور خوفزدہ رہیں۔ مغربی ماہرینِ سیاسیات کہتے ہیں کہ ایسا لگتا ہے کہ یہ ناگزیر حربہ تھا جسے بہت جلد کھیلا گیا لیکن امریکا، نیٹو اور یورپی یونین اس سے زیادہ پریشان دکھائی نہیں دیتے کیونکہ ابھی تک امریکی، فرانسیسی یا برطانوی جوہری آپریشن میں کوئی تحریک پیدا نہیں ہوئی۔ جوہری ہتھیاروں کے علاوہ روسی ڈیٹرنٹ میں روایتی وار ہیڈز، جدید کروز اور کم فاصلے تک مار کرنے والے میزائلوں اور ہائپر سونک ہتھیاروں کے ساتھ بیلسٹک میزائلوں کا بڑا ذخیرہ بھی موجود ہے۔ اگرچہ جوہری ہتھیاروںمیں سے متعدد فوری طور پر قابل استعمال نہیں ہوں گے؛ تاہم محتاط اندازے کے مطابق روس کے پاس 2400 سے زیادہ سٹریٹیجک جوہری ہتھیار ہیں جن میں سے زیادہ تر بین البراعظمی بیلسٹک میزائلوں سے منسلک ہیں۔ 1600 ٹیکٹیکل نیوکلیئر ہتھیارہیں‘ جن کی کثرت سمندر سے فراہم کی جائے گی لیکن بہت سے دوسرے ہوائی یا زمینی راستوں سے بھی لائے جا سکتے ہیں؛ تاہم صدر پوتن کی بیان بازی کے باوجود ابھی تک ایسا نہیں لگتا کہ سٹریٹیجک اور نان سٹریٹیجک قوتوں کے رویے میں کوئی تبدیلی آئی ہو۔ اگرچہ جوہری ہتھیاروں کے استعمال کا خطرہ نہ ہونے کے برابر ہے؛ تاہم مغربی ماہرین اب بھی صدر پوتن کی ارادوں پر غور کر رہے ہیں کیونکہ کئی عوامل جوہری ڈیٹرنس کومناسب طریقے سے سنبھالنا ناممکن بنا سکتے ہیں لہٰذا اس کیلئے عقلی فیصلہ سازوں کی ضرورت پڑے گی‘ جیسا امریکا نے 1962ء میں کیوبا میزائل بحران سے سیکھا تھا۔ حکمت عملی کی سطح پر روس کی جانب سے جوہری حملہ بعید از قیاس نہیں لیکن اس کے بعد ردعمل میں خطرناک اضافہ ہو گا۔ امریکی خارجہ پالیسی اور اسرائیلی لابی کے اس پر اثرات پر نظر رکھنے والے ماہرین کہتے ہیں کہ امریکا نے خود نیٹو کو مشرق کی طرف پھیلانے اور یوکرین کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کرنے پر زور دے کر جوہری ہتھیاروں سے لیس طاقتوں کے درمیان جنگ کے خدشات کو بڑھاوا دیا ہے اور یوکرین کے تئیں ولادیمیر پوتن کے جارحانہ موقف کو انگیخت دی ہے۔
2014ء میں روس کے کریمیا سے الحاق کے بعد معروف محقق میئر شیمر نے لکھا تھا کہ اس بحران کی زیادہ تر ذمہ داری امریکا اور اس کے یورپی اتحادیوں پر عائد ہوتی ہے؛ چنانچہ یوکرین پر حالیہ حملے نے امریکا اور روس کے مابین تعلقات کے باب میں کئی دیرینہ تلخیوںکو تازہ کر دیا ہے، ہرچند کہ صدر پوتن کے بہت سے ناقدین استدلال کرتے ہیں کہ وہ سابقہ سوویت یونین کی بحالی کی جارحانہ پالیسی پر عمل پیرا ہیں لیکن میئر شیمر روس کو اکسانے میں امریکا کی غلطی پہ اصرار کرتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا موجودہ جنگ کی تباہ کاریوں سے یورپ کو بچایا جا سکتا ہے؟ کیا روس کا سامراجی طاقت کے طور پر ابھرنا سمجھ میں آتا ہے؟ یوکرین کیلئے صدر پوتن کے حتمی منصوبے کیا ہوں گے؟ ماہرین کے مطابق اس معاملے میں تمام پریشانیاں اپریل 2008ء میں بخارسٹ میں نیٹو کے سربراہی اجلاس سے شروع ہوتی ہیں جس کے اختتام پہ نیٹو نے اپنے جاری کردہ بیان میں یوکرین اور جارجیا کو نیٹو کا حصہ بنانے کے عزم کا اعادہ کیا تھا اور جسے روسیوں نے ایک وجودی خطرے سے تعبیر کرکے اسی وقت ایک سرخ لکیر کھینچ دی تھی لیکن اس سب کے باوجود امریکا نے یوکرین کو نیٹو سے منسلک کرکے اسے روس کی سرحد پر مغربی دفاعی قلعے کے طور پہ استعمال کرنے کی پالیسی جاری رکھی۔ اگر یوکرین امریکا نواز نیٹو اور یورپی یونین کا رکن بنتا تو روس کیلئے یقینا ناقابل قبول ہوتا لیکن اگر نیٹو اور یورپی یونین کی توسیع پیش نظر نہ ہوتی اور یوکرین خود کو صرف لبرل جمہوریت کی حیثیت سے امریکا اور مغرب کے ساتھ دوستانہ تعلقات کی حد تک محدود رکھتا تو شاید وہ آج ایسی بے مقصد جنگ کا میدانِ کارزار نہ بنتا جس میں اسے استعمال کرنے والے یورپی ممالک تنہا چھوڑ گئے ہیں۔ عالمی سیاست کے ماہرین کہتے ہیں کہ یوکرین جیسا چھوٹا ملک جب روس جیسی عظیم طاقت کا ہمسایہ ہو تو اسے توجہ دینا چاہئے کہ ہمسایے کیا سوچتے ہیں، بالکل ایسے جیسے مغربی دنیا کے ممالک‘ جن میں سے بیشتر جمہوری ہیں‘ کو امریکا یہ فیصلہ کرنے کی اجازت نہیں دیتا کہ وہ اپنی مرضی کی خارجہ پالیسی تشکیل دیں۔ کوئی اسے اچھی یا بری بات سمجھے لیکن اسی کو سامراجیت کہتے ہیں۔بڑی طاقتوں کا اپنے وابستگان سے ہمیشہ یہی رویہ رہا ہے۔ امر واقع یہی ہے کہ مغربی دنیا میں اس وقت کوئی ایسا خودمختار ملک نہیں جسے امریکا‘ فوجی دستے اور ہتھیار لانے کیلئے دور دراز کی بڑی طاقت کو مدعو کرنے کی اجازت دے۔ جب کوئی ایسی دنیا بنانے کی کوشش کرے گاجیسی وہ چاہتا ہے تو اسے ان تباہ کن پالیسیوں کا سامنا کرنا پڑے گا جن کا اطلاق امریکا نے جنوبی ایشیا اور مڈل ایسٹ میں کیا۔ لبرل جمہوریتیں بنانے کی آڑ لے کر پوری دنیا پر امریکا چڑھ دوڑا۔ بلاشبہ اس پوری مساعی کا اصل ہدف مشرق وسطیٰ ہی تھا جس میں اسرائیلی ریاست کی توسیع کو ممکن بنانا پیشِ نظر ہے۔ مڈل ایسٹ میں جمہوریت آئی نہ سماجی آزادیاں بحال ہوئیں بلکہ عراق‘ لیبیا اور مصر سمیت کئی ممالک کے لوگ رہی سہی سماجی اورسیاسی آزادیاں بھی گنوا بیٹھے۔ مڈل ایسٹ پہ یلغار کرتے وقت جارج ڈبلیو بش نے کہا تھا کہ اگر ہم عراق میں لبرل جمہوریت لانے میں کامیاب ہوئے تو اس کا اثر شام، ایران، اور آخر کار سعودی عرب اور مصر جیسے ممالک پہ بھی پڑے گا۔ بظاہر بش کے جنگی نظریے کے پیچھے یہی بنیادی فلسفہ کارفرما بتایا گیا تھا لیکن نتائج اس کے برعکس نکلے۔ حتیٰ کہ صدربش کا نظریہ صرف عراق کو جمہوری بنانے میں ناکام نہیں ہوا بلکہ وہ پورے بلادِ عرب کو کبھی نہ تھمنے والی سماجی اور سیاسی شورشوں میں مبتلا چھوڑگیا؛ چنانچہ اب روس کی فوجی پیشقدمی بھی یورپ کو طویل عرصہ تک وقفِ اضطراب رکھ سکتی ہے۔