"AAC" (space) message & send to 7575

قومی وحدت

ملکی سیاست میں بڑھتی ہوئی کشیدگی نے جس قسم کی ذہنی تفریق کی فضا پیداکی‘اس کا مداوا کسی ادارے یا کسی ایک جماعت کے بس کا روگ نہیں۔ اس مقصد کو پانے کیلئے تمام سیاسی جماعتوں اور اداروں کی لیڈر شپ کو سرجوڑ کر بیٹھنے کے علاوہ ادیبوں‘شاعروں اور دانشوروں کی مربوط مساعی بروئے کار لانا پڑے گی۔ موجودہ حالات میں ایسا مثالی اتفاقِ رائے اگرچہ دشوار ہو گا لیکن ناممکن نہیں!اگر قومی قیادت اپنے جماعتی تعصبات اور سیاسی مفادات کو پس پشت ڈال کر صرف قومی بقا کے مرکزی نکتے پہ متفق ہو جائے تو ہم اپنے انحطاط کے مظاہر پہ قابو پا سکتے ہیں۔ زندگی کے کھیل میں کچھ ایسے قوانین ضرور ہونے چاہئیں جنہیں وہ بھی تسلیم کریں جو ان کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔ بلاشبہ ایک مضبوط حکومت ہی ہمیں معاشی نظم و ضبط اور سماجی امن فراہم کر سکتی ہے‘ بصورتِ دیگر ٹکراؤ کا عمل ہجوم کے ذہنی انتشار میں اضافہ کرے گا۔ گویا سیاسی نظم و ضبط ضرور ہونا چاہئے خواہ وہ ابتری کے قریب ہی کیوں نہ ہو جیسے نشاۃِ ثانیہ کے وقت فلورنس میں تھا۔ انسانوں کو یہ احساس ملنا چاہئے کہ انہیں قدم قدم پہ موت اورچیک پوسٹوں کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ لاریب ہم مزید تقسیم کے متحمل نہیں‘جو قوم پہلے ہی پنجابی‘ پٹھان‘بلوچ‘ سندھی اورمتنوع لسانی‘ علاقائی اور مسلکی تعصبات میں بٹی ہو‘ اسے سیاسی پولرائزیشن کے ذریعے تصادم کی دہلیز تک پہنچانا کہاں کی دانشمندی ہے؟ متحارب سیاسی قوتوں نے کشیدگی کو جزئیات تک پہنچا کر ہر ادارے اور ہرلیڈر کو دلدل میں کھینچ لیا۔
قومی وحدت کیلئے آئینی اداروں پہ وسیع قومی اتفاقِ رائے اور لیڈر شپ کی ساکھ کا مضبوط ہونا سب کے مفاد میں تھا لیکن ہم سب نفرتوں اور تضادات کی ایسی دلدل میں پھنس گئے جس سے ہمیں نکالنے والا کوئی نہیں۔ ستم ظریفی دیکھئے کہ ایسے عہدِ پُرآشوب میں بھی ہر کوئی دائرۂ اختیار سے تجاوز‘ہرپارٹی سیاسی مفادات کی اسیر اور ہر لیڈر اپنے کلٹ کو زیادہ مضبوط بنانے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہا ہے۔ اندرونی خلفشار اور بیرونی خطرات سے دوچار قوم کا اس مرحلہ پہ ردعمل وہی ہے جو کسی بھی ہنگامی صورتحال سے دوچار قوم کا ہوتا ہے۔ اس رسہ کشی میں کوئی ایسا ادارہ یا لیڈر نہیں جسے سوادِ اعظم کا اعتماد حاصل ہو بلکہ ہمارا وہ کلاسیکی معاشرہ‘ جو باہمی ایثار اور اخوتِ اسلامی کی سنہری اقدار کا حامل تھا‘گلوبلائزیشن کی لہر میں بہہ کر اپنی فطری اساس گنوا بیٹھا۔ہم مغربی جمہوریت‘مقامی تہذیب و ثقافت اور عالمی تمدن کے مظاہر میں تقسیم ہو رہے ہیں۔گویا انفارمیشن ٹیکنالوجی نے ہمارے ذہنی‘نفسیاتی اور سماجی فیبرک کو بری طرح متاثر کیا ہے؛ تاہم فی الوقت ہمارے لیے امید کی کرن عسکری قیادت کی طرف سے آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی کے ساتھ غیرمشروط وابستگی کا عزم ہے‘جس نے انارکی کی طرف بڑھتے سماجی ڈھانچے کو مضبوطی سے تھام لیا ہے۔ دوسری طرف ا کہنہ مشق سیاسی قیادت بھی اپنے جماعتی مفادات اورسیاسی تنازعات کو بالائے طاق رکھ کے ایک قسم کی قومی حکومت بنانے پہ متفق ہو گئی۔ اگرموجودہ حکمران اشرافیہ سیاسی نظام اور انتخابی اصلاحات کے علاوہ بدعنوانی کے خاتمے کیلئے مؤثر اقدامات کرے تو ہمارے لیے تعمیرِ ملت کا وہ مرحلہ بھی آسان ہو جائے گا‘جس کے حصول کی تمنا پورے معاشرے کی آواز ہے۔
بلاشبہ قوم کی تعمیر ایک معیاری تصور ہے لیکن مملکت کے حصول کے بعد قومی وجود کی استواری دشوار ہوتی ہے‘ماضی قریب کے جدید ترین تصورِ قومیت میں جغرافیائی حدود‘ثقافتی و لسانی یکسانیت اور مشترکہ معاشی مفاد کو قومیت کے عناصرِ ترکیبی مانا گیا لیکن وقت‘حالات اور ٹیکنالوجی کی ترقی نے قومی ریاستوں کے اس قدیم نظریے میں بھی دراڑیں ڈال دیں‘جس کی مثال ہمیں مشرق وسطیٰ کی قومی ریاستوں کے گہرے جمود میں ملتی ہے۔ اس وقت غیر فعال یا غیر مستحکم و ناکام ریاستوں اور بدحال معیشتوں میں قومیت کا مروجہ تصور ثانوی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ صرف معاشی ضروریات‘ریاستی انفراسٹرکچر‘ادارہ جاتی نظم یا سول سوسائٹی ہی جدید انسان کے مسائل کے حل میں غیر مؤثر ثابت نہیں ہوئی بلکہ کمیونزم کے بعد سرمایہ دارانہ سیاسی نظام بھی خوابِ تکمیل کی تعبیر لانے میں ناکام ہو گیا۔
عام طور پر یہ فرض کر لیا جاتا ہے کہ سیاسی استحکام میں اضافہ قوموں کی تعمیر میں بنیادی اہمیت رکھتا ہے لیکن اب یہ ضروری ہو گیا ہے کہ قومی تعمیر کے نظریات کے ارتقا اور ان سے منسلک دوسرے عوامل پر نظر ڈالی جائے جو بظاہر اس مقصد میں شمار نہیں ہوتے۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ قوموں کی تعمیر انقلابی کے بجائے ارتقائی عمل ہے‘جس کو زیادہ وقت درکار ہوتا ہے بلکہ یہ ایسا سماجی عمل ہے جسے باہر سے نہیں‘صرف اندر سے مینج کیا جا سکتا ہے۔ اطالوی شہری ریاستوں کا ایک قوم کے طور پر ارتقا‘جرمن شہری ریاستوں کا زولورین (Zollverein) جو بعد میں قومی شکل اختیار کر گیا‘فرانس میں متعدد زبانوں اور ثقافتی گروہوں کا بتدریج فرانسیسی قومیت میں ڈھلنا‘اس پیش رفت کی مثالیں ہیں۔ داخلی طور پہ متحارب ریاستوں میں چین کی ترقی‘ جسے طویل وقت لگا اور جس کے نتیجے میں نہ صرف سیاسی قیادت بلکہ زرعی اور پھر صنعتی انقلابات کے ساتھ مواصلات‘ ثقافت اور بہت سے دوسرے عوامل کی بھی افزائش ہوئی‘اس کی مثال ہے۔ امریکا جہاں متنوع ماخذ والی پہلی 13نوآبادیاں نئی قومی ریاست کی تخلیق کے لیے متفق ہوئیں‘ انہیں بھی 1865ء میں خانہ جنگی اور ٹوٹ پھوٹ کے امکانات کا سامنا کرنا پڑا۔ سیاہ اور سفید‘ شمال اور جنوب‘ مشرق اور مغرب میں توازن لانے کے لیے انہیں مزید 100 سال لگے؛ تاہم پھر بھی یہ اپنی نوعیت کی پہلی ریاست تھی جس میں تمام لوگ یکساں رنگ و نسل اور مشترکہ زبان و ثقافت کے حامل نہیں تھے۔ اس نئے تصورِ قومیت کے تحت ایک قوم کی تخلیق دوسری قوموں کی لاش پہ کی گئی۔ امریکی قوم کی تعمیر کی خاطر وہاں کی پرانی نسلی اکائیوں اور قومیتوں کو مٹا دیا گیا یا پھر انہیں بہت ہی پسماندہ کر دیا گیا۔ آج بھی کرۂ اراض کی بہت سی اقوام تعمیرِ نو کے عمل سے گزر رہی ہیں‘جہاںسیلف گورننس کیلئے سماجی‘ ثقافتی‘ اقتصادی اور سیاسی بنیادیں دوبارہ تعمیر کی جا رہی ہیں۔ یہ نئی اقوام بھی پہلی قوموں کے طرح ثقافتی شناخت چاہتی ہیں تاکہ اپنی نوزائیدہ ریاستوں کے جدید ابلاغی آلات سے بیرونی مداخلت کے ذریعے توڑنے کے چیلنج سے نمٹا جا سکے‘ جیسے پاکستان کو قومی تشخص کی استواری میں پانچویں پشت کی ابلاغی یلغار کا سامنا ہے۔
ماہرین‘مملکتوںکو ادارہ جاتی بنیادوں سے آراستہ کرنا ضروری سمجھتے ہیں تاکہ ان کی معاشی‘سماجی اور ثقافتی مقاصد کے حصول کیلئے خود حکومتی طاقت کو مؤثر طریقے سے قائم کرنے کی صلاحیت میں اضافہ ہو۔ عہدِ جدید میں قوم کی تعمیر کے ماڈل کے چار بنیادی عناصر کی نشاندہی کی گئی‘پہلا حقیقی خود حکمرانی‘وسائل مختص کرنا‘پروجیکٹس کی فنڈنگ اور ترقیاتی حکمت عملی کے بارے میں فیصلہ سازی کا حق۔ دوسرا‘ مؤثر حکومتی اداروں کی تشکیل‘ غیر سیاسی تنازعات کے حل کا طریقہ کار اور بدعنوانی سے چھٹکارا حاصل کرنے کا میکنزم۔ تیسرا‘ سماجی و ثقافتی روایات یعنی سرکاری اداروں کو شہریوں کی نظر میں قانونی حیثیت دینا اور چوتھا‘سٹریٹیجک بقا کے لئے طویل مدتی منصوبہ بندی کرنا۔ ماضی قریب میں دم توڑتی ریاستوں کی تحلیل کی وجہ یہ بھی تھی کہ یکساں شناخت کے حامل کچھ طبقات کو یورپی استعمار نے منقسم کیا اورکچھ دوسروں‘ جو متضاد ثقافتیں رکھتے تھے‘ کو بزورِ قوت نئی ریاستوں میں یکجا کر دیا گیا۔ خاص طور پر پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے بعد افریقہ اور مشرق وسطیٰ میں نئی سیاسی سرحدوں نے جدید ریاستوں کی تشکیل میں قومی شناخت پر بہت کم توجہ دی۔ اس طرح محض حکومتی آلات سے جغرافیائی حدود میں قومیت بنانے کا تصور بیکار ثابت ہوا۔ یورپ میں قوم سازی تاریخی طور پر ریاستی تعمیر سے پہلے کی تھی جبکہ نوآبادیاتی ریاستوں میں ریاست کی تخلیق قومی تعمیر سے پہلے رکھی گئی۔ جدید قومی تعمیر اور پائیدار جمہوریت میں منتقلی کے لیے مسلح قوت کا استعمال بھی کیا گیا‘ جیسے جرمنی، جاپان، صومالیہ، ہیٹی، بوسنیا، کوسوو اور افغانستان‘ جہاں جمہوریت لانے کی خاطر امریکا نے فوجی قوت کا استعمال کیا۔ قوم سازی کی یہ تعریف ان سے کافی مختلف ہے جو قوم کی تعمیر کو اندرونی طبقات کے سماجی تال میل میں دیکھتے ہیں۔ کیا قوم سازی کو باہر سے مسلط کیا جا سکتا ہے؟ قوم کی تعمیر کے تصور کو سمجھنے کے لیے ماضی میں جھانکنا از حد ضروری ہے۔ قومیت کے ابتدائی تصورات میں لوگوں کے ایک گروہ یا نسل کو قوم کے طور پر پہچانا گیا جو تاریخ، روایات اور ثقافت، بعض اوقات مذہب اور عام طور پر زبان کے اشتراک سے پیدا ہوئیں۔ جیسے برطانیہ انگلش، آئرش، سکاٹش اور ویلش جیسی چار اکائیوں پہ مشتمل ہے، کسی قوم کے لوگ عام طور پر جو مشترکہ قومی شناخت رکھتے ہیں‘ قوم کی تشکیل کا مقصد اسی مشترکہ شناخت کا دوام ہے۔ شہری سماج، جس کی بنیاد مشترکہ تہذیبی شناخت، سیاسی نظریات اور ریاستی اداروں کے ساتھ وفاداری پہ رکھی ہو‘ اسے شہریتی قومیت کہتے ہیں؛ تاہم اس عہد میں لفظ قوم اکثر ریاست کے مترادف استعمال ہوا، جیسا کہ اقوام متحدہ میں یعنی ایک ریاست زیادہ مناسب طریقے سے حکومتی آلہ ہے جس کے ذریعے وہ قوم خود پر حکمرانی کرتی ہے۔ مغربی ماہرین کہتے ہیںکہ ریاست انسانی برادری ہے جو کسی مخصوص علاقے میں جسمانی طاقت کے جائز استعمال کی اجارہ داری رکھتی ہے‘ یعنی خطہ ریاست کی خصوصیات میں اساسی اہمیت رکھتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں