ایک اُستادی ہو تو اُس کا ذِکر کیا جائے ۔ لیکن شریفوں کے سُنہری دور میں جس کونے میں جھانکیں وہیں اُستادی نکلے ۔ میٹرو بس اور اورنج لائن ٹرینیں سامنے کی باتیں ہیں ۔ پنجاب کو کنگال کرنے کے لئے یہ دو منصوبے ہی کافی تھے ۔ 56 کمپنیوں کا سکینڈل ایسا ہے کہ الف لیلیٰ کی داستان میں بھی درج ہو تو اُس پہ یقین نہ آئے ۔
لیکن اُستادی مانیے کہ سابقہ خادموں نے لاہور کے کچرے اور کوڑے سے بھی سونا پیدا کیا۔ حسن رضا کی تفصیلی رپورٹ اِسی اخبار میں پڑھ لیجیے ۔ آدمی دنگ رہ جاتا ہے کہ کیسے ہاتھ کی صفائی دکھائی گئی ۔ جو شہر کا گند دو ارب روپے سالانہ میں اکٹھا کیا جاتا تھا‘ خادموں نے ترکی کمپنیوں کو ملوث کر کے یہ تخمینہ چودہ ارب روپے سالانہ پہ پہنچا دیا ۔ کچرا اورکوڑا یومیہ ساڑھے پانچ ہزار ٹن اکٹھا کیا جاتا لیکن غیر ملکی کمپنی‘ جس کو صفائی کا ٹھیکہ ملا‘ کا کمال دیکھیے کہ کاغذوں میں ساڑھے پانچ ہزار ٹن کو ساڑھے سات ہزار ٹن تک بنا دیا ۔ گھوسٹ (ghost) سکولوں اور گھوسٹ ملازمین کا تو سنا تھا۔ خادموں کو اعزاز جاتا ہے کہ اُنہوں نے گھوسٹ کچرا بھی پیدا کر دیا۔
پاکستان میں دو ممالک کبھی تنقید کا نشانہ نہ بنتے تھے ، ترکی اورچین ۔ یہ شریفوں کا کارنامہ ہے کہ اِنہوں نے عوامی حلقوں میں اِن دو ممالک کو مختلف حوالوں سے متنازعہ بنا دیا ۔ 2013ء میں جب دوبارہ اقتدار میں آئے تو اِن کے ترکی اور چین کے دورے تھمنے کو نہ آتے تھے ۔ جب سُنا یا دیکھا تو پروازِ ترکی یا عازمِ چین ہوتے ۔ راولپنڈی میں صفائی کا ٹھیکہ ایک ترکی کمپنی کو دے دیا اور وہ پراجیکٹ بھی کسی حسن رضا کا منتظر ہے کہ اُس کی نزاکتوں سے پردہ اُٹھے ۔ لاہور کی صفائی کا ٹھیکہ بھی ایک ترکی کمپنی کو دے دیا‘ جس کے بارے میں شکوک و شبہات تو پہلے دِن سے تھے‘ لیکن شواہد کے ساتھ انکشافات اَب منظر عام پہ لائے گئے ہیں۔
کوئی شعبہ تو ہوتا کہ اِ ن کی اُستادیوں سے بچ جاتا‘ لیکن جیسا دیکھا جا رہا ہے‘ اِنہوں نے لاہور کے کوڑے اور کچرے کو بھی نہیں بخشا ۔ فہرستِ افسران دیکھی جائے تو حیرانی اور بڑھ جاتی ہے ۔ کسی کو بارہ ، کسی کو چودہ لاکھ مہینے پہ بطور کنسلٹنٹ رکھا اور بیگمات بھی اِس نوازشات کی بارش سے مستفید ہوئیں۔ 56 کمپنیوں کا سکینڈل تو ایک طرف ، یہ کوڑا سکینڈل اِس بات کا حق دار ہے کہ اِس کا ایک تگڑا سا سوئوموٹو (suo moto) نوٹس لیا جائے۔ خادم صاحب نیب کی حراست میں ہیں اور وہی پرانا راگ الاپ رہے ہیں کہ میں نے قوم کے پیسے بچائے ۔ کبھی کوڑا سکینڈل کی بھی پوچھ گچھ ہوئی تو یہی کہیں گے کہ میں نے تو لاہور کا پیسہ بچایا۔
نظام اِن سے کسی بھی پہلو سے سدھارا نہ گیا ۔ کسی ایک شعبے کی اصلاح نہ کر سکے ۔ پولیس کرپٹ تھی تو اِن کے طویل دورانیۂ اقتدار میں اور کرپٹ ہوئی ۔ محکمہ مال کا بھی یہی حال ہے ۔ تعلیم کی اصلاح نہ ہو سکی ، ہسپتالوں کی حالت اور اَبتر ہوئی ۔ لیکن ٹانکا لگانا کوئی اِن سے سیکھے۔ ایسے ایسے کرتب دکھائے گئے کہ پنجاب کا ایک پورا حکومتی نظام ہوتے ہوئے اِنہوں نے ایک متوازی سٹرکچر قائم کر دیا۔ 56 کمپنیاں اِسی زمرے میں آتی ہیں ۔ انگریزوں کے زمانے سے لے کر اَب تک شہروں کی صفائی کی ذمہ داری میونسپل کمیٹیوں اور کارپوریشنوں کی ہوتی تھی ۔ اُس نظام کو ایک طرف رکھ کر صوبے کے پہلے اور دوسرے بڑے شہر کے صفائی کی ذمہ داری غیر ملکی کمپنیوں کو دے دی۔ ظاہر ہے یہ کمپنیاں منافع کمانے آئی تھیں۔ اُنہیں راولپنڈی اور لاہور کے ساتھ کوئی ہمدردی نہ تھی ۔ تو اُنہوں نے وہی کیا جو اُن کا مقصد تھا اور ٹیکہ لگا پنجاب کے خزانے کو ۔ کہاں دو ارب سالانہ اورکہاں چودہ ارب ۔ یہ لاہور کا معاملہ ہے ۔ راولپنڈی کی تفصیلات آئیں گی تو یقینا وہ بھی چونکا دینے والی ہوں گی۔
لیکن اشتہاری مہم ایسی کہ گمان گزرتا کہ لاہور پیرس ، لندن اور نیو یارک سے آگے جا چکا ہے ۔ لاہور کے مال پہ تصویریں آویزاں ہوتیں، اوپر ہیٹ پہنے قائد اعظم اور نیچے ہیٹ پہنے خادمِ اعلیٰ۔ یعنی اپنے آپ کو جا ملایا بھی تو کس سے ۔ میڈیا کے ڈھنڈورچیوں کی کوئی کمی نہ تھی جو آئے روز لکھتے کہ شیر شاہ سوری اور شاہجہان کے بعد یہ حکمران آئے ہیں ۔ پاکستانی عوام کی آنکھوں میں دُھول ڈالنا کوئی نئی بات نہیں ۔ یہ نیک کام مختلف حکمران کرتے آئے ہیں ۔ لیکن جس مہارت سے شریفوں اور خادموں نے یہ کام سرانجام دیا اِس کی مثال کم از کم پاکستانی تاریخ میں نہیں ملتی ۔ دلیری کا بھی ملاحظہ ہو ۔ سب کچھ کا صفایا کر کے اَب بھی کمال ہمت سے کہتے ہیں: ہم نے قوم کا پیسہ بچایا ۔
عثمان بزدار پہ صحیح تنقید ہوتی ہے ۔ وہ شریفوں کی ہوشیاری کا با آسانی کیسے مقابلہ کر سکتے ہیں؟ مقابلہ تو تب ہو کہ لاہور کی مال عثمان بزدار کے اشتہاروں سے بھر جائے اور ایک پوری کھیپ میڈیا والوں کی ہو جن کو ایسے خوش رکھا جائے کہ ہر روز وہ بزدار بزدار ہی پکارتے رہیں ۔ ایسی ہوشیاری نہ پی ٹی آئی نہ عثمان بزدارکے پاس ہے ۔ جو ڈرامے بازی ہم دیکھ چکے ہیں عثمان بزدار وہاں کہاں پہنچ سکتے ہیں ؟ 56 کمپنیوں میں خادموں نے پنجاب کے سب ہونہار بابوؤں کو کھپایا۔ جو چہیتے تھے اُن کی چاندی ہو گئی ۔ جیسے کچرے کے حوالے سے عرض کیا کئی عدد بیگمات بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھوتی رہیں ۔ مجھے ایک ایسی ہونہار بیگم صاحبہ سے ایک کھانے پہ پالا پڑا۔ اِن 56 کمپنیوں میں سے ایک کمپنی میں اُن کے شوہر صاحب تعینات تھے‘ اور تنخواہ تقریباً سولہ لاکھ تھی ۔ بیگم صاحبہ ایک اور کمپنی سے آٹھ نو لاکھ روپے لے رہی تھیں۔ چونکہ وہ نوکری جا چکی تھی‘ اس لئے اُن کا رونا تھا کہ اُن کو پھر سے کہیں فٹ کیا جائے ۔ اُنہوں نے کہا نہیں لیکن باتوں سے صاف ظاہر ہو رہا تھا کہ وہ اَب کسی پی ٹی آئی کی سفارش کی تلاش میں ہیں ۔ میں اُن کی مدد نہ کر سکتا تھا لیکن اِس پوزیشن میں ہوتا تو ضرور کرتا۔
لیکن احتساب کچھوے کی رفتار سے چل رہا ہے ۔ عمران خان ٹھیک کہتے ہیں کہ وہ احتساب نظام کے سربراہ ہوتے تو اَب تک کم از کم پچاس بڑے مرغے سلاخوں کے اُس پار ہوتے ۔ شریفوں اور خادموں کی کارستانیاں بہت تھیں‘ لیکن چونکہ اِس شعبے میں وہ ماسٹر تھے‘ اس لئے سراغ لگانا کوئی آسان کام نہیں ۔ نواز شریف کے خلاف لندن فلیٹوں کے ریفرنس میں ایک استغاثہ کے گواہ نے صاف صاف کہا کہ اُنہیں کوئی شواہد نہیں ملے کہ نواز شریف نے بیٹوں کو باہر پیسہ بھیجا ہو ۔ اِس پہ نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے فاتحانہ مسکراہٹ ضرور دی ہو گی‘ لیکن سوچنے کا مقام ہے کہ یہ شریف اور خادم اتنے سادہ اور بھولے ہیں کہ شواہد بکھیرتے پھریں ؟ یہی تو اِن کا کمال تھا کہ جائیدادیں وہاں اکٹھی کیں اور کوئی منی ٹریل آسانی سے نظر نہیں آ رہی ۔ اِن کی مانی جائے تو لندن فلیٹ اپنے آپ ہی کہیں سے نمودار ہوئے اور اُن کیلئے رقم لندن کی کسی اندھیری اور پراسرار رات کو آسمانوں سے گری۔
اسحاق ڈار بھی ٹھیک کہہ رہے ہیں کہ اُن کے لندن میں کوئی فلیٹ نہیں ۔ اُسی سانس میں یہ بھی کہہ دیتے کہ دبئی میں کوئی ٹاور اورکاروبار نہیں ۔ دُخترِ جمہوریت نے بھی صحیح کہا کہ باہر کیا ، میری تو کوئی جائیداد پاکستان میں بھی نہیں ۔ معصوم اور بھی ہوں گے لیکن اِن کی زبانی اِن سے بڑا معصوم کوئی نہیں ۔
لیکن اِن سب داستانوں میں انعام لاہور کے کچرے کے حوالے سے جاتا ہے ۔ شوگر ملیں تو تھیں۔ پولٹری اور انڈوں کے بادشاہ بھی بن گئے ۔ سمندر پار بھی ایک ایمپائر تھی‘ لیکن لاہور کے کچرے سے اتنا سونا چاندی نکالنا‘ یہ ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔