عام طور پہ عشق و محبت کی جڑیں جذبات میں ملتی ہیں(جذبات روح کے ہنگامے اور فساد کا مظہر ہیں)مولانا جلال الدین رومیؒ کی ترجمانی کرتے ہوئے‘علامہ اقبالؒ فرماتے ہیں کہ عقل عیار ہے سو بھیس بدل لیتی ہے/ عشق بیچارہ نہ مُلا ہے نہ زاہد نہ حکیم۔بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق /عقل ہے محوِ تماشا لب بام ابھی۔عشق کی اک جست نے طے کر دیا قصہ تمام /اس زمین و آسماں کو بیکراں سمجھا تھا میں۔ خرد کی گتھیاں سلجھا چکا میں/میرے مولا مجھے صاحبِ جنوں کر۔علامہ اقبالؒ کی شاعری میں زورِ تخیل سے قوتِ عشق کے نتائج و اثرات تو بیان ہوئے لیکن بجائے خود عشق کی تعریف نہیں ملتی‘ بالکل ایسے جیسے ہم پروردگار کی قدرت و صفات کی توضیح توکر سکتے ہیں لیکن فی نفسہٖ ذاتِ خدا کو دائرہ ادراک میں نہیں لا سکتے۔عشق بجائے خود کیا ہے‘اس بارے مولانا رومیؒ کے چالیس چراغ عشق کی تمثیل بھی پندو نصاح‘ شکوہ ِالفاظ اور ملکوتی تصورات کی دلکشی کے باوجود عشق خالص کی وضاحت سے عاری ہے‘البتہ رومیؒ کے فلسفۂ عشق کے مطابق محبت میں گہرائی اور عشق مسائل و مشکلات سے نہیں ڈرتا کی دل آویز تکرار نہایت پُرکشش دکھائی دیتی ہے۔امر ِ واقعہ یہ ہے کہ صوفیوں کی لبریز ِالم بصیرت اس فانی دنیا کے علائم اور فنا کے خوف سے گھبرا کر بقائے دوام کو خیالات کے لامتناہی سلاسل میں تلاش کرتی رہی جو آبِ حیات کی طرح بقائے دوام کی ضامن ہو اور یوں وہ راہ روے شوق بن کر روحانیت کے نقاب ابہام میں اپنی فانی زندگی کو تخیلاتی دوام سے ہمکنار کرنے کی خاطر شعوری منزلِ مراد کا استرداد کرتے رہے‘ اسی کو وہ انسان کے خواب ِتکمیل کی تعبیر کہتے ہیں۔
حضرت اقبالؒ آخری عمر میں رومیؒ کی طرح اسی لذتِ خیال میں پناہ تلاش کرنے لگے‘فرماتے ہیں‘ موت کو سمجھا ہے غافل اختتام ِزندگی /ہے یہ شام ِزندگی صبح دوام ِزندگی۔اقبالؒ نے عقل کی اُس نفسیاتی پکار کو مسترد کیا جو اسے بار بار اندیشہ ہائے دور دراز اور موت کی یاد دلاتی تھی۔اسی خوف پہ قابو پانے کی خاطر وہ نطشے کے فوق الانسان کے تصور سے مردِ مومن کا طبع زاد وجود پیدا کرنے سے بھی نہ ہچکچائے؛چنانچہ اقبال عشق کی اصطلاح کو ذہن کے متخالف جذبہ کے طور پہ اپنانے کی لہر میں عقل کی تحقیر کرکے معاشرے کے ہر طبقہ کو زندگی کی بے ثباتی کی تلافی کا شاعرانہ مواد مہیا کر گئے۔یہی نظریہ ہمیں شمس تبریزی اور اس کے مرید مولانا جلال الدین رومیؒ کے مکالات میں بدرجہ اتم ملتا ہے۔ اگر ہم یہ کہیں کہ اقبال دراصل مولانا روم کے افکار ِ جلیلہ کے مفسر تھے تو یہ غلط نہیں ہو گا‘ لیکن یہاں مسئلہ پھر وہی ہے کہ مولانا رومیؒ اپنے وجدان سے حاصل ہونے والے دھیان گیان اور اعلیٰ ترین قلبی کیفیات کے نتائج کو مرتب کرنے کیلئے اسی عقل کا سہارا لیتے ہیں‘ جسے جوشِ عشق میں وہ بہت پیچھے چھوڑ آئے۔ان کی مثنوی معنوی عقل سے عشق اور عشق سے عقل کی طرف محوری سفر کی کلاسیکی مثال ہے۔راہ ِسلوک کے ہر مسافر اور درویش منش صوفیا کرام جنہوں نے عقل کو ناقابلِ بھروسا قرار دے کر براہ راست اپنی روح کی آنکھ سے حقیقت کا مشاہدہ کرنے کا دعویٰ کیا وہ بالآخر اپنے ملکوتی تجربات کو دوسروں تک منتقل کرنے کیلئے زبان و بیان پہ مبنی انہی حواسِ خمسہ کو وسیلہ بنانے پہ مجبور نظر آئے جو فی الحقیقت عقل ہی کا جز ہیں۔مولانا رومی عشق کی توضیح‘ ایمان کی اعلیٰ ترین صفت اور خدا سے براہ راست تعلق کی مقدس ترین جذبہ کے طور پہ کرتے ہیں لیکن ہم اگر عشق کو ایمان کی اصل سے منسوب کریں گے تو پھر بھی اسے دائرۂ شعور میں لانا پڑے گا جو عقل ہی کی سلطنت پہ محیط ہے‘یعنی ایمان کا ظرف عقل ہے اور اگر عقل نہ ہو تو ایمان اور لا ایمان از خود بے معنی ہو جاتے ہیں۔یوں تو تصوف کی بہت سی تعریفیں ہیں لیکن میرے نزدیک تصوف دراصل انسان کا خدا کے ساتھ انفرادی اور خفیہ تعلق ہے‘ جسے حجت کے طور پہ پیش کیا جا سکتا ہے نہ ہی شریعت کی طرح اس کی کوئی حدود متعین ہو سکتی ہیں۔یہ ہر بندے کے شخصی رجحانات‘علم و دانش‘ سطح ذہن‘ رجوع اللہ‘ خشوع و خضوع‘معروضی حالات‘ امتدادِ زمانہ‘گردشِ ایام جس سے وہ متاثر ہوا‘ ماحول جس میں وہ پلا بڑھا اورہر فرد کے وہ تہذیبی و ثقافتی عوامل تغیر پذیر ہونے کی وجہ سے فرد کو اپنی داخلی کیفیات اور خارجی تجربات سے مختلف نتائج پیدا کرنے پہ مجبور کرتے ہیں‘اس لئے یہ معروضی ہوتے ہیں‘بسا اوقات یہ متنوع بلکہ متضاد بھی ہوتے ہیں‘ اس لئے ہر صوفی نے خدا اور کائنات کو مختلف نقطہ نظر سے دیکھ کر متنوع نتائج پیش کئے۔دائمی افلاس کی وجہ سے شاہ شمس تبریز کا فلسفۂ عشق سلبی ہے لیکن مادی طور پہ خوشحال زندگی گزارنے والے شیخ عبدالقادر جیلانی ؒکا عشقِ رسولﷺ پہ مبنی تصوف ایجابی نظر آیا۔ مولانا رومی نے اپنے آغازِ شباب میں مسلمانوں کا عروج دیکھا‘ اس لئے ان کا فلسفہ عشق ہمیں سکون آمیز اخلاقیات عطا کرتا ہے‘ اس کے برعکس اقبالؒ نے مسلمانوں کے زوال اور عیسائی ریاست کی قوت قہرہ کا سامنا کیا اس لئے ان کے فلسفہ عشق میں نطشے کی طرح مرد مومن کا ظہور اور بلا کی فعالیت کا پیغام پایا جاتا ہے۔فرمایا:پلٹ کر جھپٹنا جھپٹ کر پلٹنا/لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانا۔ قوتِ عشق سے ہر پست کو بالا کر دے/دہر میں اسم محمدﷺ سے اُجلا کر دے۔
یونانی شاعر ہومر چونکہ مادرزاد اندھا تھا‘اس لئے اس کے فلسفہ عشق میں گمراہی کا احتمال پایا گیا۔اس نے ہیلی کان کا پانی پی کر نہایت بیباکی کے ساتھ مقدس دیوتاوں کو غیر اخلاقی علائم میں مبتلا دکھایا‘ لیکن اس کے برعکس دیوجانس کلبی کے سکون آمیز تصوف پہ استغنا ہویدا رہااس لئے اسے ہر چیز میں خدا کا نور دکھائی دیا۔اسی طرح روسو نے کہا کہ دماغی منطق سے قلبی احساسات ارفع ہیں لیکن عقل کی تحقیر پہ مبنی انہی محسوسات کو ثابت کرنے کیلئے پوری عمر عقل و خرد کی بھول بھلیوں میں ٹھوکریں کھاتا رہا۔ پاسکل نے دعویٰ کیا تھا کہ '' دل کا اسلوب بھی استدلال ہے مگر وہ عقل کی سمجھ میں نہیں آ سکتا‘‘ تاہم اسی خیال کی تفہیم کیلئے پاسکل کو بھی آلاتِ نطق اور عقلی عوامل سے کام لینا پڑا۔امانوئل کانٹ نے یہ کہہ کر کہ عقل میں تو حقیقت کے ادارک کا داعیہ ہی موجود نہیں‘بزعم خویش نوعِ انسانی کی پوری متاع ِدانش کو برباد کر ڈالا‘ لیکن اسی خیال کو ثابت کرنے کیلئے انہوں نے اپنی زندگی کے پچاس سال صرف کرکے سینکڑوں صفحات پہ مشتمل کتاب ''عقلِ خالص پہ انتقادہ محض‘‘ (Critique of Pure Reason) لکھی جو دراصل عقلِ انسانی کی جلیل القدر تخلیق ثابت ہوئی۔کانٹ کہتے ہیں کہ عقل محض ریسپٹر ہے جو حواسِ خمسہ سے ملنے والی انفارمیشن کو پراسس کرکے پہلے مہیجات(اشکال) اور پھر مدّرکات میں منتقل کرکے تخیلات کی ایسی دنیا آباد کرتا ہے جو ناقابلِ بھروسا ہے۔کانٹ کے نزدیک عقل ایک کارفرما عضو ہے جو احساسات کو مرتب کرکے تصورات کے سانچے میں ڈھال لیتا ہے‘یعنی ذہن وہ عضو ہے جو تجربات کی منتشر اور خلل پذیر کثرت کو منظم وحدت میں تبدیل کرتا ہے لیکن وہ کہتا ہے کہ زمان و مکاں ایسی اشیا نہیں جس کا ادراک ہوتا ہو بلکہ یہ ادارک کے طریقے اور شکلیں ہیں‘جس طرح ماضی‘ حال اور مستقبل کا فی الحقیقت کوئی وجود نہیں بلکہ یہ فکر کے زمرے ہیں جن کے ذریعے ہم اپنے احساسات کو بامعنی اور ابلاغ کو سمجھنے اور منتقل کرنے کے قابل بنانتے ہیں تو زمان و مکاں اور ماضی‘ حال و مستقبل آلاتِ ادراک اور فکر کے زمرے ہیں‘یعنی دماغ اشکال کی تشکیل کے طبعی انتخاب کے ذریعے اسی ترتیب میں نظم و نسق کے آثار پیدا ہوئے جو زمرہ ہائے فکر کے سانچوں میں ڈھلنے کے بعد بامعنی ہو گئے۔(جاری)