یورپ کی طرح ہماری قومی سیاست بھی نظریات اور اخلاقی نصب العین کے جھمیلوں سے نکل کر پھر انہی نسلی، لسانی اور گروہی تعصبات کے دائروں میں سمٹ رہی ہے جہاں نفرتوں کی دھار کے سوا کوئی اور چیز کارگر ثابت نہیں ہوتی۔ امریکا میں ریپبلکن لیڈر ڈونلڈ ٹرمپ نے کالے‘ گورے، بھارت میں بی جے پی نے ہندو‘ مسلم اور پاکستان میں پی ٹی آئی کی عمرانی جدلیات اس رجحان کی کلاسیک مثالیں ہیں کہ جس میں عصبیتوں کو سیاسی ارتقا کا زینہ بنایا گیا۔ دنیا بھر میں مروجہ، آئین و قانون پہ مبنی سیاسی نظام، سماجی انصاف اور جمہوری روایات عہدِ جدید میں انسانی آرزوئوں کی تسکین کے لیے ناکافی ثابت ہونے والے ہیں۔ شاید سائنس و ٹیکنالوجی کی ترقی کے غرور نے انسان کو تہذیبی شعور اور ان بنیادی اخلاقی اقدار سے بے پروا کر دیا ہے جو ہماری بقا کی ضامن ہیں۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ نینوا کے حمورابی (1792ق م)سے شروع ہونا والا سماجی و سیاسی ارتقا کا سفر رائیگاں چلا جائے گا اورانسان تہذیب و تمدن کو اجاڑ کے پھر اسی حیوانی زندگی کی طرف واپس پلٹ جائے گا جس کی تسخیر کے لیے انبیاء کرام، صلحا اورفلسفیوں نے لازوال قربانیاں دیں۔ سائنس وٹیکنالوجی کی ترقی ہمیں دنیا کو تباہ کرنے کی قوت تو فراہم کرتی ہے لیکن وہ ہمیں ایسا تہذیبی شعور عطا نہیں کر سکتی جو بقا کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہو۔ یہ بغداد اور دمشق جیسے پُرہجوم شہروں کو ویران اور انسانی فنون کے بہترین مراکز کو برباد کر سکتی ہے، یہ ایک پوری تہذیب اور اس کے حسن و حکمت کا نام و نشان مٹا سکتی ہے۔ سائنس ہمیں یہ تو بتائے گی کہ اس کرۂ ارض کی تخریب کا کام کس قدر جلد ممکن ہے؛ تاہم سائنس ہمیں انسانیت کی بقا کے لیے درکار اخلاقی اقدار مہیا نہیں کر سکتی۔ کیا صدیوں کی گود میں پل کے جوان ہونے والی تہذیبوں کو مٹا دینا چاہئے؟ کون سی سائنس اس سوال کا جواب دے سکتی ہے؟ زندگی جلب‘ منفعت اور جنونِ ملکیت سے خوشگوار بنتی ہے یا تخلیق و تعمیر سے؟ کیا علم اور منفعت کی جستجو مشاہدہ حسن کی ہنگامی مستی سے فزوں تر ہے؟ کیا ہمیں اپنی اخلاقی زندگی سے تمام الٰہیاتی عقائد کو خارج کر دینا چاہئے؟ کون سی سائنس ہمیں ان مسائل کا حل بتائے گی؟ زندگی کے یہ بنیادی مسائل مربوط تجربات اور اس آسمانی ہدایت کے بغیر حل نہیں ہو سکتے جس کے سامنے انسانی علم محض ہیولیٰ ہے اور جس کی نگاہ کامل میں جملہ علوم کو مناسب مقام اور درست تشریح ملی۔
کیاکائناتی نظام سے منحرف ہوتا ہمارا گلوبل معاشرہ پھرکسی ایسی یزدانی ہدایت کا متقاضی ہے جو اسے فطرت سے وابستہ ہونے کے لیے مؤثراخلاقی جواز فراہم کرے؟ ہاں ! تاریخ ہمیں یہی بتاتی ہے کہ جب بھی انسانیت سلامتی کی راہوں سے بھٹکی تو اس نے اپنی مدد کے لیے فطرت کو ضرور پکارا جو بالآخر اسے آسمانی ہدایت فراہم کرکے بار بار راہِ راست پہ لاتی رہی لیکن فطرت کے ساتھ زمینی انسان کی کوآرڈی نیشن کے وہ سلسلے تو ساڑھے چودہ سو سال سے منقطع ہیں جنہیں ہم رسالت و نبوت کے طور پہ جانتے ہیں؛ تاہم مذہبی علما اس خلا کو مسیحِ موعود اورظہورِ مہدی کے امکان سے پُر کرتے ہیں‘ یعنی خدا کے پیغمبروں کی طرف سے فراہم کردہ اصولوں کی روشنی میںکوئی مسیحا یا صاحبِ کردار ہی انسانی فطرت سے ہمارے ربط کو دوبارہ بحال کر سکتا ہے۔
اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ جس روز انسان نے فطرت سے ہاتھ چھڑایا‘ اسی دن یہ زمین فناکے گھاٹ اتر جائے گی۔ بظاہر یہی لگتا ہے کہ انسان زیادہ دیر تک اس کائنات کے ساتھ اپنے ربط کو استوار رکھنے میں کامیاب نہیں ہو پائے گا اور کائناتی نظام میں کارفرما فنا کے عوامل اسے بہت جلد اپنی لپیٹ لے لیں گے۔ اس امر میں اب کوئی شک وشبہ باقی نہیں رہا کہ اکیسویں صدی کی برق رفتار انفارمیشن ٹیکنالوجی نے سماجی زندگی میں نظریات اور نصب العین کی اہمیت کو بتدریج کم کرکے لوگوں کو انسانی حقوق کی پاسداری، سماجی و معاشی اقدار اور مساوات کے نعروں سے بیگانہ کرکے ایک بار پھر آبائی جبلتوں کے حصار میں پناہ گزیں ہونے کی طرف مائل کر دیا ہے۔ ممکن ہے کہ بعض لوگ اسے زندگی کی تفہیم کا محوری سفر سمجھتے ہوں لیکن یہی تغیر وتبدل ایک بار پھرانسان کو مذہبی اخلاقیات کی ضرورت پہ قائل کر سکتا ہے۔ یورپ و امریکا کے دم توڑتے سیکولر معاشروں میں بھی بقا کے تقاضے انہیں مذہب کی ضرورت اور اہمیت کی طرف موڑ رہے ہیں۔ اس زمین پہ انسانی فکرکا ارتقا خطِ منحنی کی طرح نظریاتی تضادات سے شروع ہوا، یہ تضادات زیادہ تر مابعدالطبیعیاتی اور فلسفیانہ تھے۔ خاص طور پر زندگی و موت کے فلسفے کے علاوہ اس کائنات کی تخلیق اور انجام کے حوالے سے متنوع تصورات ہمیشہ انسانی فکر کا محور بنتے رہے۔ نینوا کے حکمران حمورابی وہ پہلے بادشاہ تھے جنہوں نے مختلف قبائل کو مسخر کرکے پہلی بار ایسی ریاست قائم کی جس میں قانون کی عملداری کا تجربہ کیا گیا، ہاتھ کے بدلے ہاتھ اور سر کے بدلے سر سمیت حرمتِ جاں کا وہ قانون بھی حمورابی سے منسوب ہے، جس کی توثیق الہامی لٹریچر نے بھی کی۔ سیاسی و سماجی ارتقا کے دوسرے مرحلے میں انسانوں نے آئینی بادشاہتوں کا دلفریب زمانہ دیکھا۔ تاریخ میں ہمیں سائرس اعظم اور نوشیروان عادل سمیت کئی عظیم بادشاہوں کا تذکرہ ملتا ہے جنہوں نے لوحِ انسانیت پہ ناقابلِ فراموش نقش چھوڑے۔ تاریخ کے تیسرے مرحلے میں ہمیں یونان سمیت بحیرۂ روم کے ساحلی علاقوں میں جمہوری تمدن پھلتا پھولتا دکھائی دیا جس نے ڈھائی سو سال قبل مسیح میں حکمت و اخلاق کے اس لازوال فلسفے کی آبیاری میں معاونت کی جو بالآخر جدید یورپ کی پُرشکوہ تہذیب کو بنیادیں فراہم کر گیا۔
پہلی عیسوی صدی میں روم میں ایسی پُرآشوب انبوہی سیاست ابھرکے سامنے آئی جس نے کم وبیش ہزار سال تک مغرب کو پاپائیت کے سپرد رکھا اور جس نے علم و سائنس کے دروازے بند کرکے طویل مدت تک یورپ کو جہالت کی تاریکیوں میں ٹھوکریں کھانے پہ مجبور کر دیا۔ دسویں عیسوی صدی میں اُس وقت اسلام کی نورانی کرنوں نے یورپ میں علم و آگاہی کی شمعیں روشن کیں جب یورپ کے مکین ٹٹول ٹٹول کے جہالت کی تاریکیوں سے نکلنے کی کوشش میں مصروف تھے۔ مسلمانوں کے بحرِ علم کی بدولت یورپ یونانی فلسفے کی مبادیات سے واقف ہوا جس سے وہاں ایسی جاندار فکری مزاحمت نمودار ہوئی جسے آلاتِ تحریر اور چھاپہ خانوں کے ذریعے فروغ ملنے کی بدولت فلسفے اور سائنس کی خوبصورت کونپلیں پھوٹنے لگیں۔ گلیلیو اور فرانسس بیکن سے لے کر والٹیئر، روسو، نطشے ڈیڈرو، شوپن ہار اور ایمانوئل کانٹ سمیت دانشوروں، سائنس دانوں، ادیبوں اور شاعروں کی ایسی کہکشائیں نمودار ہوئیں جنہوں نے یورپ کو پاپائیت کے آسیب سے نجات دلانے کے علاوہ مذہبی و سماجی آزادیوں، انسانی حقوق اور جمہوری آزادیوں کی راہ دکھائی اور جس سے علم و ہنر اور سائنس و ٹیکنالوجی کی ترقی کی راہیں کھلتی گئیں۔
اٹھارہویں صدی عیسوی تک یورپ اپنے جدید رموزِ حکمرانی، جمہوری تمدن اورعلمی برتری کی بدولت پورے کرۂ ارض پہ چھا چکا تھا؛ تاہم فطری اخلاق سے عاری یورپی تہذیب کی چکاچوند نے ریاستی مقتدرہ کے چہرے کے خدوخال تو سنوارے لیکن اس کی اندرونی وحشت و بربریت کو کند کرنے میں ناکام رہی۔ سائنسی و ٹیکنالوجی کے وسائل سے مسلح اس ابھرتے ہوئے یورپ نے تیسری دنیا کے وسائل پہ قبضہ کرنے کیلئے نہایت سفاکی کا مظاہرہ کیا۔ حیرت انگیز طور پہ پچھلے پچھترسالوں سے فلسطین سے لے کر کشمیراور لیبیا سے لے کر شام، لبنان اور عراق تک میں عورتوں‘ بچوں اور بوڑھوں کے جاری قتل عام کا جواز پیش کیا گیا جسے مہذیب دنیا نے بسروچشم قبول کر لیا۔ یہ کبھی نہ تھمنے والی خون ریزی اب بھی جاری ہے لیکن انفارمیشن ٹیکنالوجی کے سیلاب اور تعصبات کے اندھیرے اس طرف دیکھنے کی مہلت نہیں دیتے۔ شاید جدید ٹیکنالوجی کی قوت سے لیس مغربی اشرافیہ دنیا کی تشکیل نو کیلئے ایک بار پھر انسانی معاشروں کو قرونِ اولیٰ کے قبائلی تعصبات میں منقسم کرکے ری ڈیزائن کرنا چاہتی ہے۔ گویا سات ہزار سال کا سرکل مکمل کرنے کے بعد انسان پھر اسی مقام پہ آ کھڑا ہوا جہاں سے اس نے سماجی انصاف، آزادیٔ اظہار، انسانی حقوق اور جمہور کی حکمرانی کے رومان پرور سفر آغازکیا تھا۔