مولانا فضل الرحمن نے وہ کر دکھایا ہے جو موجودہ صورتحال میں نا ممکن سمجھا جاتا تھا۔ انہوں نے قومی زندگی کے اُس نکتے کو تنازعے کے طور پر کھڑا کر دیا ہے جس کا ذکر شجرِ ممنوعہ تصور کیا جاتا تھا۔
رائج حکومتی بندوبست کے بارے میں نون لیگ اور پی پی پی کو اعتراض ہے‘ لیکن اُن کی قیادتیں اپنی پیشیوں اور مقدموں میں پھنسی ہوئی ہیں۔ یہ والا نکتہ جو مولانا نے اُٹھایا ہے اِس کی ہمت اُن پارٹیوں میں نہیں تھی۔ رائج بندوبست کی بنیاد 'ایک پیج‘ ہے، یعنی حکومت اور دوسرے طاقت کے مرکز ایک ہی جگہ کھڑے ہیں۔ لگے ہاتھوں مولانا نے دیگر موضوعات کو چھوڑ کے اپنے احتجاج کا مرکزی نکتہ اِسی بنیاد کو بنایا ہے۔ وہ کسی اور چیز کے بارے میں بات نہیں کر رہے۔ نہ اسلام کا نعرہ بلند کر رہے ہیں‘ نہ معیشت کے بارے میں گھسی پِٹی باتیں کر رہے ہیں۔ اُن کا احتجاج اس محور کے گرد گھوم رہا ہے کہ عمران خان کی حکومت شفاف انتخابات سے اقتدار میں نہیں آئی بلکہ درپردہ امداد کی بدولت اُسے ملک پہ ٹھونسا گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ پچھلے انتخابات پی ٹی آئی نے تو نہیں کرائے تھے۔ کرانے والا انتظام اور تھا‘ لہٰذا جب مولانا کہتے ہیں کہ عمران خان غیر آئینی حکمران ہے تو اصل تنقید اُن کی اُن قوتوں پہ جاتی ہے جن کی زیر نگرانی انتخابات ہوئے۔
یہ بات دیگر سیاستدان بھی کہتے ہیں۔ سلیکٹڈ وزیر اعظم کے لقب کے موجد بلاول بھٹو زرداری ہیں۔ یہ طعنہ اُنہوں نے ایجاد کیا۔ اِس طعنے کے پیچھے بھی وہی خیال ہے کہ عمران خان الیکشن شفاف طریقے سے نہیں جیتے بلکہ اُنہیں طرح طرح کے طریقوں سے جتوایا گیا اور پھر غیبی مدد سے اُنہیں وزیر اعظم بنایا گیا۔ بلاول کا تبصرہ البتہ الفاظ تک محدود رہا۔ کسی احتجاج کی سکت نہ نون لیگ میں تھی نہ پی پی پی میں۔ وہ اپنے مقدموں کا سامنا کرتے یا احتجاج کی تیاری کرتے؟ دیگر الفاظ میں احتجاج کے حوالے سے دونوں بڑی پارٹیاں مفلوج ہو چکی تھیں۔ اسی لیے ملک میں ایک قسم کا تعطل تھا۔ یا وہ جو انگریزی کا لفظ ہے 'stalemate ‘۔ عمران خان آئے روز اپوزیشن جماعتوں پہ پھبتیاں کستے۔ باہر دوروں پہ بھی جاتے تو اُن کا اولین موضوع کرپشن ہوتا۔ ساتھ ہی یہ تاثر بہت مضبوط تھا کہ اُنہیں کوئی ہلا نہیں سکتا کیونکہ وہ اور دیگر طاقتیں ایک پیج پر ہیں۔ یہ وہ stalemate یا جمود تھا جس کا کوئی توڑ نظر نہیں آتا تھا۔
اِس جمود کو توڑا ہے تو مولانا فضل الرحمن نے اور اِس انداز سے کہ وہ جو موضوع شجرِ ممنوعہ تھا‘ اُن کے آزادی مارچ کے تناظر میں ملک کا نمبر 1 سیاسی ایشو بن کے سامنے آ گیا ہے اور پی ٹی آئی والوں کے پاس اِس کا کوئی جواب نظر نہیں آتا۔ نواز لیگ اور پی پی پی کے پچھلے انتخابات کے بارے میں جو بھی اعتراضات تھے اُنہوں نے بہرحال الیکشن نتائج کو مان لیا تھا۔ نہیں مانے تو مولانا فضل الرحمن‘ لیکن اُن کی باتوں کو کوئی اہمیت نہیں مل رہی تھی۔ عمران خان تو مولانا کا مذاق ہی اُڑاتے تھے۔ اُنہیں سنجیدگی سے کبھی نہیں لیا۔ لیکن اِس مارچ اور اسلام آباد کے پڑاؤ نے پرانی صورتحال کو یکسر تبدیل کر دیا ہے۔ یہ کمال کی بات ہے کہ جن الیکشن نتائج کو عمومی طور پہ قوم نے مان لیا تھا اُن پہ مولانا نے سوالیہ نشان کھڑا کر دیا ہے۔ حکومت تو اِس نکتے پہ بات کرنے کی روادار نہ تھی لیکن جو مجمع اسلام آباد میں بیٹھ چکا ہے اس کے بعد حکومت مولانا سے بات کرنے پہ مجبور ہو گئی ہے۔ کچھ اور مولانا حاصل کر پاتے ہیں یا نہیں اُن کیلئے یہ بھی بڑی کامیابی ہے۔
ایک پیج کا فارمولا کیا تھا؟ اِس کے پیچھے مقتدر حلقوں کے ذہنوں میں یہ خیال تھا کہ دونوں بڑی پارٹیاں کرپٹ ہیں اور اُنہوں نے ملک کو تباہی کے دہانے پہ پہنچا دیا ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ ان دو پارٹیوں کے علاوہ کوئی نیا چہرہ عنانِ اقتدار سنبھالے۔ ظاہر ہے کہ نیا چہرہ عمران خان کا ہی تھا۔ کوئی مانے نہ مانے سایوں اور اندھیروں سے جو اُن کی مدد ہو سکی وہ کی گئی۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہی۔ واقفانِ حال اِس داستان سے بخوبی آگاہ ہیں۔ لیکن یہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی نواز لیگ اورپی پی پی میں اتنی ہمت نہ تھی کہ اِس پہ کوئی بڑا اعتراض کریں‘ کُجا یہ کہ کسی احتجاج کا سوچیں۔ لہٰذا بادل نخواستہ اُنہوں نے سب کچھ قبول کیا۔ عمران خان اور اپنی رسوائی دونوں کو قبول کیا۔ لیکن اُن کی مصیبتوں میں کوئی کمی نہ آئی اور احتساب کی جکڑ اُن کے گرد سخت ہوتی گئی۔ میاں نواز شریف کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اُنہوں نے اِس صورتحال کے سامنے گھٹنے نہ ٹیکے۔ کئی مداحین نے انہیں مزاحمت کی علامت کا درجہ بھی عطا کر دیا۔ لیکن اگر اُنہوں نے کوئی بات مانی نہیں تو موجودہ ایک پیج والے بندوبست کے خلاف کوئی بڑی آواز اُٹھانے کی پوزیشن میں بھی نہیں تھے۔ پچھلے تیرہ چودہ ماہ میں اِن کی جماعت بھیڑوں کے ایک ریوڑ کی طرح نظر آتی رہی ہے۔ پیپلز پارٹی کا اِس سے بھی بُرا حال ہے۔ علمِ مزاحمت کسی نے صحیح طور پہ اُٹھایا ہے تو اُس نے جسے اُس کے ناقدین ایک خاص حوالے سے زیادہ سمجھنے کیلئے کبھی تیار نہ تھے۔
ایک تو کمال ہوشیاری سے مولانا اپنے حامیوں کے ساتھ اسلام آباد آنے میں کامیاب ہو گئے۔ اُن کے حامی کیسے منتشر ہوں گے؟ مولانا بھی اپنے پتے عقل مندی سے کھیل رہے ہیں۔ اسلام آباد پہنچ بھی گئے، باتیں بھی اُنہوں نے سخت کیں، ایک پیج کو بھی قومی موضوعِ بحث بنا دیا لیکن اشتعال کی حدوں کو نہیں چھوا۔ یہ ڈی چوک والا معاملہ تو بالکل فضول بات ہے۔ ڈی چوک کیوں جائیں؟ مولانا بہرحال شیخ الاسلام نہیں۔ جو کچھ کر رہے ہیں اپنی سوچ سمجھ کے مطابق کر رہے ہیں۔ کسی کے کٹھ پتلی نہیں بن رہے۔ وہ کبھی بھی ایسے احمق نہ تھے کہ سرکاری عمارات پہ حملے کرنے کی سوچیں۔ اُن کی سیاست ایسی نہیں رہی۔ کم از کم اُن میں وہ لااُبالی پن نہیں جو شیخ الاسلام کا ہمیشہ وتیرہ رہا۔ بات بھی اِس انداز سے کر رہے ہیں کہ اُن کی چبھنے والی تنقید کو برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔ ہر لمحہ مولانا حوالہ دیتے ہیں تو آئین اور قانون کا اور تلقین بھی کر رہے ہیں کہ آئینی تقاضوں کی پاسداری ہونی چاہیے۔ یہی چبھتی تنقید ہے کیونکہ جو سوال پچھلے انتخابات کے بارے میں اُٹھائے جا رہے ہیں‘ اُن کی بنیاد ہی یہی ہے کہ آئین سے انحراف کیا گیا۔ یعنی جن دائروں میں ہر ایک کو رہنا چاہیے تھا اُن سے تجاوز کیا گیا۔ جو اِس تنقید کی زد میں ہیں اُنہیں یہ باتیں اچھی تو نہ لگ رہی ہوں گی لیکن اُنہیں برداشت کرنا پڑ رہی ہیں۔
یہ مقصد نہیں کہ عمران خان استعفیٰ دیتے ہیں یا نہیں۔ مطالبہ کرنے سے کب کسی نے استعفیٰ دیا ہے۔ لیکن اِس بات کو اُجاگرکر کے کہ عمران خان غیر روایتی طریقوں سے اقتدار میں آئے مولانا نے دُکھتی رَگ پہ اُنگلی رکھی ہے۔ اور اپوزیشن جماعتوں کو ایک نیا نعرہ دے دیا ہے۔ اُن کا پڑاؤ یا دھرنا بھلے کل ختم ہو جائے اور اُن کے حامی اپنے گھروں کو لوٹ جائیں لیکن یہ نئی بات قومی سیاست میں آ چکی ہے۔ بلاول بیشک عمران خان کو سلیکٹڈ کہتے تھے لیکن سلیکٹرز (selectors) پر تو کوئی براہ راست اُنگلی نہ اُٹھاتے تھے۔ مولانا نے تقریباً صاف صاف بات کر دی ہے۔ یہ بھی دیکھیے کہ اَب تک تو مطالبہ ہوتا تھا کہ الیکشن اداروں کے زیر نگرانی ہوں۔ مولانا نے یہ مطالبہ کر ڈالا ہے کہ آئندہ کے الیکشن اداروں کے زیر نگرانی نہ ہوں۔ یعنی کوئی سلیکشن وغیرہ کا احتمال نہ ہو۔ موجودہ تناظر میں یہ بہت بڑی بات ہے۔
مولانا نے یہ بھی ثابت کر دیا ہے کہ وہ اپوزیشن کے سب سے مؤثر لیڈر ہیں۔ اُن کی جمعیت علمائے اسلام نون لیگ یا پیپلز پارٹی سے بڑی نہیں ہو گئی لیکن مولانا کا قد کاٹھ اس ہنگامے سے بڑھ گیا ہے۔