شریفوں کے پوشیدہ اورغیراعلانیہ مالیاتی امور کا کھوج لگانے والی جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم سے اس کارکردگی کی توقع نہ تھی ۔ لگتا نہیں تھا کہ وہ اتنے آزادانہ طریقے سے کام کرسکے گی۔ ہم میں سے زیادہ تر کا خیال تھا کہ اس پر حکومت کا کنٹرول ہوگا۔ ہم سوچتے تھے کہ وزیر ِ داخلہ، جو شیکسپیئر کے مقولے، ''اختصار میں دانائی ہے‘‘، کی حکمت کو تسلیم کرنے سے انکاری ہیں، یا وزیر ِاعظم آفس میں سے کوئی اور اس پر اثر انداز ہونے میں کامیاب ہوجائے گا۔
لیکن سیاسی پنڈت اور شکوک وشبہات رکھنے اور بدگمانی کرنے والے افراد مکمل طور پر غلط ثابت ہوئے ہیں۔ جے آئی ٹی غیر معمولی کارکردگی دکھارہی ہے ۔ اپنے موجودہ اداروں کی حمایت سے محروم یہ اپنے بل بوتے پر کام کررہی ہے ۔ اسٹیٹ بینک، سکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن، ایف بی آئی اور نیب اپنے ہی نمائندوں سے پریشان اور نالاں ہیں۔ صرف آئی ایس آئی اور ملٹری انٹیلی جنس سے تعلق رکھنے والے دوفوجی افسران اپنے محکموں کی پشت پناہی کا دعویٰ کرسکتے ہیں۔ لیکن سول نمائندے بے آسرا ہیں، لیکن نہ وہ کسی کے اشارے کو خاطر میں لائے اور نہ ہی کسی کا دبائو قبول کیا ۔
وہ اپنا کام حوصلے اور وقار سے کررہے ہیں، اور جیسا کہ پہلے کہا جاچکا، اُنھوں نے پاکستان کی روایتی افسر شاہی سے برعکس کردار کا مظاہرہ کیا ہے ۔ ن لیگ کے رد ِعمل سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہونے والے حسین نواز کے لیے گارڈ آف آنر کی توقع لگائے ہوئے تھی۔ جب اُن سے کئی گھنٹوں تک مسلسل پوچھ گچھ کی گئی اور پھر دوبارہ پیش ہونے کا کہا گیا تو حکمران خاندان اور حکمران جماعت ششد رہ گئے ۔
اب اُن کی تمام توپوں کا رخ جے آئی ٹی کی طرف ہوچکا ہے ۔ حکمران جماعت کے لائوڈ سپیکر بٹالین کے سرخیل، جیسا کہ دانیال عزیز اور طلال چوہدری ، ہر ممکن طریقے سے جے آئی ٹی پر تعصب رکھنے اور جانبداری برتنے کے الزامات عائد کررہے ہیں۔ حکمران جماعت کا حامی میڈیا بھی اپنی طاقتور آوازیں ا س آواز میں ملا رہا ہے۔ یہ نقیب شریف خاندان پر لگے الزامات سے عوامی توجہ بٹانے اور جے آئی ٹی کی فعالیت کو اپ سیٹ کرنے کی پوری کوشش کررہے ہیں۔ اس کا اصل مقصد سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ، جو جے آئی ٹی کی نگرانی کررہا ہے ، پر دبائو ڈالنا ہے ۔
حکمران جماعت پریشان ہے کیونکہ یہ حربے کام نہیں دے رہے۔ تین رکنی بنچ نے کسی قسم کا دبائو قبول کرنے سے انکار کردیااور جے آئی ٹی پر پورے اعتماد کا اظہار کیا۔ درحقیقت جے آئی ٹی کے پاس سپریم کی پشت پناہی کے سوا کوئی اور طاقت نہیں۔ اگراسے جناب جسٹس اعجاز افضل خان اور اُن کے دو ساتھی جج صاحبان کی حمایت حاصل نہ ہوتی تو حکمران جماعت اُسے کچا چبا جاتی۔ ماڈل ٹائون ہلاکتوں پر بھی ایک جے آئی ٹی بنی تھی۔ کوئی جانتا ہے اس کا کیا نتیجہ برآمد ہوا؟
اس تحقیقاتی ٹیم کے سامنے پیش ہو کر نواز شریف نے کوئی تاریخ رقم نہیں کی ، کیونکہ اُنہیں ایسا کرنا ہی تھا۔ موجودہ دور کی حقیقی تاریخ جے آئی ٹی اور اس کی نگرانی کرنے والے جج حضرات رقم کررہے ہیں۔ اس تمام کارروائی کا حتمی نتیجہ کیا نکلے گا، یہ ایک الگ بحث ہے ۔ ہم نتیجے پر رائے نہیں دیتے ، لیکن جو عمل ہمارے سامنے ہے ،جیسا کہ نواز شریف کا پیش ہوکر تین گھنٹوں تک پوچھ گچھ کا سامنا کرنا،یہی نئی تاریخ کا سنگ ِمیل ہے ۔
وزیر ِاعظم نے کوئی مثال قائم نہیں کی ... اگر وہ پیش ہونے سے انکار کرتے تو اُن کا کیس خراب ہوجاتا...لیکن دوسرے درجے کے افسران پر مشتمل جے آئی ٹی دبائو اور دھمکیوں کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے ایک نئی مثال قائم کررہی ہے ۔
جب سے پاناما پیپرز کی وجہ سے شریفوں کو مشکلات کا سامنا ہے ، پاکستان میں جمہوریت کے ایک جعلی کلچر نے بھی جنم لیا ہے ۔ شریفوں کی طرف جھکائو رکھنے والے اس جمہوری کلچر کا بیانیہ ہے کہ چونکہ نواز شریف ایک منتخب شدہ وزیر ِاعظم ہیں، اس لیے اُن سے کسی قسم کی پوچھ گچھ، چاہے یہ منی لانڈرنگ کے بارے میں ہو یا ٹیکس چوری کے بارے میں، جمہوریت پر حملہ ہے ۔
ان کی طر ف جھکائو رکھنے والے میڈیا کے ستون بھی اسی موقف کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ جمہوریت کی آڑ لیتے ہوئے وہ ذو معنی الفاظ میں جے آئی ٹی کی فعالیت کو مشکوک بنانے کی کوشش کررہے ہیں۔ ان تحقیقات کے خلاف ملک کے اہم انگریزی اخبارات میں طویل اداریے لکھے گئے ہیں... اس اسلامی جمہوریہ کی حکمران جماعتیں انگریزی میں لکھی ہوئی باتوں پر زیادہ توجہ دیتی ہیں۔
نواز شریف ایک قدم آگے بڑھ گئے ۔ جب وہ جے آئے ٹی سے باہر آئے تو اُنھوں نے ''ریاست خطرے میں ہے ‘‘ کا کارڈ کھیل دیا۔ ایک لکھے ہوئے بیان کو پڑھتے ہوئے (جو یقینا میرے دوست عرفان صدیقی، جو وزیر ِاعظم کے سپیچ رائٹر ہیں، نے لکھا ہوگا)اُنھوں نے کہا کہ اگر یہ پتلی تماشا جاری رہا تو ملک کی سکیورٹی اور سلامتی کو خطرہ لاحق ہوجائے گا۔
یہ منطق دلچسپی سے خالی نہیں۔ دولت کو چھپانے ، ممکنہ طور پر ٹیکس چوری کرنے ، خفیہ منی ٹریل اور منی لانڈرنگ کے الزامات سے کسی چیز کو کوئی خطرہ نہیں۔ لیکن اگر آپ پکڑے جاتے ہیں، اور اس کی وجہ بھی پاکستان میں ٹکسال نہیں ہوئی ، بلکہ یہ انکشاف ایک عالمی اسکینڈل نے کیا ، اور اگر ان معاملات کی آئین کی چھتری تلے قانون کے مطابق تحقیقات ہوتی ہیں تو ملک خطرے میں پڑ جاتا ہے ۔ دوسرے الفاظ میں، ملک کی سلامتی کی خاطر نواز شریف سے پوچھ گچھ نہ کی جائے ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اس وقت نواز شریف گھیرے میں آچکے ہیں۔ اُنہیں اپنے طویل سیاسی کیرئیر کے دوران دوستانہ ججوں سے واسطہ پڑتا رہا۔ یہ پہلا آزاد جوڈیشل بنچ ہے جس کا اُنھوں نے سامنا کیا ہے۔ یہ پہلی تحقیقاتی ٹیم ہے جو اس بنچ کی ہدایت کے مطابق اُن کے اور اُن کے بچوں کے مالیاتی امور کی چھان بین کررہی ہے ۔ جب کچھ نہ بن پڑا تو اُنھوں نے دفاع میں قومی سلامتی کی ڈاکٹرائن گھڑ لی ۔ جب بھی کسی حکمران کا جہاز ہچکولے کھانے لگتا ہے تو وہ اسی کا سہارا لیتا ہے ۔ اس ڈاکٹر ائن سے ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ اگر فلاں حکمران کو گھر بھیجا گیا تو ملک نہیں بچے گا۔
یہ تاریخ کا ایک دلچسپ موڑ ہے ۔ بظاہر ایک مضبوط اور تگڑی حکومت کو ایک بحران کا سامنا ہے ، اور وہ نہیں جانتی کہ اس سے کیسے نمٹے ۔ چند ماہ پہلے یہی پنڈت، جو اب نواز شریف کے بچائو کو جمہوریت کے مساوی قرار دے رہے ہیں، اگلے عام انتخابات میں اُن کی واضح کامیابی کی پیش گوئی کررہے تھے ۔ اب وہ نظام کے بچائو پر خدشات کا اظہار کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
سینئر ن لیگی رہنماپہلے ہی نواز شریف کے بعد کی صورت ِحال کے بارے میں سوچنا شروع ہوگئے ہیںکہ اگر وہ پاناما کیس میں نااہل ہوگئے تو اُن کا متبادل کون ہو گا؟ ان کا خیال ہے کہ تبدیلی کا یہ عمل آسان سا ہوگا۔ اب نوازشریف ہیں، اس کے بعد کوئی اور یہ عہدہ سنبھال لے گا۔ لیکن ایسا کبھی نہیں ہوتا۔ ہماری سیاسی جماعتیں شخصیت پرستی کے گرد گھومتی ہیں۔ جب مرکزی رہنما کو کچھ ہوتا ہے اور اگر خاندان میں سے کوئی جانشین نہ ہوتو پھر مسائل کا پہاڑ کھڑا ہوجاتا ہے ۔ دنیائے اسلام کی تاریخ سے یہی سبق ملتا ہے ۔کسی بادشاہ کے جانے کے بعد افراتفری اور جانشینی کی جنگ شروع ہوجاتی ہے۔
تاہم اچھی چیزیہ ہے کہ جب یہ بحران اپنے نقطہ ٔ عروج کی طرف بڑھ رہا ہے (امید ہے کہ فیصلہ آنے میں دیر نہیں لگے گی ) توہمارے ادارے اپنے معمول کے مطابق کام کررہے ہیں۔''سسٹم ‘‘ کسی طور خطرے میں نہیں ہے ۔ یہ بحران ایک خاندان، یوں کہہ لیں، ایک حکمران خاندان کا بحران ہے ۔ قوم کسی بحران سے دوچا ر نہیں ۔