"AAC" (space) message & send to 7575

مزاحمت

اقتدار کی راہداریوں سے نکلتے ہی عمران خان نے مخالفین کے ساتھ سیاسی جنگ کو شعلہ فشاں بنا کر کسی حد تک اپنے جذبات کی تسکین تو حاصل کر لی ہو گی لیکن یہی کشمکش خود اسے اور ان کے پیروکاروں کو بہت جلد تھکن اور بیزاری کے احساس میں مبتلا کر دے گی۔ بلاشبہ سیاسی جدلیات طویل اور صبرآزما جدوجہد کی متقاضی ہوتی ہیں، غصہ اور نفرت کے جذبات سے نہیں بلکہ تحمل اور دانائی کی صفات سے انہیں سنبھالنا پڑتا ہے۔ خان صاحب اگر ٹھنڈے دل و دماغ سے مخالفین کی سیاسی چالوں کا بغور جائزہ لینے کے بعد اپنی سیاسی قوت کو ایک نکتے پہ مجتمع کرکے اس کا درست تخمینہ لگاتے تو انہیں موجودہ منظرنامہ بہت مختلف نظر آتا۔ اب بھی جنگ کے شعلے بھڑکانے کے بجائے وہ اگر خاموش مزاحمت کی آگ کو آہستہ آہستہ سلگنے کا موقع دیں تو لمبی لڑائی لڑ سکتے ہیں‘ بصورتِ دیگر یہ عجلت اُس مقصد کو بھی غتربود کر دے گی جس کے لیے لوگ قربانیاں دینے پہ کمربستہ ہیں مگر افسوس کہ خان صاحب نے بغیر کسی مؤثر منصوبہ بندی کے محفوظ آئینی و قانونی مورچے چھوڑ کر خود کو دشمنوں کے نشانے پہ لا کھڑا کیا۔ انہوں نے بلاسوچے سمجھے سطحی قسم کے پرتشدد ردعمل کے الاؤ بھڑکا کر اپنے حامیوں کو لاحق خطرات میں اضافہ کرنے کے ساتھ رہی سہی سیاسی استعداد کو بھی دائو پہ لگا دیا۔ لگتا ہے کہ ان کے دو رفقا‘ شیخ رشید اور فواد چوہدری‘ ہمہ وقت تند و تیز بیان بازی سے سیاسی فضا میں اشتعال بڑھانے پہ مامور ہیں۔ خاص طور پہ مسجد نبویﷺ کے بے مقصد احتجاج نے انہیں حالات کے رحم و کرم کے حوالے کر دیا ہے۔ ایک اچھا جرنیل ہمیشہ اپنی مرضی کے وقت اور اپنی پسند کے میدان میں جنگ لڑتا ہے لیکن عمران خان نہ تو جنگی مہارت رکھتے ہیں نہ وہ خود کو قابو میں رکھنے والے پختہ کار سیاستدان ثابت ہوئے ہیں۔ انہوں نے آئینی اور قانونی اصولوںکا مقابلہ غیرآئینی حربوں اور جذباتی ردعمل سے کرکے خود کو ناکام سیاستدان ثابت کرنے میں تاخیر نہیں کی۔ حیران کن امر یہ ہے کہ ابھی تک وہ سنبھل نہیں رہے‘ ہر روز پچھلی غلطی کی تلافی کے لیے وہ نئی غلطی کرکے اپنے حامیوں کو کنفیوز اور مخالفین کو مضبوط بنانے میں مشغول دکھائی دیتے ہیں۔ ایوانِ اقتدار سے رخصتی کے وقت انہوں نے اپنی مستقبل کی سیاسی مہم کے لیے جن طریقوں کو چنا ‘وہ باوقار نہیں تھے، خاص طور پر پنجاب میں آئینی بحران پیدا کرکے جس طرح ٹامک ٹوئیاں ماری گئیں‘ وہ بھی کسی قومی لیڈر کے شایانِ شان نہیں تھیں‘ نہ ہی ان سے کو ئی نفع ملا، بلکہ اسی بچگانہ تعلّی سے نواز لیگ سمیت مخالفین نے خوب فائدہ اٹھایا۔ بیشک ذرا سی کسرنفسی اور تھوڑی سی دیانت ہمیں اس بات کا یقین دلانے کے لیے کافی تھی کہ زندگی اور کائنات کا تنوع اور بوقلمونی ہمارے محدود اذہان کے احاطے سے باہر ہے۔
ستم بالائے ستم یہ کہ رجیم چینج سازش کے مبینہ محرک امریکا کے بجائے پی ٹی آئی کے کارکنوں کی تنقید کا ہدف اداروں کی طرف مڑ گیا‘ یہ مہلک طرزِ عمل ہے جس سے مملکت کی سلامتی اور قومی وحدت میں دراڑیں پڑیں گی۔ سیاست کا مقصد افراد کو ریاست کی صورت میں منظم کرنا ہوتا ہے لیکن جب نفرت اور غصہ کے عالم میں سوسائٹی کو منقسم کیا جائے گا تو سیاست انارکی اور طوائف الملوکی پیدا کرنے والی مشین بن جائے گی۔ خان صاحب کے نامطلوب تعلقات نے بھی انہیں کمزور کیا، خاص طور پر ایک خاتون‘ نیب جس کے خلاف آمدن سے زائد اثاثہ جات کے الزام میں انکوائری کر رہا ہے، کی صفائی دینے کی کوشش میں سابق وزیراعظم نے خود کوجوابدہی کے کٹہرے میں لا کھڑا کیا ہے۔ وہ اگر خاموش رہتے تو زیادہ بہتر ہوتا۔ ہرمعاشرے میں ایسے کردار اپنی بقا کے وسائل خود تلاش کر لیتے ہیں، مصرکے بازاروںسے لے کر یونان، روم اور ہندوستان تک کے پُرشکوہ درباروں تک میں انہی ناقابل تسخیر کرداروں کی داستانیں بکھری پڑی ہیں۔ خان صاحب حسِ مزاح بھی نہیں رکھتے ورنہ ایسی باتیں ذومعنی جملوں یا پھردلکش اشعار میں نمٹائی جا سکتی تھیں لیکن اب وہ مزاج کے قیدی کی طرح‘ صحافیوں کے سوالات کا سامنا کرنے سے گھبراتے ہیں۔ گویا وہ اس نفسیاتی جنگ کا پہلا مرحلہ ہار بیٹھے، یہ طرزِ عمل انہیں بہت جلد اکتاہٹ اور مایوسی کے گڑھے کی طرف دھکیل دے گا۔
لگتا ہے کہ خان کے پاس کہنے کے لیے کچھ نہیں بچا۔ وہ اب اپنی بیڈ گورننس کی ذمہ داری کا بوجھ خود لینے کے بجائے اسے رجیم چینج کے نعروں کے پیچھے چھپنے یا اسے روایتی ہتھکنڈوں کی طرح مقتدرہ کے کندھوں پر ڈالنے کی کوشاں ہیں؛ تاہم یہ مسئلہ اتنا سادہ نہیں کہ اسے دو اور دو چار کی طرح محض الزامات کی دھند میں چھپا لیا جائے۔ اس میں کوئی دو آرا نہیں ہیں کہ یہاں سیاسی جماعتوں کے عروج و زوال کے عوامل میں مقتدرہ کو ایک مضبوط عنصر کے طورپر کارفرما دیکھا گیا لیکن سیاسی عمل جب اپنے کلائمکس پہ پہنچتا ہے تو مقتدر قوتیں انہیں مکمل طور پہ کنٹرول کرنے پہ قادر نہیں رہتیں‘ عمران خان کی طرح‘ ذوالفقار علی بھٹو سے لے کر نوازشریف تک کو پیدا کرنے والی ایک ہی قوت تھی لیکن ایک خاص مرحلے پہ پہنچ کے یہ سب اس کے دبیز سایے سے باہر نکل گئے۔ اس نے ہمیشہ عوامی قوت کو شہری و دیہی کے علاوہ متوسط اور نچلے طبقات اوراب تارکین وطن کی شناخت میں منقسم رکھا لیکن یہی پیش دستی خود اداروں میں بھی افقی اور عمودی تقسیم کا وسیلہ بنی۔ ایک دلچسپ حقیقت یہ بھی ہے کہ وہ قوتیں جنہوں نے 2018ء میں عمران خان کو اقتدار تک پہنچایا تھا‘ وہ پرانے سیاسی کرداروںکا مقابلہ کرنے کے لیے متبادل رہنما کے خیال کی اصل خالق نہیں تھیں۔ وہ ہمیشہ ایماندار سیاستدان یا مثالی کردار کے حامل کسی ایسے مسیحاکی متلاشی رہتی ہیں جو مملکت کا نظم و نسق نسبتاً مؤثر انداز میں چلائے جبکہ وہ خود ریاست کی سٹریٹیجک سمت کا تعین کرتی رہیں؛ تاہم ان کی پارلیمانی سیاست اور منتخب سیاستدانوں سے مختلف سوچ کی تاریخ کافی پرانی ہے اور اس کے ڈانڈے جنرل ایوب خان کے سیاسی تجربات سے جا ملتے ہیں جس کی آرکیٹیکٹ اس وقت کی امریکی مقتدرہ کو کہا جاتا ہے۔ تاریخی طور پر اس مقتدرہ نے روایتی نوابوں، وڈیروں اور جاگیرداروںکے ساتھ شراکت اقتدار کی اور انگریزی روایت کو قائم رکھا گیا لیکن اس کی خواہش یہ تھی کہ کوئی ایسا شخص ہو جو زیادہ جدید اور اس جیسا نظر آئے، اسی اصول کے تحت خان صاحب پر نظر کرم کی گئی جنہوں نے نطشے کے سپرمین کی طرح غالباً تمام چھوٹے کرداروں کو نگلنے کی ٹھان لی۔شاید اب خان کے ساتھ مثالیت کے اس خیال کو بھی چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے جو سرد جنگ میں ودیعت کیا گیا تھا مگر بہت سے لوگوں کو اب ایسے رومانس سے الگ کرنا دشوار ہو گا، خاص طور پر وہ مغربی قوتیں جو مثالیت کی ڈاکٹرائن کی سب سے بڑی بینی فشری ثابت ہوئیں۔
ارسطو نے کہا تھا ''سیاست انسان تخلیق نہیں کرتی بلکہ جیسے لوگ اسے میسر آتے ہیں یہ انہی سے کام لیتی ہے‘‘۔ مگر ہم پچھتر سال تک سیاست کیلئے من مرضی کے کرداروں کی تخلیق کے عمل میں سرگرداں رہے۔ پی ٹی آئی کے رہنما کی اقتدار سے علیحدگی نے اس شہری متوسط طبقے میں بھی تقسیم بڑھا دی جس میں سے بڑی تعداد سرکاری و ریاستی اداروں سے وابستہ ہے۔ درحقیقت یہ پہلا موقع نہیں کہ ایک ایسی حکومت سے چھٹکارا حاصل کیا گیا جو مہنگی ثابت ہوئی یا جو چیلنج کر رہی تھی بلکہ اس کی دوسری بہترین مثال نواز شریف ہیںجنہیں ضیاء الحق نے 1980 کی دہائی میں پیپلز پارٹی کو چیلنج کرنے کے لیے کھڑا کیا تھا لیکن پھر کئی بار انہیں سیاست سے آئوٹ کرنے کی کوشش کی گئی۔ ہاں! عمران کا معاملہ اس لحاظ سے مختلف ہے کہ ماضی کی کہانیوں کے مقابلے میں ان کے خلاف اب تک کرپشن کے الزامات میں کوئی خاص اضافہ نہیں ہوا۔ لوگوں کے خیال میں‘ خاص طور پر وہ لوگ، جو خان صاحب کی وضاحتوں پر یقین کرنا چاہتے ہیں‘ وہ رقم جو 52 سرکاری تحائف بیچ کر حاصل کی گئی یا پھر وہ کروڑوں روپے جو اپنی رہائش گاہ سے وزیراعظم ہائوس کے مابین ہیلی کاپٹر کی سواری پر خرچ کیے گئے‘ اس کرپشن کے مقابلے میں کچھ نہیں جو پاناما پیپرز میں ملوث افراد یا پھر سابق صدر زرداری سے منسوب کی جاتی ہے۔ پچھلے ڈیڑھ سال سے‘ جب وہ زیادہ سے زیادہ گورننس کے چیلنجز کا سامنا کر رہے تھے‘ تو عمران خان نے مسلسل اس افسانے کی حوصلہ افزائی کی کہ ان کا ناقص انتظام یا تو نااہل ٹیم کی وجہ سے ہے یا پھر انہیں کام کرنے کی اجازت نہیں دی گئی اور یہی بعد کی وضاحت انہیں ٹکرائو کی طرف لے آئی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں