آصف زرداری اور اُن کی ہمشیرہ فریال تالپور کے خلاف منی لانڈرنگ کے حوالے سے کارروائی اتنی ہی اہم ہے جتنی کہ پانامہ پیپرز سے اُٹھنے والے طوفان کی ۔ کس کو سمجھ تھی کہ پانامہ پیپرز کی لپیٹ میں نواز شریف اِس طریقے سے آ جائیں گے؟ منی لانڈرنگ کے حوالے سے کارروائی اَبھی اپنے ابتدائی مراحل میں ہے‘ لیکن اس میں نام دیکھئے کتنے بڑے بڑے مگرمچھوں کے ہیں ۔ جب اس مسئلے پہ تشکیل کردہ جے آئی ٹی کارروائی شروع کرے گی تو پتہ نہیں یہ سلسلہ کہاں جا کے تھمے۔
ہمارے ہاں اور خاص کر ہمارے میڈیا میں کرپشن کے ضمن میں انتہائی سطحی قسم کی گفتگو ہوتی ہے ۔ مختلف عوامل کی بناء پہ بڑے بڑے نام ہم نہیں لیتے اور اُن کا ذکر گول کر جاتے ہیں ۔ کرپشن کے بڑے ڈراموں کی نہ تو اُس لحاظ سے خبر آتی ہے جس طرح آنی چاہیے نہ اُس پہ خاطر خواہ بحث ہوتی ہے ۔ ہمارے ہاتھ رُکے رہتے ہیں ۔ ہم اپنے خود ساختہ تحفظات کا شکار رہتے ہیں ۔ لیکن یہ منی لانڈرنگ والی کہانی‘ جو پہلے ایک ہلکی سی تفتیش سے شروع ہوئی اور اَب اُس میں جناب چیف جسٹس کی وجہ سے کچھ جان آئی ہے، میں چونکا دینے والے نام ہیں ۔ بے نامی اکاؤنٹس کا جعلی دستخطوں پہ بینکوں میں کھلنا اور اِن میں بھاری رقوم کی ترسیل اور پھر اُن رقوم کی اور کھاتوں میں منتقلی سے کچھ کچھ جھلک ملتی ہے کہ پاکستان میں کرپشن کا جال کتنا وسیع اور پھیلا ہوا ہے ۔ میڈیا میں جب ہم بیٹھے ہوتے ہیں تو بس سامنے دکھائی دینے والی چند ایک چیزوں کا تذکرہ کرتے ہیں ۔ یہاں ماحول ہی ایسا ہے کہ ہم گہرائی میں نہیں جاتے ۔ جیسے پہلے عرض کیا‘ اُنگلیاں اور زبانیں ہماری تحفظات کا شکار رہتی ہیں۔
منی لانڈرنگ کہانی میں ایک شخص انور مجید کا نام کثرت سے آیا ہے ۔ کتنے پاکستانی ہوں گے جو اِن کے بارے میں صحیح معلومات رکھتے ہوں گے اور یہ جانتے ہوں کہ یہ شخص کون ہے اور اِس کی اہمیت کیا ہے ۔ کراچی کے ڈرائنگ روموں میں یہ چرچا عام ہے کہ جناب آصف زرداری کے دست راست ہیں اور زرداری صاحب کی سندھ میں شوگر ملوں کی جو ایک باقاعدہ ریاست ہے، اُس کے چلانے میں اِن کا اہم کردار ہے۔
لیکن ملاحظہ ہو کہ یہ منی لانڈرنگ کا سلسلہ آج یا کل کا نہیں تھا ۔ یہ کچھ عرصے سے چل رہا تھا اور اِس کے پیچھے بھی کتنی کہانیاں ہوں گی۔ لیکن قانون کی کسی گرفت میں ایسی کارروائی کبھی نہ آئی ۔ کھاتوں میں پیسے بڑی بڑی پارٹیاں ڈال رہی تھیں اور آگے سے وہ پیسہ کہیں اور جا رہا تھا اور کسی کو ایسی کارروائیوں کی خبر نہ تھی ۔ یہ تو ملک میں موسم بدلا اور جناب چیف جسٹس صاحب نے مختلف شعبوں میں دلچسپی لی، کہ ایسی چیزیں‘ جن کے ارد گرد بھاری پردے لگے ہوئے ہیں، بے نقاب ہو رہی ہیں ۔ چیف جسٹس صاحب کی دلچسپی نہ ہوتی تو پنجاب میں پنجاب حکومت کے زیر سرپرستی نجی کمپنیوں کا سکینڈل منظر عام پہ کیسے آتا؟ اعلیٰ عدلیہ دلچسپی نہ لیتی تو منی لانڈرنگ کی یہ وارداتیں‘ جن کا ذکر ہوا ہے‘ کبھی قانون کی کسی گرفت میں نہ آتیں۔
شاید یہ پہلی بار ہوا ہے کراچی میں ایک ہاؤسنگ اتھارٹی کے خلاف اعلیٰ عدلیہ نے حکم صادر کیا ہے اور اُسے اس بات پہ متنبہ کیا ہے کہ اس کا گندا پانی سمندر میں وسیع پیمانے پہ گندگی کا باعث نہ بنے۔ اور یہ بھی پہلی بار ہوا ہے کہ پراپرٹی کے بڑے ناموں کے خلاف اعلیٰ عدلیہ کے حکم آئے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ اُن ناموں کے ذکر سے ہم عموماً ہچکچاتے ہیں ۔ اعلیٰ عدلیہ میں اَب ایسا احساس آیا ہے کہ اسلام آباد میں قومی سلامتی کے ایک ادارے کو بھی کہا گیا ہے کہ آٹھ ہفتوں میں اُس کے ہیڈ کوارٹر کے سامنے سے رکاوٹیں ہٹائی جائیں ۔ گزر ے ہوئے موسموں میں ایسی عدالتی کارروائیاں ممکن نہ ہوتیں۔
تو نواز شریف پھر کس چیز کا رونا رو رہے ہیں؟ اُن اکیلے کے خلاف تو کارروائی نہیں ہو رہی ۔ سالہا سال تک اُنہیں کوئی پوچھنے والا نہیں تھا ۔ وہ بھی وہی کچھ کرتے رہے جو کراچی میں زرداری اینڈ کمپنی کے حوالے سے ہوتا رہا‘ لیکن نہ پنجاب‘ نہ سندھ میں کوئی پوچھ تھی۔ ڈاکے تو پہلے بھی پڑتے رہے‘ لیکن ڈاکوں کا سلسلہ‘ جو جمہوریت کی چھتری تلے دیکھنے کو ملا، اُس کی نظیر پہلے نہیں ملتی۔ جنرل ایوب خان کے بیٹے کیپٹن گوہر ایوب نے اپنے سسر جنرل حبیب اللہ خان کے ساتھ گندھارا انڈسٹری کیا لگائی، پورے ملک میں شور مچ گیا۔ جنرل یحییٰ تو اور کاموں میں پڑے رہتے تھے اور اُن میں ایسے مگن رہتے کہ پیسے بنانے کی لت میں وہ کبھی نہ پڑے۔ بھٹو صاحب کے زمانے میں بھی ایسے سکینڈلز کبھی سامنے نہ آئے جو آج کل سُننے کو ملتے ہیں ۔ یہ تو جنرل ضیاء الحق کی تیار کردہ جمہوریت کے کھیت اور باغات کا ثمر ہے کہ ایک طرف شریف خاندان کے کارناموں کی گنجائش بنی اور دوسری طرف زرداری صاحب نے اِس میدان میں گل کھلائے۔
کمال دیکھئے کہ کوئی پوچھنے والا نہیں تھا۔ احتساب کا عمل تیار کیا گیا تو بنانے والوں کے ہاتھوں ہی مذاق بن کے رہ گیا۔ اَب نیا قانون کوئی نہیں آیا ۔ وہی نیب کا پرانا ادارہ اور وہی نیب کا پرانا قانون ہے۔ لیکن موسم بدلا اور چیئرمین نیب مشہورِ زمانہ قمر زمان چوہدری کی جگہ جسٹس (ر) جاوید اقبال آئے اور سب کچھ بدل کے رہ گیا۔ وہی پرانا نیب‘ جو بڑوں کے ہاتھوں میں کھلونا بن چکا تھا‘ ایک نیا روپ لے کے آیا ہے‘ اور اِس کے نام سے کرپٹ عناصر کانپ رہے ہیں۔
اعلیٰ عدلیہ بھی وہی ہے اور مروجہ قوانین کے تحت اپنا کام سرانجام دے رہی ہے‘ لیکن عدلیہ کے سربراہ اور آئے ہیں‘ اور اعلیٰ عدلیہ کی کارکردگی میں نئی جان آ گئی ہے ۔ یہی نون لیگ تھی جو ایک زمانے میں اعلیٰ عدلیہ پہ حملہ کرنے کی جرأت رکھتی تھی ۔ اب وہی نون لیگ بھیگی بلی کی طرح عدلیہ کے سامنے بے بس اور لاچار نظر آتی ہے ۔ نواز شریف اور مریم نواز بے شک دلیری دکھائیں ۔ یہ اُن کا حق ہے ۔ لیکن یہ حقیقت جھٹلائی نہیں جا سکتی کہ کرپشن کے ریفرنس میں اُنہیں سزا مل چکی ہے اور وہ مجرم ٹھہرے ہیں ۔ یہ وکیلوں اور فالتو دانشوروں کی باتیں ہیں کہ جناب محمد بشیر کا فیصلہ کمزور تھا یا اُس میں گرائمر کی فلاں غلطیاں تھیں۔ اہم بات یہ ہے کہ فیصلہ اُن کی عدالت سے آ گیا اور وہ شخص جو تین بار ملک کا وزیر اعظم رہا، قصور وار ٹھہرایا گیا ہے۔ باقی کیپٹن صفدر کیسے گرفتاری دیتے ہیں یا کون کیا بڑھک مارتا ہے، ثانوی چیزیں ہیں۔ ایسی حرکتوں سے ایک یا دو شاموں کی ہیڈ لائن بن سکتی ہے ۔ اِس سے زیادہ کچھ نہیں۔ اہمیت کی حامل یہ بات ہے کہ ضیاء الحق آمریت کے بطن سے پھوٹنے والی جمہوریت اپنی آخری دَموں پہ ہے ۔ زرداری کی سیاست پہلے ہی کم ہو چکی تھی۔ اَب نواز شریف کی سیاست گھاٹے کی طرف جا رہی ہے ۔ صر ف یہی نہیں بلکہ دونوں اطراف سے پیسے کی مار دھاڑ بھی خطرے میں پڑ چکی ہے۔
کوئی سمجھے کہ نواز شریف اور مریم نواز کی آمد پہ کوئی بڑا زلزلہ لاہور میں آ سکتا ہے، تو وہ غلطی پہ ہو گا۔ ریاست کو ایسی صورتحال ہینڈل کرنے میں کوئی زیادہ مشکل در پیش نہیں ہو گی۔ اُدھر اچھا ہوا کہ آصف زرداری اور فریال تالپور کے نام ای سی ایل میں ڈال دئیے گئے، نہیں تو خدشہ رہتا کہ حالات کو بھانپتے ہوئے فرار ہو جاتے۔ منی لانڈرنگ پہ بنائی گئی جے آئی ٹی معاملے کی تہہ تک گئی تو بہت کچھ سامنے آ جائے گا۔ جیسا کہ پنجاب کا سیاسی نقشہ بدل رہا ہے، یہی عمل سندھ میں بھی جا پہنچے گا۔
سوال صرف ایک ہے کہ کیا احتساب کا یہ عمل‘ جس کا دائرہ وسیع ہو رہا ہے، انتخابات کے بعد بھی برقرار رہے گا‘ یا سیاسی مصلحتوں کے تحت دَم توڑ جائے گا۔