فلسفہِ وقت یہ تھا کہ زرداریوں اورشریفوں نے پاکستان کو تباہ حال کردیاہے۔ ان کی لوٹ مار نے قوم کو دیوالیہ پن کے کنارے آن کھڑا کیا ہے۔ اس لئے ناگزیر ہے کہ کوئی نئی طاقت آگے آئے اورعنانِ اقتدار سنبھالے۔ اسی میں قوم کی بقا ہے ۔
یہ سوچ تھی جس نے الیکشن سے پہلے محکمہ زراعت اوردیگر اداروں کو متحرک کیا۔ بساطِ سیاست الیکشن سے پہلے اور بعد ایسی بچھائی گئی کہ ماضی کی قوتوں کو شکست کا سامنا ہوا اورنئی قوت سیڑھیاں چڑھتی مسندِ اقتدار پہ آن بیٹھی ۔ اس فلسفے کے ساتھ یہ امید بھی منسلک تھی کہ سیڑھیوں سے چڑھائی گئی نئی قوت میں اتنی توانائی اورصلاحیت ہوگی کہ ملک کے حالات بہتر ہوسکیں ‘لیکن وہ کیا انگریزی کا محاورہ ہے کہ man proposes and God disposesیعنی انسان سوچتاہے اورآسمان فیصلے کرتے ہیں۔ نئے آنے والوں نے صلاحیتیں کیا دکھانا تھیں انہوں نے قوم کی چیخیں نکال دی ہیں ۔سونے پہ سہاگہ یہ کہ کل کے لٹیروں کی داستانیں عوامی حافظے میں مدہم ہوتی جارہی ہیں۔ عام آدمی نے تو حال میں جینا ہوتاہے ۔ وہ ماضی کی کہانیوں کو لے کر کیا کرے۔
پہلے تو یہی تسلی دی جارہی تھی کہ نئی ٹیم کو وقت دینا چاہیے‘ پچھلے بہت گند چھوڑ کے گئے ہیں‘ حالات کو سدھارنے میں کچھ وقت تو لگے گا۔ یہ دلیل تین چار ماہ تو ٹھیک لگتی تھی ۔ لیکن جب آٹھ ماہ مکمل ہونے کو ہوں تو پھر اس میںوزن نہیں رہتا ۔اب قوم ہے اورسامنے نئے آنے والوں کی قابلیت اورصلاحیت ۔
وزیر خزانہ اسد عمر ویسے ہی رگڑے جارہے ہیں۔ ایسی باتوں سے کہ انہوں نے اپنا ہوم ورک نہیں کیاتھا اوراُن کے پاس حالات سدھارنے کا کوئی خاطرخواہ نقشہ نہ تھا ۔ صرف اسد عمر کی نالائقی ہوتی تو بات سمجھ میں آسکتی تھی ۔ لیکن یہاں مسئلہ قدرے مختلف ہے ۔ اسد عمر تو کارندہ ہے ‘ حکومتی محاذ میں ایک پرزہ ‘ بیشک اہم پرزہ لیکن پھر بھی ایک جزو ۔ اصل پرابلم اوپر کا ہے ۔ سوچ ‘ فکر اورصلاحیت محدود ہے تو ٹیم کے کپتان کی ۔ ہرگزرتے دن یہ واضح ہوتا جارہاہے کہ جو باتیں عمران خان کے بارے میں کی جاتی تھیں کہ محدود سوچ کے مالک ہیں اتنی غلط نہ تھیں۔ اسد عمر کے ذہن میں معاشی نقشہ نہ ہوگالیکن زیادہ اہم پوچھنے کی بات یہ ہے کہ عمران خان کے پاس ملکی مسائل کے حوالے سے کون سانقشہ ہے ۔ ناصرف ٹیم ‘بلکہ کپتان وہ انگریزی کا کیالفظ ہے ''clueless‘‘ (کلو لیس)لگتے ہیں۔ کبھی ریاست ِ مدینہ کا ذکر آجاتاہے ‘ کبھی اچانک سے اعلان ہوتاہے کہ پاکستان کو رفاہی مملکت بنا دیں گے ۔ پیسہ تجوریوں میں ہے نہیں اورباتیں ایسی کہ قارون کا خزانہ ان کے ہاتھ لگنے والاہے ۔
شروع میں تنقید دبی دبی تھی‘ اس خیال سے کہ نئی ٹیم کو وقت دینا چاہیے اوران پہ ایکدم توپیں کھول دینا اچھی چیز نہیں ‘ لیکن اب تو ہر اطراف سے تنقید اُٹھنے لگی ہے ۔ کل کے خیر خواہ بھی ناقدین میں تبدیل ہوتے جارہے ہیں۔ ایسا کیوں نہ ہو کیونکہ جب نالائقی اتنی آل راؤنڈ ہو تو ان کے حق میں بات کرنی مشکل ہوجاتی ہے ۔پنجاب کے چیف منسٹر کو ہی دیکھ لیجیے۔ دیگر کام تو ان کے بس کے نہیں‘ لگتا یوں ہے کہ انہیں یہ جو چند ایک شیلٹر ہوم بنائے گئے ہیں ان کی انسپکشن پہ لگا دیاگیاہے ۔ آئے روز کسی شیلٹر ہوم میں جا دھمکتے ہیں اوریہی ان کی ساری چیف منسٹری لگتی ہے ۔ خیبرپختونخوا کے چیف منسٹر کی حالت بھی زیادہ مختلف نہیں۔ اُن کا کیا سیاسی بیک گراؤنڈ ہے ‘ کتنے پانی میں ہیں ‘اُن کی کس صلاحیت پہ ناز کیا جا سکتا ہے کسی کو معلوم نہیں ۔لیکن اصل مسئلہ پھر وہی اوپر والاہے ۔ اصل کمی ہے تو وہاں ۔ اپروچ اورسوچ محدود ہے تو وہاں ۔
مانا کہ کرکٹ کے بڑے کھلاڑی تھے ۔ شوکت خانم ہسپتال بنایا‘ نمل یونیورسٹی بنائی ۔ یہ بڑی کامیابیاں ہیں‘ لیکن کیا حکمرانی کیلئے یہ جوازکافی ہے ؟اپنی منفرد فیلڈ میں کیا مولانا عبدالستار ایدھی کی کامیابی کسی سے کم تھی؟اکیلے انہوں نے کتنا بڑا ادارہ بنادیا‘ لیکن کسی نے سیڑ ھیاں لگا کر انہیں ملک کا سربراہ نہیں بنادیا۔ سندھ انسٹیٹیوٹ آف یورالوجی اینڈ ٹرانسپلانٹیشن (SIUT)کے پروفیسرادیب الحسن رضوی کو لے لیجیے۔اپنی ذات کے بل بوتے پر انہوں نے کیسا شاندار ادارہ بنا یاہے ۔ گردوں کی بیماریوں کاعلاج عالمی معیار کے مطابق وہاں ہوتاہے اوربالکل مفت۔ ایسا ادارہ ہے کہ پیچیدہ سے پیچیدہ آپریشن کیلئے ایک دھیلا نہیں دینا پڑتا۔ ٹیسٹ ‘علاج ‘ مہنگی سے مہنگی ادویات مفت۔ صفائی کا یہ عالم کہ انسان کہتاہے یہ ادارہ پاکستان کا حصہ نہیں۔ صبح سے شام پروفیسر صاحب وہاں لگے رہتے ہیں ۔ کچھ سال پہلے میں وہاں گیا تو دیکھا کہ پروفیسر صاحب کے استعمال میں پرانی کلٹس گاڑی ہے ۔ کوئی پراڈو شراڈو انہوں نے اپنے لئے مختص نہیں کی۔ میرا بس چلے تو میں انہیں ملک کا سربراہ بنا دوں لیکن انہیںستائش ملتی ہے تو اپنے ادارے کے حوالے سے ۔ وہ وزیراعظم نہیں بنا دئیے گئے ۔ عمران خان نے کرکٹ اورشوکت خانم کے حوالے سے بہت نام کمایا‘ لیکن حالات بتا رہے ہیں کہ وہ حکمرانی کے جوہر سے پوری طرح مالا مال نہیں۔ کمی ملک میں اس وقت یہ نہیں کہ معاشی پلان نظر نہیں آرہا ۔ کمی سربراہ ِ حکومت کی صلاحیت کی ہے ۔
قوم کا کیا بنے گا ؟زرداری اورشریف تو پرلے درجے کے نالائق ٹھہرے‘ لیکن جب یہ نئی ٹیم بھی اپنی نالائقی ہر روز کی بنیاد پہ ثابت کرنے پر تُلی ہے تو ان کی جگہ پھر کون آئے گا؟قوم پھر سے زرداریوں اورشریفوں کی متحمل تو ہو نہیں سکتی ۔متبادل کو لایاگیا ‘لیکن اپنا اورقوم کا حشر جو متبادل کر رہا ہے وہ ہمارے سامنے ہے۔ دیگر کوئی جماعت یا لیڈر نہیں ہے ۔توپھر سوال اٹھتاہے کہ ہم کہاں جا رکیں گے ؟دلائل کا یہ رخ خطرناک معنی رکھتاہے ۔یہ پہلی بار ہماری تاریخ میں نہیں ہورہا کہ سویلین ناکامیوں کی وجہ سے بات ایک اورر خ اختیار کرے۔ ہم نے یہ راستے دیکھے ہیں اوراُن پہ چلنے کے نتائج بھی سہے ہیں۔ سیاست ؛البتہ نام ہے ممکنات کا ۔معجزوں پہ سیاست نہیں ہوتی۔ ممکنات کے دائرے ہی میں رہنا پڑتا ہے ۔
افسوس ؛البتہ یہ رہے گا کہ عمران خان اوراُن کی ٹیم بہت جلدی کررہے ہیں۔پیپلزپارٹی کا فاتحہ تب ہی پڑھا جاسکا جب جماعت بغیر تعطل کے پانچ سال اقتدار میں رہی ۔اُن پانچ سالوں میں سب کچھ سامنے آگیا۔ شک کی کچھ گنجائش باقی نہ رہی ۔ نوازشریف اورنون لیگ کو بھی ڈھیل ملی تو اُن کا اصلی چہرہ سامنے آگیااورشک کی گنجائش اُن کے بارے میں بھی ختم ہوگئی ۔ پہلے کہاجاتاتھا کہ میاں صاحب کو موقع نہیں دیا جارہا ۔ ہر بار ان کے اقتدار کو کاٹ دیاجاتاہے ۔ جب پورا دورانیہ ملے گا تو دیکھیے گا میاں صاحب کیا کارنامے سرانجام دیتے ہیں ۔ تیسری بار منتخب ہوئے تواُن کے اقتدار پہ کوئی قدغن نہ تھی۔ لیکن ایک طرف ملکی خزانہ فضول منصوبوں پہ برباد ہوا اوردوسرا ہر ماہ گزرنے کے بعد اُن کا لندن جانے کو جی چاہا ۔ پھر وہ آسمانی بجلی گری جس کانام پانامہ پیپرزتھا اورکاغذی شیر وں کا وہ حشر ہوا جو ہم دیکھ چکے ہیں۔
لیکن یہ جو صاحب آئے ہیں ان کا بھی کیا کہنا۔ اتفاق سے ایک دو روز پہلے ان کی ایک کنٹینر والی تقریر پھر سے سنی ۔حیران رہ گیا ‘ کیا لایعنی قسم کی گفتگو تھی ۔ ایسا انداز اورایسے دعوے ۔ لیکن ہم جیسے اس سوچ سے سرشار تھے کہ کسی طریقے سے بھی میاں صاحبان سے نجات ملے ۔ اس آرزو کی تکمیل میں ہم جیسے ہر بے وقوفی برداشت کرنے کو تیار تھے ۔ اب اس سوچ کا خمیازہ نا صرف ہم جیسے ‘بلکہ قوم بھگت رہی ہے ۔ آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا ۔