ترکی کے شہر استنبول میں روس اور یوکرین کے مابین جاری مذاکرات پر بدستور بے یقینی کے سائے منڈلا رہے ہیں‘ اس لیے بات چیت کے مثبت نتائج کی توقع روز بروز کم ہوتی جا رہی ہے۔ کم و بیش تین گھنٹوں تک جاری رہنے والی بات چیت کے حوالے سے بہت کم بریفنگ دی گئی۔ ان مذاکرات کے کچھ اہم نکات اس وقت واضح ہوئے جب یوکرینی وفد کے ارکان نے متوقع تکمیل سے ایک گھنٹہ قبل باہر نکل کر بتایا کہ انہوں نے یوکرین کی سلامتی کی ضمانتوں کے عوض روس کو تجویز دی ہے کہ غیر جانبدار حیثیت کا حامل ایسا بین الاقوامی طریقہ کار‘ جس میں ضامن ممالک مستقبل میں یوکرین کے تحفظ کا طریقہ کار متعین کریں‘ کے بدلے یوکرین روسی مطالبے کی تکمیل کی خاطر نیٹو میں شمولیت کے ارادے سے دستبردار ہوجائے گا۔ اگرچہ یوکرین کی طرف سے یہ کوئی نیا عہد نہیں تھا لیکن اسے پہلی بار نہایت وضاحت سے بیان کیا گیا۔ یورپ میں اس وقت جنگ سے بھی زیادہ مہیب مسئلہ فریقین کے مابین پائی جانے والی بداعتمادی کی وہ خلیج ہے جو بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ یوکرین پر حملے کے وقت اور اس سے بہت پہلے صدر پوتن نہایت واشگاف الفاظ میں کہہ چکے ہیں کہ وہ محض وعدوں پر نہیں بلکہ نیٹو میں یوکرین کی عدم شمولیت کی ٹھوس قانونی ضمانتوں کے حصول تک جنگ سے پیچھے نہیں ہٹیں گے لیکن امریکا سمیت نیٹو ممالک ایسی قانونی ضمانتوں کی فراہمی سے ہچکچاتے رہے جو روسی جارحیت کی راہ روک سکتی تھیں۔ اب میدانِ جنگ میں بالادستی حاصل کر لینے کے بعد روسی سکیورٹی اشرافیہ کی توجہ کا محور جنگ بندی کے کسی بھی معاہدے تک پہنچنے سے قبل یوکرین کے صدر زیلنسکی کی حکومت کی تبدیلی ہے۔ اس لیے یوکرین میں ولودیمیر زیلنسکی حکومت کی موجودگی میں جنگ بندی کے معاہدے کا امکان بعید ازقیاس نظر آتا ہے۔ اس کے باوجود نیٹو ممالک فی الحال روس کے بنیادی تحفظات کی خاطر ٹھوس ضمانتیں مہیا کیے بغیر جنگ بندی کی راہیں تلاش کرنے میں سرگرداں ہیں۔
اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ یورپ اگر کسی بڑی جنگ کی تباہ کاریوں سے بچنا چاہتا ہے تو اسے یوکرین کی نیٹو میں شمولیت کی سوچ سے دستبرداری کے علاوہ زیلنسکی گورنمنٹ کی قربانی بھی دینا پڑے گی بصورت دیگر یہ تنازع پورے
یورپ کو اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ صدر زیلنسکی نے شمالی یوکرین میں فوجی سرگرمیوں کوکم کرنے کے روسی دعوے کو مشتبہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ''یوکرینی اتنے سادہ لوح نہیں‘خالی خولی زبانی یقین دہانیوں پہ اپنی جغرافیائی حدود کیلئے جاری دفاعی مزاحمت ترک نہیں کریں گے‘‘۔ صدر زیلنسکی نے رواں ہفتے کے اوائل میں وڈیو خطاب میں یہ بھی کہا تھا کہ ''یوکرینیوں نے جارحیت کے ان دو ماہ کے علاوہ ڈونباس میں گزشتہ آٹھ سالوں کی جنگ کے دوران‘ پہلے ہی یہ تہیہ کر لیا تھا کہ روسی قیادت کی زبانی یقین دہانیوں پہ نہیں بلکہ صرف ٹھوس اقدامات پر بھروسہ کیا جائے گا‘‘۔ ادھر روسی نائب وزیر دفاع الیگزینڈر فومین نے استنبول میں میڈیا سے بات چیت میںکہا ہے کہ ماسکو نے باہمی اعتماد کو بڑھانے‘ مستقبل کے مذاکرات کیلئے سازگار فضا ہموار کرنے اور یوکرین کے ساتھ امن معاہدے جیسے حتمی مقصد تک پہنچنے کی خاطر ہی کیف کی سمت فوجی پیشقدمی روکی ہوئی ہے؛ البتہ یوکرینی صدر کہتے ہیں کہ تازہ ترین بات چیت سے کچھ ''مثبت‘‘اشارے ضرور ملے ہیں؛ تاہم یہ روسی گولوں کی گھن گرج کو ختم نہیں کر سکے بلکہ حقیقت یہی ہے کہ میزائل اور فضائی حملے بند نہیں ہوئے‘ اب بھی ہماری سرزمین پہ دشمن کے قدموں کی چاپ سنائی دے رہی ہے اور دیگر شہروں پہ بمباری کے علاوہ ماریوپول کی تباہی انہی دلخراش حقائق کا زندہ اظہار ہے۔
میڈیا کے مطابق یوکرین کی مسلح افواج کے جنرل سٹاف نے تازہ ترین انٹیلی جنس رپورٹ میں بتایاہے کہ روسی فوجیوں کے کیف اور چرنی ہیو سے انخلا کی بازگشت کا مقصد یوکرینی فوجی کمانڈکو گمراہ کرنے کے سوا کچھ نہیں۔ یوکرین کے شکوک و شبہات کی یہ گونج دراصل مغربی رہنمائوں اور سفارتکاروں کی اس متعین سوچ کا عکس دکھائی دیتی ہے جس میں انہوں نے یوکرین کے بعض علاقوں سے روس کے جزوی انخلا پہ گہرے شکوک کا اظہارکرکے ایسے اقدامات کو روایتی جنگی چالوں سے مماثل قرار دیا تھا۔ واشنگٹن نے کہا ہے کہ ہم روسی تجاویز میں سے کچھ نہیں پڑھتے جب تک یہ نہ دیکھ لیں کہ برسرزمین عملاً کیا ہونے جا رہا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن کا کہنا تھا کہ انہیں ایسی کوئی چیز دکھائی نہیں دی جس سے یہ ظاہر ہو کہ مذاکرات تعمیری انداز میں آگے بڑھ رہے ہیں۔ انہوں نے خدشہ ظاہر کیاکہ روس کے پیچھے ہٹنے کے اشارے ماسکو کی طرف سے''لوگوں کو دھوکا دینے اور ان کی توجہ ہٹانے‘‘ کی کوشش ہو سکتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ''روس کیا کہتا ہے اور کیا کرتا ہے‘ ہم مؤخر الذکر پر توجہ مرکوز رکھے ہوئے ہیں‘‘۔ برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن کے ترجمان نے بھی یہی کہا ہے کہ برطانیہ نے کیف کے ارد گرد روسی بمباری میں 'کچھ کمی‘کے آثار ضرور دیکھے ہیں لیکن ہم پوتن حکومت کے فیصلوں کو ان کے الفاظ سے نہیں‘ اعمال سے جانچیں گے اور ہم یوکرین کی سرزمین سے روسی افواج کے مکمل انخلا سے کچھ کم نہیں دیکھنا چاہتے‘‘۔ برطانیہ کی وزارتِ دفاع (ایم او ڈی) نے کہا ہے کہ ''یہ تقریباً یقینی ہے کہ روسی حملہ کیف کے محاصرے جیسے ہدف کے حصول میں ناکام رہا‘‘۔ برطانیہ کے دفاعی اتاشی مک سمتھ نے اسی خیال کا اعادہ کیا کہ ''کیف کے ارد گرد جنگی سرگرمیوں میں کمی کے حوالے سے روسی بیانات اور ان علاقوں سے کچھ روسی یونٹوں کے انخلا کی اطلاع ملنے سے روس کی اس کمزوری کی نشاندہی ہوئی کہ اس نے خطے میں پہل کاری کھو دی ہے‘‘۔ انہوں نے
مزید کہا کہ اس بات کا قوی امکان موجود ہے کہ روس شمال سے جنگی طاقت کو مشرق میں دونیسک اور لوہانسک کے علاقوں میں جاری مہمات کی طرف موڑنے کی کوشش کرے گا، مغربی حکام روسی وعدوں کے بارے میں اس لیے محتاط ہیں کہ انہیں مذاکرات میں صدر پوتن اور ان کے ساتھیوں کی سنجیدگی نظر نہیں آتی۔پنٹاگون کے پریس سیکرٹری جان کربی نے کریملن کے دعووں پر 'خود کو بیوقوف بنانے‘کی کوشش قرار دیتے ہوئے خبردار کیا کہ پچھلے دنوں کیف سے دور کچھ روسی یونٹوں کی موومنٹ ہمیں صاف دکھائی دی‘ اسے ہم واپسی کی نہیں بلکہ پوزیشن بدلنے کی حرکت سے تعبیر کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا ہم سب کو یوکرین کے دیگر علاقوں پر بڑے حملوں کے لیے تیار رہنا چاہیے۔
یوکرین نے استنبول میں روسی مذاکرات کاروں کو امن کیلئے جو فریم ورک پیش کیا اس میں نیٹو کے آرٹیکل 5 کی طرز کے انتظامات میں امریکا، برطانیہ، فرانس، ترکی، چین اور پولینڈ پہ مشتمل تیسرے فریق کے ذریعے اپنی سلامتی کی ضمانت مانگی گئی ہے۔ یوکرین نے یہ بھی کہا کہ وہ کریمیا کی حیثیت کے بارے میں 15 سالہ مشاورتی مدت کی تجویز قبول کرنے پر راضی ہے؛ تاہم دونوں ممالک نے اس مسئلے کو حل کرنے کیلئے اُس وقت بھی فوجوں کو استعمال نہ کرنے پر اتفاق کیا تھا مگربعدازاں یہ سمجھوتا برقرار نہ رہ سکا۔ ترک وزیر خارجہ پُرامید ہیںکہ فریقین ہر لمحہ مسئلے کے حل کے قریب آ رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ استنبول مذاکرات اگلے مرحلے میں روسی اور یوکرینی وزرائے خارجہ کے مابین ملاقات کا وسیلہ بن سکتے ہیں لیکن تجزیہ کاروں نے خبردار کیا ہے کہ کریملن کی جانب سے ان مطالبات کو آسانی سے تسلیم کیے جانے کا کوئی امکان نہیں۔ وہ بہت زیادہ پُرامید نہیں ہیں۔ یوکرین کی طرف سے پیش کردہ تجاویز پر روسی ردعمل ابھی تک سامنے نہیں آیا۔ ماہرین کہتے ہیں کہ کیف کی تجاویز پوتن حکومت کیلئے ناقابل قبول نظر آتی ہیں، جس نے اپنے ذہن میں کریمیا کا سوال بہت پہلے ہی طے کر لیا تھا، اس لیے روس کی فوجی واپسی صرف ایک عارضی سٹریٹیجک قدم تو ہو سکتا ہے‘ مسئلے کا پائیدار حل نہیں ہو گا۔ یوکرین کے سینئر صدارتی مشیر میخائلو پوڈولیاک نے کیف کی جانب سے پیش کردہ غیرجانبدار گارنٹرز کی تجویز کو اپنی سرزمین اور خودمختاری کے تحفظ کا مؤثر وسیلہ قرار دیاجو ضامن بن کر مخصوص قانونی ذمہ داریاں سنبھالیں گی اور کسی بھی جارحیت کی صورت میں مداخلت کا حق رکھتی ہوں گی۔ پوڈولیاک نے کہا کہ کریمیا کے بارے میں تجویز بھی'انقلابی‘ تھی کیونکہ کریمیا یقینا یوکرین کیلئے اب بھی اس کا حصہ ہے۔ صدر زیلنسکی نے ڈنمارک کی پارلیمنٹ سے خطاب میں روسی بمباری اور ساحلی شہر ماریوپول کے محاصرے کے دوران کم و بیش 5 ہزار افراد کی مبینہ ہلاکت کو انسانیت کے خلاف جرائم سے تعبیر کیا ہے۔ یوکرین پر ماسکو کے حملوں میں‘ جو 24 فروری کو شروع ہوئے تھے‘ ایک اندازے کے مطابق 20 ہزار افراد ہلاک، ایک کروڑ سے زیادہ بے گھر ہوئے جبکہ 38 لاکھ کے لگ بھگ شہری ملک سے نقل مکانی کر چکے ہیں۔ یوکرینی حکام کا کہنا ہے کہ وہ جنگ بندی کے معاہدے کی زیادہ امید کر رہے ہیں کیونکہ وہ روس کے ساتھ ذاتی طور پر مذاکرات کے ایک نئے دور میں داخل ہو رہے ہیں۔ یوکرین کے وزیر خارجہ کے مطابق ان کا ملک فوری طور پر لڑائی کو روکنے کی کوشش کرے گا،یوکرین نے متنازع علاقے پر مذاکرات کے لیے کھلے پن اور نیٹو میں شامل ہونے کے ارادے سے دستبردار ہونے کا اشارہ دے دیا ہے لیکن کریملن حکام نے یوکرین پر مذاکرات کا ڈرامہ رچانے کا الزام عائد کرکے جنگ بندی کی طرف کسی پیش رفت کی امیدوں کو کم کر دیا ہے۔