کثیرجہتی بحرانوں میں الجھی ہماری مملکت کو سیاسی تنازعات کی پیچیدگیوں کے علاوہ معیشت کی زبوں حالی، روپے کی تیزی سے گرتی قدر، ادائیگیوں کے عدم توازن، بلند ترین مہنگائی کے آشوب اور توانائی کی قلت جیسے مسائل کا بھی سامنا ہے لیکن اِن سے کہیں زیادہ گمبھیر مسئلہ معاشی بدنظمی اور ادارہ جاتی نظم و ضبط کا فقدان ہے۔ شومیٔ قسمت کہ ہماری منتخب حکومتوں میں اداروں کو ریگولیٹ کرنے کی استعداد بتدریج کم ہوتی گئی اور حکمران اشرافیہ اِس انتظامی شکست و ریخت کو روکنے کا کوئی مؤثر میکانزم تیار نہ کر سکی۔ دو روز قبل پارلیمنٹ کی پبلک اکائونٹس کمیٹی کی طرف سے پہلی بار ادارہ جاتی نظام کو بحال رکھنے پہ اٹھنے والے اخراجات کے آڈٹ کرانے کا فیصلہ کیا گیا؛ تاہم اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت پارلیمنٹ کے فیصلوں پہ عمل درآمد کیسے کراتی ہے کیونکہ 2015ء میں بھی پبلک اکائونٹس کمیٹی کے حکم پہ آڈیٹر جنرل آف پاکستان کو ملنے والے سرکاری فنڈز کی آڈٹ کرانے کا فیصلہ کیاگیا تھا۔ اس وقت کے وزیراعظم نوازشریف نے وزارتِ خزانہ کے ذریعے اُس آڈیٹر جنرل کے کھاتوں کا آڈٹ کرانے کا فیصلہ کیا جو ملک بھر کے تمام سرکاری محکموں کے مالیاتی امور کے آڈٹ کا مجاز ادارہ ہے لیکن اس وقت کے آڈیٹر جنرل اپنے ادارے کے آڈٹ کے خلاف مزاحمت پہ اتر آئے۔ خاص طور پر اربوں روپے کے دو پروجیکٹس میں عمارت کی تعمیر اور آلات کی خریداری کے آڈٹ سے بچنے کی خاطر حکم امتناعی کے پیچھے چھپنے میں عافیت تلاش کر لی گئی۔ پارلیمنٹ اور اے جی پی کے درمیان یہ رسہ کشی چار سال تک جاری رہی۔
وزارتِ خزانہ چاہتی تھی کہ اے جی پی کے مالیاتی امورکا آڈٹ انہی پیمانوں پر کرایا جائے جن اصولوں کے مطابق یہ ادارہ دیگر سرکاری اداروں کے کھاتوں کی چھان بین کے بعد آمدن اور اخراجات میں پائی جانے والی بے قاعدگیوں کی تشہیر کے ذریعے نشاندہی کرتا ہے لیکن اے جی آفس طریقہ کار کے ہتھکنڈوں کے ذریعے اپنے آڈٹ کو ٹالنے کیلئے تکنیکی مزاحمت کرنے لگا جس کے بعد وزارتِ خزانہ کے ایکسٹرنل آڈیٹر نے صدر اور وزیراعظم کے علاوہ وزارتِ خزانہ کے اعلیٰ افسران سے شکایت کی کہ 2020ء میں شروع ہونے والے اے جی پی اکائونٹس کے آڈٹ کے عمل کو اے جی پی آفس نے بار بار کی درخواستوں کے باوجود بلاک کر رکھا ہے۔
واضح رہے کہ آڈیٹر جنرل آرڈیننس 2001ء کے سکشن19A کے تحت صدرِ مملکت وزیراعظم کے مشورے سے ایڈیشنل سیکریٹری خزانہ کو اے جی پی کے مالیاتی امور کی جانچ پڑتال کیلئے ایکسٹرنل آڈیٹر کے طور پہ مقرر کر سکتے ہیں اور اے جی پی آڈٹ کے مقصد کے لیے درکار اپنے کھاتوں کی تمام متعلقہ دستاویزات ایکسٹرنل آڈیٹر کو فراہم کرنے کا پابند ہو گا۔ لیکن اے جی پی نے اپنے مالیاتی امور کی چھان پھٹک سے انکار کرکے ریاستی اتھارٹی سے ماورا ہونے کا اشارہ دیا۔ آئین کے آرٹیکل170 کے تحت تشکیل پانے والا اے جی پی آفس ایسا آئینی ادارہ ہے جو حکومت کے تمام محکموں کے عوامی کھاتوں کی جانچ پڑتال پر مامور رہتا ہے تاکہ عوام کے ٹیکس کے پیسے کے استعمال میں خورد برد اوربے قاعدگیوںکا ازالہ ممکن بنایا جا سکے۔ اس ادارے کی جانب سے اپنا آڈٹ کرانے یامالیاتی امور میں جوابدہی سے گریز کی روش سے دیگر سرکاری محکموں کو مثبت پیغام نہیں ملا۔ نواز لیگ کی پختہ کار حکومت کے بعد پی ٹی آئی حکومت نے بھی 2021ء میں اس بھاری پتھر کو چوم کر رکھ دیا۔ اب پارلیمنٹ نظامِ عدل کے مالیاتی امور اور ملنے والی مستقل اور عارضی مراعات کا آڈٹ اُسی اے جی پی آفس سے کرانے کی ٹھان بیٹھی ہے، جس کا اپنا آڈٹ کرانا حکومت کے لیے ممکن نہ ہو سکا۔
بہرحال معاشی سرگرمیوں میں حکومت کی غیر متناسب طور پر زیادہ شمولیت، بڑی غیر رسمی معیشتیں اور صنعت کے بجائے زراعت کو افرادی قوت کا بڑا آجر سمجھا جانا‘ کپاس سے متعلقہ پیداواری سرگرمیوں پر عدم توجہ‘ درآمدی متبادل سرگرمیوں کی جانب متعصبانہ پالیسیاں‘ انسانی ارتقا کے ذریعے تکنیکی خدمات کی معیشت کو نظر انداز کرنے جیسے مسائل محلِ نظر ہیں۔ عوامی فلاح و بہود کی پالیسیوں میں بچت کی کم شرح اور اس کے نتیجے میں انسانی وسائل اور انفراسٹرکچر کی ناکافی ترقی کے علاوہ بیرونی سرمایہ کاری کے لیے موافق ماحول کی فراہمی کا فقدان، خاطر خواہ ٹیکس ریونیو اکٹھا کرنے میں ناکامی، چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری اداروں کو نظر انداز کرنا، غیر مؤثر گورننس اور ادارہ جاتی ڈھانچے میں مالیاتی امور میں احتساب کا نہ ہونا ریاست پر حکومتی گرفت کی کمزوری کو ظاہر کرتے ہیں؛ چنانچہ اس ساخت کے عدم توازن کو دور کرنے کے لیے گہری اقتصادی اور انتظامی اصلاحات کی ضرورت پڑے گی تاکہ رجالِ کار کی کارکردگی میں اضافے کے علاوہ وسائل کے زیاں کو روک کر صحت مند مسابقت کیلئے ماحول کو بہتر بنایا جا سکے اور کاروباری صلاحیت کو فروغ دینے کے علاوہ تکنیکی مہارتوں میں اضافے کے ذریعے انسانی ترقی ممکن بنائی جا سکے۔ واضح رہے اگر میکرو اکنامک اقدامات نتائج دینا بند کر دیں تو اقتصادی منیجرز کے پاس واحد راستہ یہی رہ جاتا ہے کہ وہ بنیادی ڈھانچہ جاتی اصلاحات متعارف کرائیں۔ علیٰ ہذا القیاس! ہماری مملکت اس وقت فنا و بقا کے خطِ امتیاز پہ کھڑی ہے۔ معاشی بحران بالخصوص سیلاب کے بعد کی تباہی کے مضمرات کا مقابلہ کرنے کے لیے ہمیں بڑے پیمانے کی بیرونی مدد درکار ہے۔ ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر خطرناک حد تک گر جانے کی وجہ سے ادائیگیوں کا توازن بگڑتا گیا، مشکل کی اس گھڑی میں اگر چین ہماری مدد نہ کرتا تو عالمی ساہوکار اس قوم کی سیاسی، مالیاتی اور داخلی خود مختاری گروی رکھ سکتے تھے، جس کی گونج ہمیں سینیٹر رضا ربانی کی طرف سے پارلیمنٹ میں اٹھائے گئے سوالات میں سنائی دی۔
اس وقت مہنگائی تاریخ کی بلند ترین سطح کو چھو رہی ہے، ہماری ملکی معیشت کی شرحِ نمو بتدریج زوال آشنا ہے، کمزور کرنسی سے نمٹنے کے لیے سٹیٹ بینک کوشرحِ سود بیس فیصد تک بڑھانا پڑی ہے۔ خوراک اور ایندھن کی قیمتیں عام لوگوں کی دسترس سے باہر ہو چکی ہیں۔ معاشی بحران کی وجوہات میں سب سے اہم کمزور گورننس اور سیاسی عدم استحکام جیسے پیچیدہ عوامل ہیں جو ملک میں سرمایہ کاروں کے اعتماد کو کمزور کرنے کے علاوہ بدعنوانی کی روک تھام اور عالمی معیار کے احتساب کے نظام کی تشکیل کی راہ میں حائل ہیں۔ ہمارا ملک درآمدات پر بہت زیادہ انحصار کرتا ہے، خاص طور پر توانائی کے حوالے سے، عالمی سطح پر تیل اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ اسے شدید خطرے میں مبتلا کر دیتا ہے۔ بھارت کے ساتھ کشیدہ تعلقات بھی ہمیں ممکنہ طور پر تبدیلی لانے والی تجارتی اور سرمایہ کاری کی شراکت داری سے محروم رکھتے ہیں۔ عالمی برادری نے سیلاب کے مضمرات سے نمٹنے کے لیے نو بلین ڈالر مدد دینے کا وعدہ کیا مگر چند بڑے عطیہ دہندگان بدلے میں کچھ توقعات بھی رکھتے ہیں۔
چین اور سعودی عرب جیسے دوست ممالک اگرچہ امداد میں بہت سی واضح شرائط شامل نہیں کرتے لیکن مضمر ات ہمیشہ منسلک ہوتے ہیں۔ سعودی عرب پاکستان کو نہ صرف تیل فراہم کرنے والا بلکہ اوورسیز ورکرز کے ذریعے بھاری زرمبادلہ دینے والا بڑا ملک بھی ہے۔ ریاض توقع کرتا ہے کہ اسلام آباد خلیج فارس میں سعودی اقدامات کی حمایت کرے۔ چین ترقی کے سازگار مواقع کے لیے پاکستان کی طرف دیکھتا ہے، جیسا کہ بحیرۂ عرب سے چین کے مغربی صوبوں تک تیل کی راہداری اور گوادر کی تزویراتی طور پر اہم بندرگاہ سے منسلک رہنے کے لیے سی پیک منصوبے کی جلد تکمیل۔ چین آبنائے تائیوان سے لے کر افغانستان اور یوکرین تک کے جغرافیائی سیاسی معاملات پر بھی پاکستان کی حمایت کا طلبگار ہے جسے روکنے کے لیے مغربی طاقتیں یو این کے فورمز پر پاکستان کو یوکرین کی حمایت پر مجبور کرنے کے لیے آئی ایم ایف سمیت دیگر عالمی مالیاتی اداروں کو استعمال کرتی ہیں تاکہ پاکستان اور چین کے درمیان ایسی دراڑیں پیدا کر سکیں جو وسط ایشیائی ریاستوں اور مشرقی یورپ تک چین کی تجارتی رسائی کو روکنے کے کام آئیں۔