"AYA" (space) message & send to 7575

یہ قصّہ تمام ہوا!

لندن جائیدادوں کا جواب دے نہ سکے حالانکہ بہت مواقع ملے۔ مقدمہ تو پھر ہارنا تھا اور سزا بھی سنائی جانی تھی۔ ہم سٹوڈیو میں بیٹھے فیصلے کا انتظار کر رہے تھے اور عمومی رائے یہی تھی کہ سزا ضرور ملے گی‘ اور سات سے دس سال کے درمیان ہو سکتی ہے۔ اس رائے کا اظہار کیا گیا کہ لندن فلیٹوں کا بحقِ سرکار ضبط ہونے کا امکان بھی ہے۔ ایسا ہی ہوا۔ 
نواز شریف اور اُن کی دختر کی کوشش رہی ہے کہ عدالتی کارروائی کو سیاسی رنگ دیا جائے۔ کبھی خلائی مخلوق اور کبھی ان دیکھی قوتوں کا ذکر چھڑتا تھا۔ لیکن جب بات کرپشن کی ہو اور یہ بھی پاکستانی قوم پہ واضح ہو جائے کہ اُن کے تین بار چُنے گئے وزیر اعظم کس طریقے سے پیسے اور جائیدادیں بنانے میں لگے رہے تو سیاسی شہادت کا لبادہ اوڑھنا مشکل ہو جاتا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو تو موت کی کال کوٹھری میں بھی ہمت دکھا سکتے تھے‘ لیکن اُن پہ مالی بد عنوانی کا الزام نہ تھا۔ یہ لوگ کسی کو کیا منہ دکھائیں گے؟ یہ تو ایسا ہی قصّہ ہوا جو کہ ملائیشیا کے سابق وزیر اعظم نجیب رزاق کے ساتھ ہوا۔ وہ مالی بدعنوانی کے الزام میں گرفتار ہوئے ہیں۔ ملک میں بدنام ہو کے رہ گئے ہیں۔ نواز شریف اور اُن کی دختر کیلئے بھی مشکل ہے کہ کرپشن کی بنا پہ اپنے لئے ہمدردی پیدا کر سکیں۔
نون لیگ پر پہلے ہی بُرے دن آ چکے تھے۔ اَب اِس سزا کے فیصلے سے اُس کے لیڈر اور ورکر مزید بد دل ہوں گے۔ الیکشن مہم پہلے ہی پھیکی پڑی ہوئی تھی۔ نون لیگ کیلئے مزید بدمزہ ہو کے رہ جائے گی۔ شہباز شریف کے بس کی بات نہیں کہ مہم میں خاطر خواہ جان ڈال سکیں۔ نواز شریف کے دَست راست بیوروکریٹ فواد حسن فواد کی نیب کے ہاتھوں گرفتاری نون لیگ اور شریف فیملی کیلئے نیک خبر نہ تھی۔ اَب ایون فیلڈ اپارٹمنٹس کا فیصلہ بجلی کی مانند گرا ہے ۔ اِس سے نون لیگ کا عام ورکر یہی پیغام لے گا کہ پارٹی اور اُس کی قیادت مصیبتوں میں پھنستی جا رہی ہے۔
پاکستانی تاریخ کا ایک باب ختم ہوا چاہتا ہے ۔ کہاں جنرل ضیاء الحق کی سرپرستی‘ جب نواز شریف کو بطور نیا کھلاڑی سیاسی میدان میں اُتارا گیا اور کہاں اَب کا زمانہ۔ اقتدار کے سہارے خاندان ترقی کرتا گیا۔ نواز شریف سیاست کی سیڑھیاں چڑھے اور خاندان کے دیگر افراد فیکٹریوں کی لمبی قطار بنانے میں مصروف ہو گئے۔ دیکھتے ہی دیکھتے خاندان سیاسی اور معاشی چوٹیوں پہ جا پہنچا۔ 
پاکستانی سیاست دو کرپٹ پارٹیوںکے نرغے میں تھی۔ ایک طرف پیپلز پارٹی ، دوسری طر ف نون لیگ ۔ مالی کارناموں میں آصف علی زرداری نے کوئی کسر نہ چھوڑی اور دوسری طرف شریف خاندان بھی مال بنانے میں سب سے آگے نکل گیا۔ پیپلز پارٹی نے عروج دیکھا اور پھر اُس کا زوال شروع ہو گیا۔ جنرل ضیاء الحق پیپلز پارٹی کو تباہ نہ کر سکے۔ یہ کام جناب آصف علی زرداری نے سرانجام دیا۔ پیپلز پارٹی حکومت کی کارکردگی ایسے تھی کہ اُس کا اصلی چہرہ پاکستانی عوام کے سامنے بے نقاب ہو گیا۔ یہی پراسیس اَب نون لیگ کے ساتھ ہو رہا ہے۔ 
پانامہ پیپرز کا راز افشا نہ ہوا تھا تو ملک کے طول و عرض میں ایسے لوگوں کی کمی نہ تھی جو اعتماد سے کہتے تھے کہ مستقبل نون لیگ کا ہے اور اگلی حکومت بھی اُسی کی ہو گی ۔ جب پانامہ پیپرز سامنے آئے تو پھر بھی نون لیگیوں نے اُسے ہلکے پُھلکے انداز میں لیا اور مسئلے کی ممکنہ سنجیدگی کو سمجھ نہ سکے ۔ صرف صدر ممنون حسین تھے جنہوں نے بہت پہلے خبردار کر دیا تھا کہ یہ آفت آسمان سے گری ہے اور اِس میں بڑے بڑے ہاتھ پکڑے جا سکتے ہیں ۔ لیکن نواز شریف معاملے کی تہہ تک نہ پہنچ سکے اور قومی اسمبلی میں کھڑے ہو کے اوٹ پٹانگ سی ایک تقریر کر ڈالی کہ ایسے ہمارے والد کا دوبئی میں کاروبار تھا اور اُس کاروبار کے منافع سے لندن کے فلیٹ خریدے گئے۔ جب وہ بول رہے تھے تو ساتھ بیٹھے اسحاق ڈار کا چہرہ اپنی الگ کہانی بیان کر رہا تھا ۔ چہرے پہ گہرے بادل چھائے ہوئے تھے اور گھبرائی ہوئی آنکھوں سے آنے والے خطرات کا اشارہ مل رہا تھا۔ 
مزے کی بات یہ کہ خاندان کے ہر فرد نے ایک مختلف کہانی بیان کی۔ حسین نے کچھ کہا، حسن نے کچھ اور، مریم نواز تو سب پہ سبقت لے گئیں جب اُنہوں نے ثنا بُچہ سے اُس تاریخی انٹرویو میں کہا کہ باہر کی جائیدادیں تو دور کی بات میری تو پاکستان میں کوئی جائیداد نہیں۔ 
نواز شریف نے اس مشورے پہ کان نہ دَھرے کہ اس معاملے کو قومی اسمبلی میں لایا جائے اور وہیں نمٹا دیا جائے۔ وہ ٹال مٹول سے کام لیتے گئے اور وقت اُن کے ہاتھ سے نکل گیا۔ عمران خان اور شیخ رشید احمد نے سپریم کورٹ میں پٹیشنیں دائر کر رکھی تھیں ۔ بالآخر جب پانامہ پیپرز کی بازگشت پورے ملک میں پھیلی تو سپریم کورٹ نے معاملے کو اُٹھا لیا۔ باقاعدہ سماعت شروع ہونے لگی ۔ پھر جب پانچ رُکنی سپیشل بینچ بنا تو نواز شریف نے تین بار وکلا کو تبدیل کیا ۔ ثبوت میں کچھ نہ لا سکے ۔ لندن میں پیسہ کہاں سے آیا، کیسے آیا، اِس کے بارے میں کچھ نہ بتا سکے۔ پھر سونے پہ سہاگہ کہ کسی قطر کے شہزادے کے خط پیش کئے گئے، جس میں ایسی کہانی درج تھی جو کہ افسانوں میں بھی نہ لکھی جا سکے ۔ سپریم کورٹ کے بینچ نے قطری خطوط پہ دھیان نہ دیا اور کہانی ایسی مضحکہ خیز تھی کہ پوری قوم کی ہنسی چھوٹ گئی۔ 
نواز شریف نااہل ٹھہرے اور وزارت عظمٰی سے ہاتھ دھونا پڑا۔ پھر جے آئی ٹی بنی اور اُس میں بھی کوئی ثبوت پیش نہ کیے جا سکے۔ دو دفعہ احتساب عدالت کو سپریم کورٹ سے مزید وقت کی مہلت مانگنی پڑی۔ آخرکار فیصلہ آ گیا اور نواز شریف کی نااہلی پہ ایک اور مہر ثبت ہوگئی۔ اَب فیصلہ نوازشریف کا ہے کہ وطن واپس آتے ہیں یا لندن قیام میں عافیت سمجھتے ہیں۔ اُن کے حواری کہہ رہے ہیں کہ وہ وطن ضرور آئیں گے۔ دیکھتے ہیں اِس باب میں کیا ہوتا ہے۔ 
کرپشن کا الزام لیے پھرنا باعثِ عزت نہیں۔ لندن میں رہیں بھی تو کس منہ سے۔ فلیٹوں کی ضبطگی کا حکم بھی آ گیا ہے۔ ظاہر ہے یہ ایک طویل کارروائی ہے۔ لیکن جب شروع ہوگئی اور برطانوی میڈیا میں یہ خبریں آنے لگیں کہ پاکستان کے سابق وزیر اعظم کی جائیداد قانونی گرفت میں ہے تو لندن کے لوگ اور حکام اُنہیں کس نظر سے دیکھیں گے؟ جنرل مشرف کے زمانے میں جب نواز شریف لندن میں مقیم تھے تو آکسفورڈ سٹریٹ کے قہوہ خانوں میں جایا کرتے اور سکون سے کافی پیتے تھے۔ ہیرڈز (Harrods) میں شاپنگ سے لطف اندوز ہوتے۔ اَب یہ حال ہے کہ لندن میں باڈی گارڈوں کے بغیر کھلے پھر نہیں سکتے۔ کہیں کافی پینے جائیں تو دھڑکا لگا رہے گا کہ پاکستانیوں نے دیکھ لیا تو فوٹو لیں گے اور آوازیں کَسیں گے۔ عزت پاکستان نے دی لیکن اُس سے مطمئن نہ ہوئے اور ہوسِ دولت نے آخر کار اس نہج پہ پہنچا دیا۔ شوق ہے تو پاکستان آئیں۔ سزا اورعدالتوں کا سامنا کریں۔ ہمت اِسی میں ہے لیکن کرپشن کے الزامات کا بوجھ اُٹھانا آسان کام نہیں۔ 
بہرحال جو بھی ہو نون لیگ کے عروج کے دن ختم ہوئے۔ مشرف کے ہاتھوں اقتدار سے معزولی کے بعد قسمت ایک بار پھر جاگی تھی اور اقتدار میں دوبارہ آگئے۔ لیکن اَب جو کہانی چل رہی ہے اورنوعیت کی ہے۔ اِس میں اقتدار کی واپسی ممکن نہیںلگتی۔ جیسے پیپلزپارٹی پھر کبھی اسلام آباد میں راج نہیں کرسکتی نون لیگ کے پاکستان پہ راج کے دن بھی گئے۔ پارٹی رہے یا نہ رہے، الگ بات ہے۔ قاف لیگ بھی تو آخر کسی شکل میں جی رہی ہے۔ شریف بھی نعرے لگاتے رہیں گے‘ لیکن یہ بات ذہن نشین رہے کہ فوج کا شریفوں سے کسی قسم کے این آر او کا قطعاً کوئی موڈ نہیں۔ عسکری اداروں میں شریفوں کے خلاف نفرت کے جذبات پائے جاتے ہیں۔ 
یہ خطرہ کچھ دِن رہا کہ نون لیگ پھر سے انتخابات میں ایک بڑی پارٹی کے طورپہ سامنے نہ آ جائے۔ اَب صورتحال تبدیل ہوچکی ہے۔ سیٹیں تو لے جائے گی لیکن فیصلہ کن حیثیت حاصل کرنا ناممکن ہوگیا ہے۔ آگے ملکی سیاست کس سمت جاتی ہے یا کون وزیر اعظم بنتا ہے یہ آنے والے دنوں کی باتیں ہیں۔ فی الحال تو یہ حقیقت ہے کہ ایک طویل باب ختم ہوا اور نیا کھیل شروع ہونے والاہے۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں