"AYA" (space) message & send to 7575

لوہا، لوہے کو کاٹتا ہے!

میاں نواز شریف قوم کو معصومیت کا ایک درس دے رہے ہیں۔ کہتے ہیں: وقت آ گیا ہے کہ قوم کی سمت متعین کی جائے اور فیصلہ کیا جائے کہ یہاں حکمرانی کس نے کرنی ہے۔ سمت کا تعین تو ہو چکا۔ دستور بھی موجود ہے اور سویلین بالادستی کا اصول اس میں واضح طور پہ درج ہے۔ کاغذ کی حد تک یہ فیصلہ ہو چکا کہ طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں‘ لیکن حکمران یہ فیصلہ نہ کر سکے کہ حکمرانی اورکاروبار میں کچھ فرق ہونا چاہیے۔
شریف بھائیوں نے اپنی اپنی باری پنجاب پہ لمبی حکمرانی کی۔ نواز شریف تین بار وزیر اعظم رہ چکے۔ لیکن اس سارے عرصے میں اپنا کاروبار بھی خوب چمکاتے رہے۔ بینکوں سے قرضے لیتے رہے۔ وقت پر رقوم کبھی بھی واپس نہ کیں۔ فیکٹریوں کی ایک پوری لائن لگتی رہی اور جیسا کہ پاناما کیس میں واضح ہوا بیرون ملک بھی ایسی بھاری جائیدادیں اکٹھی ہوئیں کہ وہاں کے مالدار طبقات بھی اس پر رشک کریں۔ یہی نہیں‘ بلکہ غیر قانونی ذریعوں سے پیسہ باہر منتقل ہوتا رہا۔ اس کارروائی کا ذکر جناب اسحاق ڈار کے میلوں لمبے اعترافی بیان میں درج ہے جو انہوں نے‘ جیسا کہ وہ خود مانتے ہیں‘ اپنی مرضی سے نیب والوں کو دیا۔ جعلی بینک اکاؤنٹ قاضی فیملی کے نام پر کھولے گئے۔ امیر تو یہ پہلے ہی تھے لیکن اقتدار میں آنے کے بعد امیر تر ہو گئے۔ 
کون سے عمرانی معاہدے یا دستور میں ایسی حرکات کی گنجائش موجود ہوتی ہے؟ اقتدار میں ہوں تو سب کچھ بھول جاتے ہیں۔ ٹھوکر لگے تو چارٹر آف ڈیموکریسی اور ملکی سمت کا درست تعین کرنا یاد آجاتا ہے۔ مانا کہ افواج سب سے طاقتور ادارے کی حیثیت رکھتی ہیں۔ من مانی بھی کرتی ہوں گی۔ چار فوجی آمر بھی ہمارے نصیب میں آئے‘ لیکن کوئی یہ بتائے کہ جب جمہوریت کے چیمپئن عوام کے ووٹوں سے اقتدار میں آئیں اور پھر حکمرانی پر توجہ دینے کے بجائے ہمہ وقت مال اکٹھا کرنے میں مگن ہو جائیں تو کون سا آئین ہے جو سویلین بالادستی کو یقینی بنا سکے؟ افواج تو پہلے ہی طاقتور ہیں اور سویلین ادارے نااہل اور کمزور بھی۔ ایسی صورتحال میں اور بھی ضروری ہو جاتا ہے کہ جمہوری حکمران اپنی اخلاقی ساکھ پیدا کریں اور اسے قائم رکھیں۔ لیکن جب جمہوریت پسندوں کے کردار اور ان کے مالی معاملات پر انگلیاں اٹھنے لگیں تو ان کی سبقت جو ہونی چاہیے متاثر ہوتی ہے۔ یہ نکتہ ہمارے شریفوں کی سمجھ میں کبھی نہ آ سکا اور اب بھی نہیں آرہا۔
حکمرانی کا یہ بھی تقاضا ہے کہ حکمران سفید جھوٹ نہ بولا کریں۔ سیاستدان اور حکمران جھوٹ بولتے ہیں لیکن اگر پکڑے جائیں تو انہیں اس کی قیمت ادا کرنا پڑتی ہے اور سر عام ان کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔ جب قطری خطوط جیسے شاہکار پر ملک کے ایک کونے سے دوسرے تک قہقہے اٹھیں تو طاقت کے دبدبے پر اثر پڑتا ہے۔ جب شروع شروع میں پاناما کا قصّہ منظر عام پر آیا تو وزیر اعظم اور ان کا خاندان ایک موقف اختیار کرتے اور صداقت کا دامن مضبوطی سے نہیں کمزور طریقے سے ہی پکڑتے تو شاید ان کی مشکلات اتنی نہ بنتیں۔ لیکن ایک سال سے زیادہ عرصہ تک قوم کے سامنے کیا ناٹک پیش کیا گیا۔ بیٹے کچھ کہہ رہے ہیں، ہونہار بیٹی کا موقف کچھ اور ہے، اور والد صاحب قومی اسمبلی کے سامنے کچھ اور فرما رہے ہیں۔ ایسے میں زیادہ ضرورت کس امر کی ہے، قوم کی سمت کا درست ہونا یا میاں صاحبان کا اپنے قبلے کا کچھ خیال رکھنا؟
کمال معصومیت سے کہا جا رہا ہے کہ ان پر کرپشن کا کوئی الزام نہیں۔ اس پر آدمی ہنسے یا روئے۔ ماجرا ہی سارا کرپشن، منی لانڈرنگ، ہیر پھیر اور دروغ گوئی کا ہے اور یہ سینہ تان کے چہرے پہ معمولی سا بَل لائے بغیر کہتے ہیں کہ ہم تو صاف ہیں، بلکہ پوتّر ہیں، اور کرپشن کی ان پر چھینٹ تک نہیں آئی۔ معصومیت یا ڈھٹائی کا اعلیٰ سبق شاذ ہی کہیں اور سے ملے۔ لیکن یہ ایسے فنکار ہیں اور میڈیا میں ان کے جیالے ایسا تاثر پھیلا رہے ہیں کہ ان کی اخباریں پڑھیں تو گمان گزرتا ہے کہ یہ کرپشن اور فریب کا معاملہ نہیں‘ جمہوریت کی جنگ ہے۔
بیچ میں عائشہ گلالئی کا معاملہ اس ہنر مندی سے اٹھایا گیا کہ قومی توجہ کہاں سے کہاں چلی گئی۔ انگریزی کا محاورہ ''پیالی میں طوفان‘‘ اس پہ فٹ بیٹھتا ہے۔ اوپر سے میاں نواز شریف کی مظلومیت اور معصومیت کی داستان۔ لگ ایسا رہا تھا کہ جیسے نرم دلوں میں ان کیلئے ہمدردی کی لہر پیدا ہو رہی ہے۔ ایسے میں شیخ الاسلام، ڈاکٹر طاہرالقادری کی آمد حکمران خاندان کیلئے بجلی گرنے سے کم نہیں۔ شیخ الاسلام سے کوئی لاکھ اختلاف کرے۔ ان کی بہت ساری چیزوں پہ نکتہ اٹھایا جا سکتا ہے‘ لیکن بڑے سے بڑے ناقد کو بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ ان جیسا مقررّ ہمارے ہاں اور کوئی نہیں۔ ایسا سماں باندھتے ہیں کہ اثر لیے بغیر کوئی نہ رہے۔ ان کا کل لاہور ایئرپورٹ پر کیا آنا تھا، انہوں نے جناب نواز شریف کو دھو کے رکھ دیا۔ سوال کیا کہ جی ٹی روڈ مارچ کی شکل میں نواز شریف کس کے خلاف احتجاج کرنا چاہتے ہیں۔ للکار کے کہا کہ ہمت ہے تو نام لو احتجاج کس کے خلاف ہے۔ اور نام نہیں لو گے تو سمجھا جائے گا کہ مہم عدالت عظمیٰ اور ریاست کے خلاف ہے۔ عمران خان بھی خوب برستے ہیں لیکن وہ بات کہاں مولوی مدن کی سی۔
شنید تھا کہ ماڈل ٹاؤن کا قصہّ سر پھر اٹھائے گا۔ ڈاکٹر طاہرالقادری نے یہ بھی کہا کہ پاناما کے فیصلے اور وزیر اعظم کی نااہلی سے یہ امید پیدا ہو گئی ہے کہ شہدائے ماڈل ٹاؤن کو بھی انصاف ملے گا۔ ان کی آمد بتاتی ہے کہ جو منظرنامہ ملک میں بن رہا ہے‘ اس میں وہ اپنا حصہ ڈال کر ہی واپس لوٹیں گے۔ یقینا آنے والے دنوں میں یہ مطالبہ زور پکڑے گا کہ جسٹس باقر نجفی رپورٹ منظرِ عام پر آئے۔ ایسا ہو گیا تو خادمِ اعلیٰ کا کام ہو جائے گا‘ اور ہمارے دوست رانا ثناء اللہ کو بھی اپنے بارے میں سوچنا پڑے گا۔ ماڈل ٹاؤن کا قصہ دبا رہا‘ جب تک اقتدار کا سورج عروج پر تھا۔ اب جب یہ سورج غروب ہونے کو ہے یا کم از کم ایسے آثار نظر آ رہے ہیں، تو چودہ اشخاص کا قتل، جس میں دو خواتین بھی تھیں، کب تک دبا رہے گا؟
ن لیگ یا اس کی قیادت صورتحال کا غلط اندازہ لگا رہی ہے۔ یہ ترکی نہیں اور نہ ہی نواز شریف طیب اردوان ہیں۔ اگر ان کو اپنی عوامی سپورٹ پہ ناز ہے تو عمران خان کے پاس بھی عوامی حمایت ہے اور جتنے committed ورکرز شیخ الاسلام کے پاس ہیں کسی اور جماعت میں نہیں۔ 30 بور کی ایک گولی چل جائے تو ہجوم بکھر جاتا ہے۔ ماڈل ٹاؤن واقعہ میں چودہ لوگ قتل ہو گئے لیکن پاکستان عوامی تحریک کے مرد و خواتین وہیں ڈٹے رہے اور بالآخر پولیس کے بھاری دستوں کو پسپا ہونا پڑا۔ یہ معاملات اب یہاں رکنے کے نہیں، کہاں سے کہاں چلے جائیں گے۔ اور ابھی تو نیب مقدمات بھی نہیں آئے۔ جب ان کے تحت پیشیاں ہوں گی، پورے کے پورے خاندان کی ضمانتیں کرانا پڑیں گی اور روز شام ٹی وی چینلوں پر چرچا ہو گا تو پھرکیا گزرے گی؟ آج سے شروع ہونے والی جی ٹی روڈ مارچ کی آدھی آب و تاب تو گزرے ہوئے کل، شیخ الاسلام نے چھین لی۔ اور جو بھی جناب نواز شریف دوران سفر کہیں گے اس کا جواب کہیں زیادہ شدت سے شیخ الاسلام کی طرف سے آتا رہے گا۔
حالات کا بہاؤ یا تاریخ کا پہیہ پیچھے نہیں پھیرا جا سکتا۔ کرپشن اور اقتدار کا گٹھ جوڑ بہت ہو چکا اور اس کے نتیجے میں اچھے بھلے ملک کا ستیاناس ہو گیا۔ وہ ضیاالحق کے جرنیل تھے جنہوں نے ان پہ ہاتھ رکھا۔ یہ اور قسم کی فوج ہے جس نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنا خون بہایا۔ اس فوج نے ان کے سر سے ہاتھ اٹھا لیا۔ یہ بات ان کی سمجھ میں نہیں آ رہی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں