ہم جیسے سُست روی کے شکار اور نکمّے آدمیوں کی زندگیوں میں دو چیزوں نے آسانیاں پیدا کیں۔ ایک کتابوں نے، جو نہ ہوتیں تو زندگی میں سہارا کس چیز کا رہ جاتا۔ دوسری انٹرنیٹ کی ایجاد نے کہ اس نے فاصلے کم کر دئیے اور دور دراز دیہاتوں کو بھی بڑے سے بڑے شہر سے ملا دیا۔
سمرسیٹ مام (Somerset Maugham) کا ایک مقولہ ہے کہ جس نے پڑھنے کا شوق پیدا کر لیا اُس نے زندگی کی تمام تکلیفوں سے اپنے آپ کو محفوظ کر لیا۔ کتابیں ساتھ ہوں تو اکیلا پن محسوس نہیں ہوتا‘ اور بہت ساری چیزوں سے آدمی بے نیاز ہو جاتا ہے۔ سمرسیٹ مام جہاں بھی سفر کرتے ڈھیر سی کتابیں اپنے ساتھ لے جاتے۔ وہ شرمیلے انسان تھے اور زندگی بھر شادی نہ کی۔ سفر بہت کرتے تھے اور اُن کا ہمسفر ایک مرد دوست ہوا کرتا تھا۔ خواتین سے بھی دوستی ہوتی لیکن ادبی قسم کی۔ صفِ اول کے ناول نگار نہ تھے لیکن مقبولِ عام لکھاری ضرور تھے۔ اُن کی کتابوں کی سرکولیشن بہت ہوتی اور اُس سے انہوں نے اچھا خاصا پیسہ کمایا۔ آسودہ ہونے کی وجہ سے دوران سفر بڑے بڑے ہوٹلوں میں رہتے، مزاج اور شوق بھی امیروں جیسے تھے۔ صرف حسن سے ادا نہیں آتی پیسوں سے بھی ادائیں بدل جاتی ہیں۔
مام اپنی کتابیں لانگ ہینڈ (long hand) میں لکھتے تھے یعنی کاغذ ہوا توقلم سے تحریر شروع کی۔ دنیا میں جو بڑے لکھاری رہے ہیں سب نے ایسا ہی کیا۔ ہم جیسے لوگ لکھاری تو نہیں کہلا سکتے لیکن صحافت کے میدان میں عرصۂ دراز سے ہماری آنیاں جانیاں رہیں۔ ہمارے لئے آسانی انٹرنیٹ نے پیدا کی۔ ایک زمانہ تھا کہ صحافی ہونے کے لئے ضروری تھاکہ رہائش اسلام آباد، لاہور یا کراچی جیسے شہروں میں رکھی جائے کیونکہ وہاں ہی وہ سہولیات میسر تھیں‘ جو صحافتی کمیونیکیشن یا رابطوں کے لئے ضروری ہوتیں۔ جب کالم نگاری شروع کی تو کالم پی آئی اے ڈاک کے ذریعے لاہور میں اپنے دفتر کو بھیجتے۔ بہت سالوں بعد فیکس مشین آئی اور جب پہلی دفعہ دیکھی تو حیرانی ختم نہ ہوئی کہ یہ کیا عجیب چیز ہے کہ کاغذ ایک طرف سے ڈالا اور کہیں دور دوسرے شہر میں اُس جیسی دوسری مشین سے باہر نکل آیا۔ فیکس کے استعمال کے لئے بھی ضروری تھا کہ کسی نسبتاً بڑے شہر میں رہائش ہو۔ اُس وقت تو چکوال میں ٹیلی فون کی ڈائریکٹ ڈائلنگ بھی نہ تھی۔ راولپنڈی کال ملانی ہوتی تو آپریٹر صاحب سے کہا جاتا اور اُن کی مہربانی ہوتی تو کال جلد مل جاتی۔ اُس زمانے میں محکمہ ٹیلی فون کے آپریٹر چھوٹے شہروں میں بڑی تڑّی سے چلتے تھے اور لوگ اُنہیں سلام کرتے تھے۔ بڑے دکاندار شاید ماہانہ سلامی بھی پیش کرتے کیونکہ اُن کی نوازش کے بغیر کال نہ ملتی۔ جب ڈائریکٹ ڈائلنگ آئی ہم سمجھے کہ انقلاب آ گیا۔ لیکن پھر بھی صحافت کرنے کے لئے بڑے شہر میں رہنا ضروری تھا۔ بہت عرصے تک ہمارے گاؤں میں بجلی نہ تھی۔ سینیٹر سرتاج عزیز سے گزارش کی اور اُنہوں نے اپنے ترقیاتی فنڈز میں سے مہربانی کی اور بھگوال میں 1990ء میں بجلی آئی۔ ٹیلی فون ایکسچینج بعد میں بنا۔
1995ء میں آکسفورڈ یونیورسٹی میں تین ماہ کی فیلوشپ ملی۔ اُس وقت کمپیوٹر نئے نئے آئے تھے اور میں نے دیکھا کہ ہر طالب علم کو کمپیوٹر کے استعمال کی روانی نہ تھی۔ مائیکروسافٹ کا MS Word سسٹم‘ جو آج کل عام ہے اور جس نے کمپیوٹر کے استعمال کو بہت آسان کر دیا ہے‘ تب ایجاد نہ ہوا تھا۔ لہٰذا ہم جیسے اناڑیوں کے لئے کمپیوٹر کا استعمال خاصا مشکل تھا۔ لیکن اس میدان میں جو حیرت انگیز تبدیلیاں آئی ہیں‘ دنیا کی تاریخ میں سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہیں۔ کمپیوٹرز نے کیا کچھ نہیں کر دکھایا‘ لیکن ہمیں اپنی زندگی سے سروکار ہے۔ ہماری زندگی میں آسانیاں پیدا ہو گئی ہیں۔ گاؤں میں بیٹھے دنیا بھر کی موسیقی سُن سکتے ہیں۔ یُوٹیوب لگاؤ تو موسیقی کے سارے خزانے سامنے ہوتے ہیں۔ بٹن دباؤ تو واگنر (wagner) سن سکتے ہو۔ ایسی موسیقی‘ جو کبھی حاصل نہ کر سکتے تھے اور جسے سننے کا کبھی موقع ہاتھ نہ آتا‘ اب سامنے پڑی ہے۔ گاؤں میں بیٹھ کے کالم نویسی ہو سکتی ہے۔ درخت تلے لیپ ٹاپ کھولا اور کالم لکھ ڈالا۔ دُنیا بھر کے اخبارات کمپیوٹر سکرین پہ میسر ہیں۔ فیس بک جیسی چیزوں سے کوئی واسطہ نہیں اور گھنٹوں سکرین کے سامنے بیٹھنے کا بھی شوق نہیں‘ لیکن موسیقی اور لکھائی کی آسانی نے کئی لحاظ سے زندگی بدل کے رکھ دی ہے۔ صحیح آسائشیں یہی ہیں اور اِن کے بغیر زندگی ادھوری رہ جائے۔
میں حیران ہوتا ہوں کہ ہمارے ہاں اب تک دیہات میں رہنے کا رواج شہر کے لوگوں میں زیادہ پیدا نہیں ہوا۔ جیسا ہم جانتے ہیں برطانیہ جیسے ملک میں بہت سارے آرٹسٹ قسم کے لوگ دیہات میں رہنا پسند کرتے ہیں۔ یہ ضرور ہے کہ وہاں آنے جانے کی سہولیات میسّر ہیں۔ آپ دیہات میں رہیں تو باآسانی لندن، پیرس اور نیویارک آ جا سکتے ہیں۔ جب میں آکسفورڈ میں تھا تو وہاں دیکھا کہ آکسفورڈ ٹیوب نامی بس سروس لندن تک چلتی تھی۔ اُس پہ آپ لندن گئے، سیر سپاٹا کیا ، رات گئے بس میں بیٹھے اور آکسفورڈ واپس پہنچ گئے۔ یہاں پہ اب بھی یہ روش ہے کہ بڑے شہروں میں رہا جائے حالانکہ بڑے شہروں کی جو حالت بن چکی ہے وہ ہمارے سامنے ہے۔ جب 1978ء میں ہم اسلام آباد گئے تو چھوٹا سا شہر تھا۔ کوئی مقام نہ تھا جو کار پہ پانچ منٹ کی مسافت سے دور ہو۔ اب بے ہنگم شہر بن چکا ہے اور اتنا پھیل رہا ہے کہ جنوب کی طرف چکری کے قریب آتا جا رہا ہے اور کچھ سالوں بعد بلکسر اور چکوال بھی اسلام آباد کے مضافات (suburb) کہلائیں گے۔ یہ جو فتح جنگ والا نیا ایئرپورٹ بن رہا ہے‘ میرے گاؤں بھگوال سے زیادہ قریب ہو گا بہ نسبت اسلام آباد کے۔ نیلہ دلہہ انٹرچینج نے یہ سہولت پیدا کی ہے کہ گاؤں سے اُٹھوں تو ایک گھنٹہ پانچ منٹ میں آبپارہ پہنچ جاؤں۔
بہرحال یہ حقیقت ذہنوں سے اُوجھل نہیں ہونی چاہیے کہ جہاں دنیا اور اُس کی ایجادات نے ہماری زندگیاں آسان کی ہیں وہاں ہم نے اپنے ملک کا حلیہ بگاڑ کے رکھ دیا ہے۔ اب ہم عمر کے اس حصے میں ہیں کہ نہ کوئی زیادہ خواہشات ہیں نہ کوئی ملک کو سنوارنے کی اتنی تڑپ باقی ہے۔ اب یہ خیال گھر کرتا جا رہا ہے کہ بیشتر چیزوں میں ہم نے ایسے ہی رہنا ہے۔ یہاں کوئی بڑی تبدیلی نہیں آنی۔ ہم بے ہنگم معاشرہ بن چکے ہیں اور شاید بے ہنگم رہنا ہماری تقدیر میں ہے۔ 68 سال کی عمر میں بہت کچھ دیکھ چکے اور یہ بھی دیکھا کہ ہر خرابی نے مزید خرابیاں پیدا کیں۔ حکمرانی بھی ہماری ڈھیلی ہے اور قیادت کی سطح کا ذکر نہ ہی کیا جائے تو بہتر ہے۔ لیکن اب بھی خیال رہتا ہے کہ لاہور جائیں تو ڈھنگ کی شام تو گزار سکیں، کچھ تو جگہیں ہوں جہاں ہلکی روشنی میں اچھی موسیقی سُنی جا سکے اور اچھی شکلیں دیکھنے کو ملیں۔ ایک زمانے میں ایسی جگہیں ہوا کرتی تھیں‘ لیکن ہمارے اُلٹے نظریوں نے اُنہیں اُجاڑ کے رکھ دیا۔ اب پاکستان میں حالت یہ ہے کہ شام گزارنی ہو تو کسی کے گھر جانا پڑتا ہے۔ کوئی ایسی جگہ نہیں میسّر جہاں آدمی جائے، پسند کی چیزوں کو دیکھے، اچھا وقت گزارے اور جھومتے ٹہلتے، کوئی گانا گنگناتے، ہوٹل کو واپس لوٹے۔ یہ نہیں کہ بہکانے والی چیزیں مملکتِ خداداد میں دستیاب نہیں۔ لیکن اِن کے حصول کے لئے بہت تردد کرنا پڑتا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ آدمی باقاعدہ مہم پہ جا رہا ہے۔ یہاں فون کرو وہاں فون کرو، پورا دردِ سر کا اہتمام کرنا پڑتا ہے۔ دل افسردہ پڑ جاتا ہے جب یہ خیال آتا ہے کہ ایسی مہم جوئی میں کوئی آسانیاں پیدا نہ ہوں گی۔ ہمارے حالات ایسے ہی رہیں گے۔