فرانسیسی حکام نے جمعہ کے روز اپنی سابق کالونی نائیجر کے نئے فوجی حکمران کی طرف سے فوجی تعاون کے پانچ معاہدوں کو منسوخ کرنے پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ ان معاہدوں پر نائیجر کے جائز حکام کے ساتھ دستخط کیے گئے تھے۔ صدر محمد بازوم کو معزول کرنے والوں کے ترجمان عماد الرحمن نے جمعرات کوقومی ٹیلی ویژن پر تمام سودے ختم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ اس ضمن میں فرانس کو سفارتی نوٹس بھیجا جائے گا۔ نائیجر نے فرانسیسی فنڈ سے چلنے والے بین الاقوامی خبر رساں اداروں فرانس 24 اور آر ایف آئی کی نشریات بھی معطل کر دیں۔ فرانس کی وزارتِ خارجہ نے کہا کہ پیرس اور عالمی برادری صرف معزول صدر بازوم کو جائز حاکم تسلیم کرتی ہے‘ جس کے ردِعمل میں بغاوت کے حامیوں نے نائیجر میں فرانسیسی سفارت خانے پر حملہ کر دیا۔ نائیجر‘ جس نے 1960ء میں فرانس سے آزادی حاصل کی تھی‘ افریقہ کے ساحلی علاقوں میں فرانس مخالف مسلح گروہوں سے لڑنے میں مغرب کے قابلِ اعتماد شراکت داروں میں سے ایک تھا۔ نائیجر میں اب بھی فرانس کے 1500کے لگ بھگ فوجی موجود ہیں۔ نائیجرجن 2000سے زیادہ مغربی فوجیوں کی میزبانی کرتا ہے‘ ان میں زیادہ تر امریکی اور فرانسیسی سپاہی ہیں۔
علاقائی بلاک ECOWAS کی طرف سے جرنیلوں کو پیچھے ہٹنے اور منتخب صدر محمد بازوم کے اقتدار کو بحال کرنے کیلئے دی کی گئی ڈیڈ لائن اتوار کو ختم ہو گئی تاہم نائیجیریا اور سنیگال جیسے ممالک کے فوجی مداخلت کیلئے تیار ہونے کے بہت کم امکانات ہیں۔ اس کے برعکس نائیجر میں انقلاب کے حامیوں نے دارالحکومت نیامی کے سٹیڈیم میں زبردست ریلی نکالی‘ جہاں فرانس کے خلاف نعرہ زنی کے علاوہ مظاہرین نے روسی پرچم بھی لہرائے۔ نائیجر کے سربراہ جنرل عبدالرحمن ٹچیانی کی سربراہی میں فوج نے 26 جولائی کو مغرب نواز صدر محمد بازوم کو ہٹا کر آئین معطل کر دیا تھا جس کے ردِعمل میں ECOWAS نے نائیجر پر پابندیاں عائد کرتے ہوئے سرحدیں بند‘ بجلی کی ترسیل معطل اور مالیاتی لین دین روک دیا لیکن ان تادیبی اقدامات کے باوجود نئی حکومت بے خوف دکھائی دیتی ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مڈل ایسٹ اور جنوبی ایشیا کے بعد افریقہ بھی یورپ و امریکہ کے غلبہ سے آزادی کی طرف بڑھ رہا ہے۔نائیجر کے نئے رہنماؤں نے ہمسایہ ملک مالی اور برکینا فاسو کے وفود سے ملاقاتیں کیں تاہم دونوں ممالک کی روس نواز فوج نے کنٹرول چھوڑنے کی مغربی درخواستوں کو مسترد کر دیا۔ منگل کو ایک انٹرویو میں امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے کہا کہ اس لمحے نے روس اور اس کی پراکسی‘ کرائے کی تنظیم ویگنر کیلئے تشویشناک آغاز کیا ہے جس کے مالی میں قدم اور برکینا فاسو میں بڑھتا ہوا اثر و رسوخ صاف دکھائی دے رہا ہے۔ مالی اور برکینا فاسو کے برعکس نائیجر مغربی افریقہ کے مشتعل ساحل میں مغرب کا محفوظ حامی ملک سمجھا جاتا تھا اور اپنے پڑوسیوں کے مقابلے میں واشنگٹن اور پیرس کے ساتھ زیادہ ہم آہنگ اور امریکہ کے مخالف علاقائی مسلح گروہوں کے خلاف کارروائیوں کیلئے ایک مؤثر فوجی اڈا بن گیا تھا‘ جہاں فرانسیسی فورسز کی کارروائیوں کے علاوہ امریکی ڈرون بھی اڑائے جاتے تھے۔ تاہم مغربی میڈیا کا ایک حصہ نائیجر بغاوت کو فوری طور پر غیر ملکی طاقتوں کے مفادات یا ایجنڈوں کے بارے میں نہیں بلکہ ایک کمزور جمہوریت کے اندر سیاسی جھگڑوں کا نتیجہ قرار دے رہا ہے۔ جاری بحران ہمیشہ کی طرح جغرافیائی سیاسی انتشار میں بدل گیا اور انقلاب کے حامیوں نے خاص طور پر سوشل میڈیا پر مغرب مخالف لائن اختیار کرکے بازوم حکومت اور اس کے علاقائی محافظوں کو سامراجی طاقتوں کی کٹھ پتلیوں کے طور پر پیش کرنے میں کامیابی پائی۔ لوگ خاص طور پر خطے میں اس فرانس کے طویل غاصبانہ تسلط سے اُکتا چکے ہیں جو آج بھی اپنی سابقہ کالونی میں کبھی کبھار فوجی مداخلت کرنے کے علاوہ مغربی افریقی ممالک کے مالیاتی نظام پہ کنٹرول اور زیر زمین پائے جانے والے وسائل پہ تصرف کے علاوہ وہاں ایٹمی تجربات کرکے تابکاری پھیلانے سے بھی گریز نہیں کرتا؛ چنانچہ ان ممالک کے عوام اپنی مغرب نواز حکومتوں کے برعکس قومی خودمختاری اور آزادی کو برقرار رکھنے والے رہنماؤں کی طرف دیکھتے ہیں۔ ان کے خیال میں وہ تمام لیڈرز مغرب کی کٹھ پتلیاں ہیں جنہوں نے چھ دہائیوں میں نیو نوآبادیاتی نظام کو چیلنج کرنے کیلئے کچھ نہیں کیا۔
مغرب نے نائیجر کو جمہوری قلعہ کے طور پر دیکھا پھر وہاں مغربی تسلط کے خلاف بغاوتیں اُٹھیں یہی وہ داستان تھی جو مالی اور برکینا فاسو میں پیش آئی اور نائیجر میں بھی یہی کہانی دہرائی گئی۔ مغربی ماہرین تسلیم کرتے ہیں کہ نائیجر میں فرانس مخالف جذبات نیو نوآبادیاتی دور کے خلاف وسیع عوامی ناراضی کا شاخسانہ ہیں۔ ان کے تمام مصائب‘ خصوصاً سلامتی کی صورتحال پر واضح اثر کے بغیر غیرملکی فوجیوں کی دیرپا موجودگی کی شکایات اور زیادہ اہم بات یہ ہے کہ وسیع پیمانے پر مقامی وسائل کے استحصال کی مہمات نے افلاس کے ہاتھوں نالاں مقامی لوگوں کے جذبات کو بھڑکا دیا ہے۔ پچھلے ہفتے ایک انٹرویو میں واشنگٹن میں نائیجر کے سفیر کیاری لیمن ٹنگوئیری نے بھی فرانس کی جانب سے نائیجر کی یورینیم لوٹنے بارے آن لائن بیان جاری کرکے مغرب مخالف جذبات کو مہمیز دی تھی۔ فرانس کی بڑی سول نیوکلیئر صنعت کیلئے درآمدات کی بابت حالیہ برسوں میں نائیجر کی تابکار دھات کی برآمدات میں اضافہ کی خبریں بھی زبان زد عام ہوئیں‘ جو فرانسیسی تسلط کے خلاف رائے عامہ کو ابھارنے کا وسیلہ بنیں۔فرانس نے بازوم حکومت میں اس لیے کچھ سرمایہ کاری کی تاکہ ملحقہ افریقی ممالک کے ساتھ نئی قسم کی شراکت داریوں کا نمونہ تیار کیا جا سکے۔ اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے‘ کہ فرانسیسی فوجیوں نے جنگجو مخالف کارروائیوں میں نائجیرین ہم منصبوں کے ساتھ مل کر کس طرح لڑائی کی‘ ڈروین نے بتایا کہ نائیجر مالی اور برکینا فاسو کی طرح اسی راستے پر گامزن ہو جائے گا جو کہ نمایاں روسی اثر و رسوخ کے تحت عدم استحکام کو مزید مضبوط کر دے گا‘ یعنی مغربی اشرافیہ جان چکی ہے کہ افریقی ممالک بتدریج روسی کیمپ کی طرف مائل ہوتے جائیں گے۔ افریقہ میں مغربی تسلط کے خلاف بغاوتیں خطے میں فرانس کی ''انسدادِ دہشت گردی‘‘ کی کارروائیوں کی گزشتہ دہائی اور خطے کی فوجوں کے ساتھ اسکے تعلقات کے بارے میں سوالات اٹھاتی ہیں۔ بعض تجزیہ کاروں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ فرانسیسی سیاستدانوں کو تن آسانی کے رویوں سے نکلنا چاہیے کیونکہ یہ گریز صرف فوجی تعاون کی نااہلی کو ہی اجاگر نہیں کرتا بلکہ فرانس کے ارکانِ پارلیمنٹ‘ چند مستثنیات کے ساتھ‘ نے بھی دہشت گردی (افریقہ کی مغلوب قوموں کی طرف سے استعماری تسلط سے نجات کی جدوجہد کو بے رحمی سے کچلنے کی خاطر مغربی طاقتیں ان پہ دہشت گردی کا لیبل لگاتی ہیں) کے خطرے کے پیش نظر فوری طور پر بائیں بازو یا سستی کا الزام عائد کیے جانے کے خوف سے ان مسائل کا کبھی سنجیدگی سے سامنا کرنے کی ہمت نہیں کی۔ یہ رویہ ایک درمیانی طاقت کی سٹریٹیجک حدود کو بھی ظاہر کرتا ہے جس نے اپنے نوآبادیاتی ماضی کو ختم نہیں کیا۔ قومی سلامتی کے مغربی ماہرین کہتے ہیں کہ اگر نائیجر فرانس کے تسلط سے نکل گیا تو عسکریت پسندوں کیلئے ساحلی مغربی افریقی ملک میں امریکی و فرانسیسی مفادات پہ حملہ کرنا آسان ہو جائے گا جو صحارا سے خلیج بنین تک پورے خطے کو غیر مستحکم کر دیں گے۔ لیبیا سے لے کر مغربی ساحل تک مغرب کے پاس کوئی حقیقی ریاست نہیں ہو گی جس کی قوتِ قہرہ فرانسیسی غلبہ کا دوام قائم رکھ سکے۔ گویا یوکرین کی مانند یہاں بھی مغرب کا سب کچھ داؤ پر لگ گیا۔ ایک طرف روسی پراکسی کے ساتھ غیرمستحکم زون اور دوسری طرف اسلام پسند حالات کو کنٹرول کر رہے ہوں گے‘ اس سے پوری مغربی دنیا عدم استحکام کا شکار ہو جائے گی۔