شیکسپیئر کا مشہور مقولہ ہے کہ مصیبتیں آتی ہیں تو ایک سپاہی کی مانند نہیں بلکہ پلٹنوں کی شکل میں۔ یہی حال ہمارے مینڈیٹ والوں کا ہو رہا ہے۔ ہر نئی صبح کوئی نیا سامانِ رسوائی سامنے آتا ہے‘ لیکن مجال ہے کہ شرمندگی کی تھوڑی سی لکیر ماتھوں پہ آئے۔ اندرون خانہ خوف ضرور ہے اور غصہ بھی‘ لیکن شرمندگی نام کی چیز اُس اُفق پہ دکھائی نہیں دیتی۔
سامانِ رسوائی پورا کرنے کے لئے دو چیزیں باقی رہ گئی تھیں۔ ایک ماڈل ٹاؤن سانحے کے بارے میں جسٹس باقر نجفی کی جوڈیشل انکوائری، آیا منظر عام پہ آ سکے گی یا نہیں اور دوسری حدیبیہ پیپر ملز کا کیس‘ جس میں نیب اپیل سپریم کورٹ کے ایک بینچ کے سامنے موجود ہے۔ حدیبیہ فیصلہ ابھی آنا ہے‘ یعنی یہ کہ نیب اس سارے معاملے کی از سرِ نو تفتیش کر سکے گا یا نہیں‘ لیکن ماڈل ٹاؤن رپورٹ کا فیصلہ آ چکا ہے اور جیسا کہ آج کی سُرخیاں چیخ چیخ کے کہہ رہی ہیں‘ پنجاب حکومت کو پابند کیا گیا ہے کہ رپورٹ لواحقین کو فوری مہیا کی جائے۔ اس مسئلہ میں دیر بہت ہوئی۔ کہاں جون 2014ء میں رُونما ہونے والا سانحہ اور کہاں پنجاب حکومت اور (ن) لیگی قیادت کے تاخیری حربے۔ جب چودہ لوگ بشمول دو خواتین کے‘ پولیس کی گولیوں سے چھلنی ہوئے اور لاہور کی زمین لرز گئی‘ تو پنجاب کے وزیر اعلیٰ نے روایتی ڈرامہ بازی کرتے ہوئے کہا تھا کہ جوڈیشل انکوائری کا حکم دے دیا گیا ہے‘ اور اُس میں مجھ پہ ذرا سا بھی حرف آیا تو فوری مستعفی ہو جاؤں گا۔ یہ بات ریکارڈ پہ ہے، ٹی وی کوریج میں محفوظ۔ پھر جب انکوائری ہوئی اور رپورٹ لکھی گئی تو پنجاب حکومت کے ہاتھ پیر پُھول گئے اور رپورٹ کو دبا دیا گیا۔ دو سال سے زائد کی عدالتی جدوجہد کے بعد یہ فیصلہ آیا ہے۔
نامور بیرسٹر سید علی ظفر لواحقین کی طرف سے ہائی کورٹ میں پیروی کر رہے تھے۔ وہ مبارکباد کے مستحق ہیں؛ البتہ شریفوں اور پنجاب حکومت کے وکیل خواجہ حارث‘ جو لائق وکیل اور بھلے مانس آدمی ہیں‘ سے دِلی ہمدردی ہے۔ اُن کے دلائل اس کیس میں ایسے اوٹ پٹانگ تھے کہ پڑھ کے ہنسی آتی تھی۔ لیکن وہ کرتے بھی کیا، جب آپ کا مقدمہ ہی اتنا بھونڈا ہو تو لائق سے لائق وکیل بھی کیا کر سکتا ہے۔ آسمانوں سے دلائل تو وہ کھینچنے سے رہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ پاناما کا معاملہ اُٹھنے سے لے کر اب تک شریفوں کے تمام وکلا شرمندہ اور رُسوا ہوئے ہیں۔ جب پاناما کیس سپریم کورٹ میں چل رہا تھا‘ تو تین بار وکلا کی ٹیمیں تبدیل ہوئیں۔ جو آیا شرمندہ ہو کے گیا۔ پُرانی وابستگی کو نبھاتے ہوئے خواجہ حارث لگے ہوئے ہیں۔ نیب ریفرنسز میں اور اُس مردِ چٹان اسحاق ڈار کے بھی وکیل وہی ہیں۔ بھاری فیس تو لیتے ہوں گے اور لینی بھی چاہیے‘ لیکن ایسے مؤکلان کا دفاع کرتے ہوئے ان کے دل پہ کیا گزرتی ہو گی؟ گو یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ دل و جاں پہ جو بھی گزرے‘ وکالت ایسا پیشہ ہے کہ اُس میں چلنے والے دل پہ قابو رکھ لیتے ہیں۔
یہ ایک لمبی دوڑ ہے۔ جو کچھ ہو رہا ہے‘ آہستہ آہستہ ہو رہا ہے۔ شریف صرف قانون کی پکڑ میں نہیں ہیں، قدرت کا بھی ان سارے معاملات میں بڑا ہاتھ ہے۔ اُن کے دن پھِر چکے ہیں۔ ایک لمبی داستان‘ جس کا آغاز 30-35 سال پہلے ہوا تھا‘ دھیرے دھیرے اختتام کو پہنچ رہی ہے۔ نواز شریف چِلا رہے ہیں، ہر موقع پہ عدلیہ اور اشارتاً فوج پر دشنام طرازی کر رہے ہیں۔ یہ اُن کا حق ہے لیکن ان حربوں سے وہ جال‘ جو اُن پہ آ چکا ہے‘ سے نکل نہیں پا رہے۔ قانونی شکنجے کَسے جا رہے ہیں۔ وہ باتیں اور وہ واقعات‘ جن کے بارے میں سوچا جا رہا تھا کہ ہمیشہ کے لئے دفنا دئیے گئے‘ اپنی گہری قبروں سے اُٹھ اُٹھ کے آ رہے ہیں۔ انہوں نے سمجھا تھا کہ ماڈل ٹاؤن سانحے کے حوالے سے حفاظتی تدبیریں کر لی گئیں۔ اس میں بھی ایک جے آئی ٹی تشکیل دی گئی جس کا فیصلہ شریفوں اورپنجاب حکومت کے حق میں تھا‘ لیکن معاملہ دبا نہیں اور جیسا کہ تازہ ترین عدالتی فیصلے سے عیاں ہے پھر سے اُٹھ کھڑا ہوا ہے۔ شیکسپیئر کا لازوال ڈرامہ مک بیتھ (Macbeth) پڑھیے۔ اُس سے بہتر تبصرہ شریفوں کے حالات پہ نہیں ہو سکتا۔ مک بیتھ بھی سمجھتا تھا اُسے کوئی ہاتھ نہیں لگا سکتا اور قدرت کبھی باز پُرس نہ کرے گی‘ لیکن جب حالات بدلے تو سب کچھ اُلٹ ہو گیا اور کوئی تدبیر کارگر نہ ہوئی۔ نواز شریف اب بھی سمجھ رہے ہیں کہ چالاکیوں سے کام چل جائے گا‘ یا کہیں سے معجزہ رُونما ہو گا جو اُنہیں بچا لے۔ بنیادی بات ذہن میں بیٹھ نہیں رہی کہ اُن کے دن پھِر چکے۔ جب آسمان کا رنگ بدل جائے تو پھر ہاتھ پیر مارنے سے کیا نکلتا ہے؟
اُن کی ایک اور بدقسمتی کہ اُنہیں کسی جنرل پرویز مشرف سے واسطہ نہیں۔ پرویز مشرف جلد باز تھے اوراگر اَب ہوتے تو کچھ کر بیٹھتے۔ اور ایسی کارروائی میں نواز شریف اقتدار سے تو ہٹ جاتے لیکن شہید یا ہیرو کا رُتبہ پھر سے پا لیتے۔ جن سے نواز شریف کو اب پالا پڑا ہے وہ اور کچھ ہوں تو ہوں‘ جلد باز نہیں۔ کچھ منہ سے کہہ نہیں رہے، بپھر نہیں رہے، غصے میں نہیں آ رہے۔ جو کچھ کر رہے ہیں آہستہ آہستہ۔ بہترین سٹریٹیجی (strategy) سامنے والے حملے کی نہیں ہوتی۔ وہ تو نااہلوں اورگنواروں کا کام ہے۔ بہترین جرنیل سامنے کی بجائے دائیں بائیں سے حملہ کرتے ہیں۔ لڈل ہارٹ (Liddel Hart) کی مشہور کتاب ہے: سٹریٹیجی، بالواسطہ اپروچ یعنی Strategy, the indirect approach۔ اُس میں یہی تلقین ہے کہ مؤثر حملہ بالواسطہ ہوتا ہے، اُس سمت سے جس کی توقع نہ ہو۔ شریفوں کے ساتھ یہ سٹریٹیجی کارفرما ہے، کبھی حدیبیہ، کبھی ماڈل ٹاؤن، کبھی فیض آباد دھرنے کا معاہدہ۔ چیخنے کی بجائے نواز شریف کو لڈل ہارٹ کو تھوڑا پڑھ لینا چاہیے تاکہ سمجھ سکیں اُن کے ساتھ ہو کیا رہا ہے۔ پڑھنے میں دشواری ہو تو ہمارے دوست علامہ عرفان صدیقی مخصوص اقتباسات کے ترجمے کا اہتمام کر سکتے ہیں۔
تو اگر ہم جیسے جلد باز سمجھیں کہ کوئی جلد انتخابات کرائے جائیں گے تو غلطی ہماری ہے۔ جو سٹریٹیجی اپنائی جا رہی ہے اُس میں فوری یا جلد انتخابات فٹ نہیں ہوتے۔ پہلے قانونی شکنجے کسے جائیں گے اور اس امر میں جتنی دیر بھی لگے صبر سے کام لیا جائے گا۔ ہم جیسے صوفوں پہ بیٹھے جنگجو پُکارتے رہیں گے کہ قانونی کارروائیوں میں دیر ہو رہی ہے‘ اور نواز شریف اپنے طور پہ چیختے چلاتے رہیں گے‘ لیکن جو عمل ہو رہا ہے اور جیسے فیصلے آ رہے ہیں یہ تمام کارروائی اپنے ٹریک پہ چل رہی ہے‘ تمام تنقید اور واویلا سے بے نیاز۔ جب حدیبیہ، ماڈل ٹاؤن اور نیب ریفرنسز اپنے منطقی اختتام کو پہنچیں گے‘ تو اگلا فیصلہ پھر ہو گا۔ الیکشن کا میدان سجے گا تو اُس وقت۔ لہٰذا سانس پُھلانے کی ضرورت نہیں۔ چیزیں اپنی رفتار پہ چل رہی ہیں اور کوئی شہید نہیں بن رہا۔
پچھلے سال جب پاناما پیپرز پہلی بار سامنے آئے کوئی سوچ سکتا تھا کہ یہ سب کچھ ہو گا؟ جب رینگتے انداز میں معاملہ سپریم کورٹ پہنچا تو کسی کو گمان تھا کہ وہ فیصلے آئیں گے جو آئے؟ ہم میں سے بہتوں نے جے آئی ٹی کو مذاق سمجھا اور پورا میڈیا اس بات پہ متفق تھا کہ ساٹھ (60) دن میں جے آئی ٹی اپنی تفتیش مکمل نہ کر سکے گی ۔ یہ سب کچھ ہو گیا۔ وزیر اعظم نااہل بھی ہو گئے اور اقامے بھی جیبوں سے نکل آئے۔ گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ یہ ایک طویل ترین ڈرامہ ہے اور اس کی باریکیوں کو سمجھنے کی اولین شرط مُناسب صبر ہے۔