لطیفے تو اِس حکومت سے سرزرد ہورہے ہیں۔ روزانہ کی بنیاد پہ کوئی نیا شوشہ جو مذاق کا باعث بنتاہے۔ کم ازکم بوریت طاری نہیں ہوتی ۔ یہ تو وزیراعظم ہیں جن کی بات چل گئی ورنہ ہم جیسا گاؤں کے کسی مجمعے کے سامنے تلقین کرے کہ مرغیاں پالو اوردیگر مویشی رکھو تو نام ہی ککڑیوں والا پڑ جائے۔ عقل دلانے والا اردگرد کوئی نہیں ؟
واحد خوشخبری تو وہ ہے جو مخصوص مولویوں کے حوالے سے ہے ۔ یہ تو عیاں ہے کہ آپے سے باہر ہوگئے تھے لیکن جب سے مناسب علاج ہوا ایسا سناٹا چھا گیاہے کہ حیرت کی انتہا نہیں رہی۔ علا ج سے پہلے اِنہیں کوئی دیکھتا تو کہیں رُک ہی نہیں رہے تھے۔ میرے چکوال کے گھر کے پڑوس میں مولویوں کا خاصا جمگھٹا رہتاہے ۔ اِن میں سے ایک‘ جو اپنے آپ کو نوجوان سمجھتاہے‘ ایسے نعرے لگا رہاتھا کہ خدا کی پناہ۔ لیکن اب ڈھونڈنے سے کہیں نظر نہیں آتا۔ جس کا مطلب یہ ہے اِس بے سمت ریاست میں ایسی بیماریوں کا وافر علاج تو موجود ہے لیکن ہمارے حکیم ایسے ہیں کہ بس دیر کردیتے ہیں۔ پہلے دانشور بن کر بیماری کو خود ہی ہوا دیتے ہیں ۔جب بیماری سرچڑھ جائے تو پھر علاج ڈھونڈتے پھرتے ہیں۔ بہرحال اِس بار تو یہی کہاجائے گا دیر آید دُرست آید۔
حکیموں کو بھی اندازہ ہوگیاتھا کہ علاج کا وقت آن پہنچا ہے کیونکہ یہ مخصوص مولوی حکیموں کو بھی پڑ گئے تھے۔ بس ایک مولانا صاحب رہ گئے ہیں جو ہر چھوٹی بڑی عید کے موقع پر قوم کو محظوظ کرنے کا سامان پیدا کرتے ہیں ۔ ٹیلی سکوپوں سے سائنسدانوں نے نئے نئے جہاں دریافت کر لئے ہیںلیکن بیشتر عیدوں پہ شام گزرنے تک ہمارے ٹیلی سکوپ چاند کو نہیں دیکھ پاتے ۔ پھر جووہ منظر کھنچتا ہے کہ کسی اُونچی عمارت پہ ٹیلی سکوپ لگائے آسمانوں کو دیکھا جارہاہے تو سنجیدہ مزاج رکھنے والوں کی بھی ہنسی چھوٹ جاتی ہے ۔ اِن مولانا صاحب نے پریس کانفرنس کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ علامہ رضوی اور پیر افضل قادری سے رعایت برتی جائے۔ بہت صائب مشورہ ہے اوراِس پہ عمل ہونا چاہیے لیکن اِس شرط کے ساتھ کہ پھر ہر بغاوت پہ اُکسانے والے کے ساتھ ایسے ہی نرمی دکھائی جائے ۔ یعنی جو تلقین کرے کہ مار دو ،قتل کردو،اُس کی طرف نرم سے نرم ہاتھ بڑھایاجائے۔ایسی زبان تومُکتی با ہنی نے نہیں اپنائی تھی اورنہ بلوچ لبریشن آرمی والوں نے۔ لیکن مولانا موصوف کہتے ہیںکہ اِ ن دو حضرات کو رعایت دی جائے۔ اِس صائب مشورے کی روشنی میں بھارتی جاسوس اورفساد گر کلبھوشن یادیو کو بھی چھوڑ دینا چاہیے۔ اِس جاسوس نے کچھ کیا ہوگا ، بغاوت کی دعوت تو نہیں دی۔ کیا وہ اپنے پورے حواس میں تھے جب اُنہوں نے ایسا مطالبہ کیا ؟
کسی چیز کی حد بھی ہوتی ہے اوراِن مخصوص مولویوں نے تمام حدیں پھلانگ لی تھیں۔ مولانا صاحب کو پیر افضل قادری کا وہ ویڈیو پیغام پھر سے ُسننا اوردیکھنا چاہیے جس میں دعوت ِ قتل و بغاوت دی جارہی ہے۔ پھر اگر مناسب سمجھیں تو دوبارہ پریس کانفرنس کر لیں اور رعایت کا مطالبہ دہرا دیں۔ ایک انگریزی اخبار کو بھی داد دینی چاہیے ۔ کسی اور بڑے اخبار نے مولانا موصوف کی پریس کانفرنس کی اِتنی نمایاں کوریج نہ کی ۔ اس اخبار نے تین کالمی خبر لگائی مولانا کی پُرشکو ہ تصویر کے ساتھ ۔ اِتنا ہاتھ کھینچ کے کیوں رکھا؟ پانچ کالمی خبر لگاتے ۔مولانا کی تشہیر ہونی تھی تو مناسب ہوتی ۔
اس سارے ماجرے سے ہمارے اصل حکیموں کو کچھ سبق سیکھنا چاہیے ۔ کسی بھی مصلحت کے تحت ایسے عناصر کی پشت پناہی یا اُنہیں استعمال کرنے کی سوچ نقصان کا عمل ہے۔ پشت پناہی کامطلب ہے مرض کو بڑھانا اورپھر بڑے آپریشن کے سوا کوئی چارہ نہیں رہتا۔ لال مسجد سے لے کر اَب تک ہم نے یہی دیکھا ۔ باربار یہ مشق دہرائی جاچکی ہے لیکن حکیم ہیں کہ سیکھنے کو نہیں آتے ۔ علامہ رضوی کا شکریہ کہ اُنہوں نے اِس طریقے سے سبق دہرایا کہ جلد نہ بھولا جائے گا۔
لطیفوں کی البتہ زوروشور سے بارش جاری ہے ۔ وزیراعظم ہاؤس میں بھینسوں کی نیلامی سے ہی کچھ سیکھ لیاہوتا۔ لیکن اور کچھ کرنے کی سمجھ آنہیں رہی تو کوئی نیا شوشہ چھوڑ دیاجاتاہے ۔ مرغیوں والی تلقین اورگورنر ہاؤس کی دیوار‘ دونوں اسی زمرے میں آتے ہیں۔ کپتان صاحب کو کون سمجھائے کہ ملک کے مسائل اورہیں ۔ معیشت تیز بخار کی حالت میں ہے ۔ اُس کیلئے پلاننگ تو پہلے ہونی چاہیے تھی لیکن قوم کو جو تحفہ اسد عمر صاحب کی شکل میں ملاہے وہ اقتدار میں آئے اور معیشت کے پرائمری سکول میں داخل ہوگئے ۔ ہر گزرتے دِن کے ساتھ عیاں ہورہاہے کہ اِن کی معاشی ٹیم کے پلے کچھ نہیں۔ کوئی ذہن میں خاکہ نہیں، کوئی پلاننگ نہیں۔ ابھی آئی ایم ایف پروگرام طے نہیں ہوا لیکن تمام شرائط پہ عملدرآمد شروع کردیاگیاہے ۔ روپے کی بے توقیر ی‘ جو ہم نے حالیہ دِنوں میں دیکھی‘ اورشرح سود میں اضافہ ایسے نسخے ہیں جن سے پہلے سے ہی گھٹن زدہ معیشت مزید گھٹن کا شکار ہوجائے گی۔افراط زر کو ایک طرف رکھیے ، نوکریاں کہاں سے آئیں گی ؟اکانومی کی گروتھ تو پہلے ہی رُک چکی ہے ۔ بازار مندے پڑے ہیں۔ جس گھٹیا سے مساج پارلر میں ہم جسم کی تھکاوٹ دور کرنے کبھی جاتے ہیں‘ دودن پہلے وہاں گئے تو چارپانچ ورکر جو وہاں تھیں‘ ہاتھ پہ ہاتھ دھرے گاہکوں کا انتظار کرتے ہوئے نظر آئیں۔ پوچھا کہ معاملات کیسے ہیں تو اُنہوں نے بتایا کہ بزنس خراب ہے ۔ گاہک نہیں آرہے ۔لیکن وہ کیا انگریزی کا محاورہ ہے کہ ہر بادل کا ایک سنہری پہلو ہوتاہے ۔ جس روحانی سوداگر سے ہم کبھی کبھی میل رکھتے ہیں اُن پر چند روز پہلے تکیہ کیا تو سکاٹ لینڈ کی وہ دوا جسے عرف عام میں بلیک لیبل کہتے ہیں ایسی پیش کی جس کا ہر قطرہ اُس کی صفائی اورایک نمبر ہونے کی گواہی دے رہاتھا۔ ایک اور روحانی ذریعے سے دریافت کیا تو پتہ چلا کہ ہر چیز وافر مقدار میں موجود ہے کیونکہ گاہکوں کی کمی ہوگئی ہے ۔ مساج پارلر ویران ہوں اورمیخانوں میں مَندہ آجائے ، یہ قیامت کی نشانیاں ہیں ۔
اِس حکومت کو بحالت مجموعی دیکھا جائے تو چہروں سے اناڑی پن صاف جھلکتاہے ۔ ایک سے ایک نہلہ اِس حکومت میں ہے۔ عوام نے تو ووٹ دئیے ہوں گے لیکن اِس کرشمہ سازی میں محکمہ زراعت کا بھی بہت بڑا ہاتھ تھا۔ اَب یہ سوچ پھیلتی جارہی ہے کہ محکمہ زراعت والے بھی پریشان ہو رہے ہوں گے کہ کن اناڑیوں کو ہم لے آئے‘ جن سے کچھ ہوہی نہیں رہا سوائے لطیفے برپا کرنے کے ۔ توپھر جائیں تو جائیں کہاں ؟قوم شریفوں کو بھی آزما چکی، زرداریوں کو بھی ۔ یہ نئے پاکستان والے رہ گئے تھے اورقوم اَب اِن کو بھگت رہی ہے ۔ اِ ن کا اناڑی پن منطقی انجام تک پہنچا تو پھر کون آئے گا؟قحط الرجال تو ہم کہتے ہیں لیکن اِس سنگینی اوراِس نوعیت کا؟ ہمارے ہاں بے روزگار شاعر ملتے ہیں ، تبلیغ کرنے والوں کی بہتات ہے۔ ہر کوئی یا نصیحت کررہاہے یا تبلیغ پہ مامور ہے ۔ کمی ہے تو کسی ڈھنگ کے معیشت دان کی۔ ایک پرنسٹن کا پروفیسر تھا جسے دنیا مانتی ہے۔ اُسے یہ موجودہ نہلے اکنامک ایڈوائزری کمیٹی میں لے آئے۔ پھر ایسا طوفان مولویوں نے اُٹھایا کہ یہ تو قادیانی ہے اور فولادی حکومت کو پیچھے ہٹنا پڑا اوروہ پروفیسر صاحب وہیں پرنسٹن یونیورسٹی میں ہی رہے ۔ کوئی ہم سے پوچھے کہ معیشت کا تعلق کسی مسلک یا فرقے سے کیاہے ؟لیکن عقل نام کی چیز ہو تو ایسے سوالوں کا جواب دیاجائے ۔ قائداعظم قادیانی سرظفر اللہ خان کو وزیرخارجہ رکھ سکتے تھے ، ہندو ایچ این منڈل کو وزیرقانون بنا سکتے تھے ۔ لیکن ہم قائداعظم سے بڑے ہوئے ۔ہماری عقل اُن سے آگے کو ہے ۔ پھر گزارہ کریں اسحاق ڈاروں اوراسدعمروںسے ۔