ہماری قومی سیاست کا پہلا مرحلہ 1971ء میں ملک کے دولخت ہونے پہ منتج ہوا جس کے بعد ملک بنانے والی پوری قیادت سیاسی منظر نامے سے غائب ہو گئی۔ قائداعظم محمدعلی جناح قیامِ پاکستان کے اگلے ہی برس وفات پا گئے تھے، اس کے دو سال بعد نوابزادہ لیاقت علی خان کو گولی مار کے شہید کر دیا گیا۔ حسین شہیدسہرودی کو جلا وطن ہونا پڑا، بعد میں لبنان کے دارالحکومت بیروت میں ایک ہوٹل کے کمرے سے ان کی لاش ملی جو عالمی سطح پہ ہماری مجموعی بے کسی کی علامت بن گئی۔ صدارتی الیکشن میں ''شکست‘‘ کے بعد مادرِ ملت فاطمہ جناح کی خاموشی اور پھر اپنے فلیٹ پر پُراسرار موت پر مغربی میڈیا کی معنی خیز خاموشی اُس عہد کی سیاسی جدلیات کی غماز تھی جب عالمی طاقتیں ہمارے ریاستی وجود کو استعماری مقاصد کیلئے استعمال کرنے کی خاطر منصوبے تیار کر رہی تھیں بلکہ انگریز سے آزادی کی نوید دراصل اس خطے کو نئی جنگی مہمات کا ایندھن بنانے کی ایک بڑی سکیم کی نقیب تھی۔ جس طرح منیر نیازی نے کہا تھا کہ ؎
اک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا
بالکل اسی طرح آزادی کی قدروقیمت کا مکمل ادراک حاصل ہونے سے قبل ملنے والی آزادی کا تحفظ ہمارے لیے ایک مشکل مرحلہ بن گیا۔ آزادی کے وقت ہمارے سماج کی اکثریت سیاسی معاملات سے بے بہرہ اورقومی امور سے مطلقاً لاتعلق تھی۔ اس لیے وہ قومی لیڈرشپ کو اپنی اجتماعی قوت کا مظہر بنانے کی سائنس کو سمجھنے سے عاری نکلی۔ مستزاد یہ کہ آغازِ سفر کے ساتھ ہی انگریز کے استبدادی عہد کی افسر شاہی نے اپنی پوری صلاحیتوں اور ریاستی وسائل کو قومی قیادت کو بدنام کرنے پر صرف کرنے کے علاوہ سیاسی عمل کے ذریعے قوم کو ذہنی وحدت کی لڑی میں مربوط ہونے سے روکنے کی خاطر ایک قسم کے نفسیاتی انتشاراورکنفیوژن کی فضا برقرار رکھی، جس سے معاشرہ بتدریج کمزور ہو کر سیاسی آزادیوں کو نگلنے والی آمریت کے خلاف مدافعت کی صلاحیت کھو بیٹھا۔ اسی پراگندہ ماحول میں مؤثر عوامی پشت پناہی سے محروم قومی قیادت کو نہایت بے رحمی کے ساتھ پسِ منظر میں دھکیل دیا گیا اور یوں ابتدائی دس سالوں ہی میں ہماری اُن ذہنی آزادیوں کا ارتقا روک دیاگیا جنہیں تحریکِ آزادی میں مہمیز ملی تھی۔
سیاسی زندگی کے دوسرے مرحلے کا آغاز ذوالفقارعلی بھٹو کی عوامی مقبولیت سے اتفاقاً جنم لینے والی انبوہی جمہوریت اور مساوات کے نعروں کی گونج سے نمودار ہوا۔ اسی دور میں ملک کو آئین اور عام لوگوں کو سیاسی حقوق اور جمہوری آزادیوں کا جُزوی شعور ملا لیکن ذوالفقارعلی بھٹو کے ہر قیمت پر حصولِ اقتدار کے لالچ نے یہاں جمہوری کلچر اور سیاسی روایات کی آبیاری کی راہ مسدود کر دی جس کے نتیجے میں سول سوسائٹی اپنے مجموعی شعورکے اظہار کے سیاسی طریقوں کو آزمانے اور جمہوری تال میل کی مشق کا خوبصورت موقع گنوا بیٹھی؛ چنانچہ عام لوگ آئین و قانون کی حکمرانی کا افتخار، اُجلی سیاسی روایات اورسماجی انصاف کے حصول کی خاطر رائے عامہ کی قوت کو بروئے کار لانے کے تجربات سے استفادہ نہ کر سکے اور معاشرہ بدستور طاقت کی حکمرانی کے سامنے سرنگوں رہنے کو مفید سیاسی عمل سمجھنے کے فریب سے باہر نہ نکل سکا۔ سقوطِ ڈھاکہ کے اثرات کو کند کرنے کی خاطر وقتی طور پر ذوالفقارعلی بھٹو کی شخصیت کے کرشمہ کو بروئے کار لانے کے باوجود جمہور کو حقیقی جمہوری تمدن کی طرف بڑھنے کی مہلت نہ دی گئی ۔ بلاشبہ ذوالفقار علی بھٹو اپنی ذہنی ساخت، سوشلسٹ نظریات اورغیر معمولی مقبولیت کی وجہ سے سردجنگ کے مغربی تقاضوں سے کبھی ہم آہنگ نہیں رہ سکتے تھے، اس لیے اُنہیں پابہ زنجیر رکھنے کے لیے دائیں بازو کی تحریکوں کو ابھاراگیا، اپنی تمام تر ذہانت کے باوجود ذوالفقار علی بھٹو بالآخر عالمی مقتدرہ کی روایتی چالوں کا شکار ہو گئے۔ مسٹر زیڈ اے بھٹو کو بخوبی علم تھا کہ ان کی سیاسی مقبولیت کو جذباتیت کی آگ میں جلا دیا جائے گا، اس لیے وہ روزِ اول ہی سے اپنی بائیں بازو کی سیاست کو دائیں بازو سے ہم آہنگ کرتے نظر آئے۔ انہوں نے پارٹی منشور میں ''جمہوریت ہماری سیاست، سوشلزم ہماری معیشت اور اسلام ہمارا دین‘‘ کا نعرہ لگا کر اور جمعے کے چھٹی، شراب پر پابندی اور قادیانیوں کوغیرمسلم قرار دینے سمیت کئی فیصلوں سے دائیں بازو کے طبقات کی اشیرباد لینے کی کوشش کی۔ لیکن عوام کے حقِ حاکمیت کا پرچم اٹھانے اور مغربی اتحاد پر تکیہ نہ کرنے کی وجہ سے وہ عالمی قوتوں کی راہ کا ایسا کانٹا بن چکے تھے، جسے راستے سے ہٹانا ان کے لیے ناگزیر ہو چکا تھا کیونکہ نیو نوآبادیاتی نظام میں عالمی استعمار کو مسلم دنیا میں ایسے پاپولر افراد کی ضرورت تھی جنہیں وہ ان کی قوموں کو دبائے رکھنے کے لیے استعمال کر سکتے۔ ستّر کی دہائی تک مغربی طاقتیں کسی بھی مسلم ملک میں عوام کے حقِ حاکمیت کو قبول کرنے کے لیے تیار نہ تھیں، اسی لیے عوامی شعور کو بیدار کرنے والے ذوالفقار علی بھٹو کو ایک دن بھی چین سے حکومت نہیں کرنے دی گئی اور ملک میں آئین کے نفاذ کے چار سال بعد ہی 1977ء میں دستور کے خالق ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا۔ جو سیٹ اپ اب اس مملکت کے حصے میں آیا‘ وہ 1979ء میں افغانستان میں سوویت فوجی مداخلت کے خلاف مسلح مزاحمتی مہمات کیلئے سازگار ماحول فراہم کرنے کا وسیلہ ثابت ہوا۔
اگست 1988ء میں صدر ضیاء الحق کی ناگہانی موت کے بعد پروان چڑھنے والے تیسرے مرحلے کا سیاسی عمل زیادہ نازک واقع ہوا۔ اسی زمانے میں قومی سیاست کا ایک آہنی قانون یہ تھا کہ حکومت جتنی کمزور ہوگی‘ اس کے زندہ رہنے کے امکانات اتنے ہی زیادہ ہوں گے، جونہی منتخب وزرائے اعظم خود مختاری کی طرف قدم بڑھانے کی کوشش کرتے‘ انہیں ناقابلِ یقین مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا؛ چنانچہ اس پُرآشوب عہد میں ابھرنے والی نئی قیادت باہم دست و گریباں ہو کر صرف دس سالوں میں رسوا کر دی گئی۔ اسی خلا سے فائدہ اٹھاتے ہوئے 12 اکتوبر 1999ء کو ملک میں چوتھے آمرانہ دور کا آغاز ہوا۔ اس وقت یقینا پوری قوم انتشار زدہ سیاسی ماحول سے اُکتا چکی تھی۔ اس نئے عہد کے طلوع کے ساتھ جنگ دہشت گردی کی جدلیات کی وجہ سے ہماری مملکت ایسا مہیب موڑ مڑ گئی جس کا محور مہیب فرقہ وارانہ تشدد اور ناقابلِ برداشت عسکریت تھی جس نے سیاسی عمل کو یرغمال بنانے کے علاوہ تہذیب و ثقافت اور سماجی زندگی کے فعال دھارے کا رخ بھی بدل ڈالا اور بالآخر یہی غیرمعمولی سماجی تغیرات معاشرے کی سیاسی سوچ کو بدلنے کا محرک بنے۔ اسی عہدِ نارسا میں بے نظیربھٹو جیسی قومی لیڈر شہید ہوئیں اور سینکڑوں سیاسی کارکن اورہزاروں شہری دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ گئے۔ سوات اور قبائلی علاقوں سے لاکھوں شہریوں کی نقل مکانی نے سماجی نظم و ضبط اور منجمد روایات کو الٹ پلٹ ڈالا۔ یہی سماجی تغیرات سیاسی سوچ کو بدلنے کا سبب بھی بنے۔ اسی عہد میں عمران خان کی صورت میں ایک نئی سیاسی قوت کی آبیاری ہوئی‘ جسے سوشل میڈیا پر بنائے جانے والے مصنوعی رجحانات اور ایسی نفسیاتی کمک بھی میسر تھی جس میں مقامی سیاست کے خیر وشر کا تعین بین الاقوامی پیمانوں پہ کیا جا رہا تھا۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ افغانستان میں واحد سپر پاور امریکہ کی شکست کے بعد عالمی سیاست کے تقاضوں اور جنوبی ایشیا میں پاور پالیٹکس کے کرداروں میں تبدیلی کا رجحان دائرۂ امکان میں داخل ہو چکا ہے۔ دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ امریکی ایما پر سوویت یونین کے خلاف مہیب ترین مزاحمتی مہمات کی قیادت کرنے والے ضیاء الحق‘ امریکہ کی سوویت مخالف سکیم کے خاکے میں رنگ بھرنے کے دوران ملک کی مڈل کلاس کے دل و دماغ میں مغرب مخالف جذبات کی آبیاری کرنے میں بھی کامیاب رہے اور اِسی جرم کی پاداش میں انہیں فضائی حادثے سے دوچار کر کے دوسروں کیلئے سامانِ عبرت مہیا کیا گیا لیکن مغربی تسلط کے خلاف نفرت و ناراضی کا عمل رک نہ سکا۔ افغانستان میں امریکہ کی ناقابل یقین شکست نے جنوبی ایشیا کے بارے میں امریکی تصورات کو بدل ڈالا ہے ؛چنانچہ اب اسے یہاں ایسے کرداروں کی تلاش میں ہے جن کی مدد سے افغانستان کی خفت کا بدلہ لیا جا سکے۔