"AYA" (space) message & send to 7575

ہم جو متلاشیٔ رہبر رہے

کاروان بہت گزرے اور اُن سے ہماری امیدیں جڑی رہیں، کبھی ایک سے پھر کسی اور سے۔ ہر بار سمجھتے تھے کہ بہتری ہو گی اورقوم کی تقدیر بدل جائے گی‘ لیکن اُمیدیں کبھی بارآور ثابت نہ ہوئیں۔ اب حالت یہ ہوچکی ہے کہ اُمیدیں باندھنا چھوڑ دیا۔ 
البتہ ایک بات جان چکے کہ لیڈری ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔ پاکستان جیسے ملک میں لیڈری کرنے کیلئے کچھ لوازمات ہیں جو پورے ہونے چاہئیں۔ ایک تو نام کا ہونا ضروری ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان پیپلزپارٹی کی بنیاد رکھی اورایک وجہ اُن کی کامیابی کی یہ تھی کہ وہ اپنا نام پاکستان کے منظرنامے پہ بنا چکے تھے۔ اُن کی پہچان تھی‘ اور عوام اُن کے نام سے واقف تھے۔ شخصیت بھی کرشماتی تھی ، اسی لیے جب پارٹی کی بنیاد ڈالنے نکلے تو ایک ہجوم اُن کے گرد جمع ہو گیا۔ مختلف الخیال لوگ تھے اور اُن کا پسِ منظر بھی الگ الگ تھا۔ اُس وقت قومی سیاست میں پیپلزپارٹی جیسی جماعت کی ضرورت تھی۔ بھٹو کو پارٹی چاہیے تھی اورلوگوں کو ایک لیڈر کی تلاش تھی۔ لیڈر اورجماعت کا ملاپ ہوا تو گویا ایک دھماکہ خیز صورتحال سامنے آ گئی۔ 
نواز شریف نے قومی سیاست میں بطور لیڈر قدم رکھا تو اُن کا نام بھی بن چکا تھا۔ جنرل ضیاء الحق کی نظرِ عنایت اُن پہ پڑی اور وہ وزیر اعلیٰ پنجاب بن گئے۔ خاندانی پسِ منظر بھی تھا، وسائل بھی تھے۔ اُن کے والد صاحب کی رہنمائی نے بھی کلیدی کردار ادا کیا۔ والد صاحب زیرک آدمی تھے اور لوگوں کی پہچان رکھتے تھے۔ مطلب یہ کہ نواز شریف نے سیاسی قیادت کی ذمہ داریاں اُٹھائیں تو وہ اکیلے نہ تھے بلکہ اُن کے پیچھے ایک پورا خاندانی ماحول تھا۔ 
اس لحاظ سے عمران خان اپنے سیاسی سفر پہ اکیلے ہی نکلے۔ اُن کا لمبا چوڑا خاندان نہ تھا لیکن ایک نام تو تھا اور شخصیت بھی کرشماتی تھی۔ شروع میں مشکلات بہت دیکھیں لیکن ہمت نہ ہاری۔ اُن کی جگہ کوئی اور ہوتا تو سیاست کے میدان سے کب کا بھاگ چکا ہوتا۔ لیکن اُن کی شخصیت میں استقامت ہے اور ٹھوکروں کے باوجود چلتے رہے۔ آخر کار کامیابی نے اُن کے قدم چومے۔ 
مسئلہ یہ ہے کہ نظریاتی طور پہ تینوں جماعتیں تقریباً ایک ہی طرز کی ہیں۔ کوئی جماعت بھی موجودہ صورتحال یعنی status quo کے خلاف نہیں۔ تینوں جماعتیں بنیادی تبدیلیوں کے حق میں نہیں۔ عمران خان نے تبدیلی کا نعرہ ضرور لگایا لیکن اُن کا تصورِ تبدیلی بڑا سطحی قسم کا تھاکہ کرپشن ختم کریں گے اور لٹیروں کو نہیں بخشا جائے گا‘ لیکن معاشرے اور نظام میں اُس قسم کی تبدیلی جو انقلاب کے نام سے منسوب کی جاتی ہے‘ ایسا تصور عمران خان کے ذہن میں کبھی نہ تھا۔ 
سچ تو یہ ہے کہ پاکستان میں بنیادی قسم کی تبدیلیوں کی سوچ رکھنا فضول کا کام ہے۔ نہ عوام نہ معاشرے میں ریڈیکل (Radical) سوچ کا فقدان ہے۔ ہمارا معاشرہ رجعت پسند معاشرہ ہے ۔ جو جائز امید لگائی جا سکتی ہے وہ بہتر حکمرانی کی ہے‘ یعنی مسندِ اقتدار پہ ڈھنگ کے لوگ بیٹھیں جو روزمرّہ کا کام کسی اسلوب سے کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ سیاسی پارٹیاں خاندانی لمیٹڈ کمپنیوں کے بجائے جمہوری اصولوں پہ چلنے والی جماعتیں بنیں‘ لیکن یہاں تسلط خاندانوں کا ہے اور اُس سے باہر جماعتیں نکلتی نہیں‘ اس لیے میرٹ وغیرہ کا دور سے کوئی شائبہ جماعتوں میں نہیں ملتا۔ مسئلہ تب پیدا ہوتا ہے جب جماعتیں اقتدار میں آتی ہیں۔ باصلاحیت لوگوں کی چونکہ سیاسی جماعتوں میں کمی ہوتی ہے اس لئے انحصار افسر شاہی پہ کرنا پڑتا ہے۔ نون لیگ عوامی جماعت ہے لیکن جب بھی اقتدار میں آئی کلید ی اثرورسوخ افسر شاہی کے لوگوں کا رہا۔ status quo کے سب سے بڑے علمبردار بیوروکریٹ ہی ہوتے ہیں۔ حکومت اُن کے ہاتھوں میں دینا ہے تو جس سوچ کی وسعت کی ضرورت ہے وہ کہاں سے آئے گی؟ تحریک انصاف کا اور بھی برا حال ہے۔ نون لیگ میں بہرحال چند ایک تجربہ کار سیاستدان موجود ہیں۔ تحریک انصاف میں وہ بھی نہیں۔ نتیجتاً پی ٹی آئی کا انحصار بیوروکریٹوں پہ نون لیگ سے زیادہ دکھائی دیتا ہے۔ 
یہ صورتحال تبدیل ہوتی ہوئی نظر نہیں آتی۔ پیپلزپارٹی اورن لیگ نے خاندانی لمیٹڈ کمپنیاں ہی رہنا ہے اور پی ٹی آئی کا انحصار غیر منتخب لوگوں پہ ہی رہے گا۔ جسے ہم بہتر حکمرانی یا گڈ گورننس کہتے ہیں وہ پھر کہاں سے آئے گی۔ اگر حفیظ شیخوں سے گزارا چلانا ہے تو پھر الیکشن جیسے ڈھونگ کی ضرورت کیا رہ جاتی ہے۔ الیکشنوں کا مقصد یہ ہونا چاہیے کہ ہر الیکشن کے ساتھ نئے لوگ آئیں اور نئے خیالات جنم لیں۔ یہاں پہ انتخابات میں جو کچھ ہو جسے آپ دائمی یا permanent حکومت کہہ سکتے ہیں وہی فیصلہ سازی کا اختیار رکھتی ہے‘ لہٰذا پے در پے انتخابات کے باوجود حالات جوں کے توں رہتے ہیں اور کوئی بنیادی تبدیلی معرضِ وجود میں نہیں آتی۔ 
کہنے کو تو پھر ایک نئی سیاسی جماعت کی ضرورت ہے۔ ایک نظریاتی خلا ہے جو پُر ہونا چاہیے لیکن کون پُر کرے گا۔ جو جماعت سازی کے روایتی لوازمات ہیں وہ کیسے پورے ہوں گے؟ انہی وجوہات کی بناء پہ ہماری جنریشن کے لوگ‘ جنہوں نے اُمیدیں باندھیں اور پھر اُمیدوں کو بکھرتے دیکھا‘ سیاست سے بیزار ہوچلے ہیں۔ آگے کچھ نظر نہیں آتا۔ یہ کیا ہوا کہ نون لیگ کی اُمیدیں اب مریم نواز پہ ہیں؟ پیپلزپارٹی کے حوالے سے ہمارے کئی دوست انتباہ کر رہے ہیں کہ آصفہ بھٹو پہ نظر رکھنی چاہیے کیونکہ وہ مستقبل کا ستارا ہو سکتی ہیں۔ یعنی فیملی لمیٹڈ کمپنیوں کے حصار سے ہم نہیں نکل پا رہے۔ جہاں ایسی کمپنیاں ہوں وہاں سیاست کے دستور بھی الگ ہوتے ہیں۔ حاضریاں دینا پڑتی ہیں اور خوشامد کے کچھ نہ کچھ گُر سیکھنے کی ضرورت پڑتی ہے۔ ایسے ہُنر ہر ایک کی دسترس میں نہیں ہوتے۔
جب ہم پیپلزپارٹی میں ہوا کرتے تھے اور اُمیدیں بینظیر بھٹو پہ لگائی ہوئی تھیں‘ ہمارے مرحوم دوست سلمان تاثیر نے ایک دن مشورہ دیا کہ بی بی کراچی جا رہی ہیں وہاں ہمارا جانا بھی ضروری ہے۔ یہ تب کی بات ہے جب جلا وطنی کے بعد 1986ء میں بینظیر بھٹو وطن واپس لوٹی تھیں۔ ہم کراچی گئے اور جہاں بی بی ہوتیں ہم حاضری دینے کی کوشش کرتے۔ کراچی سے انہوں نے کہیں اور جانا تھا تو ہمیں تلقین ہوئی کہ ہمارا بھی وہاں جانا ضروری بنتا ہے۔ میں نے جواباً سلمان تاثیر سے کہا کہ بی بی کی گاڑی کے پیچھے ایک دن کا دوڑنا ہو تو ہم ضرور نہ صرف کرلیں گے بلکہ بھرپور طریقے سے کریں گے‘ لیکن یہ روز روز کا دوڑنا طبیعت پہ گراں گزرتا ہے‘ ہم ایسا نہیں کر سکتے۔ اُس زمانے میں پارٹی میں بینظیر بھٹو کو بی بی صاحبہ کہا جاتا تھا۔ یہ الفاظ ہم کبھی ادا نہ کر سکے اور ہمیشہ مس بھٹو ہی کہتے تھے۔ نون لیگ میں جب گئے تو پارٹی میں روایت تھی کہ نواز شریف کو قائدِ محترم کے لقب سے پکارا جاتا تھا۔ یہ لقب ہمارے لبوں سے کبھی نہ ادا ہو سکا۔ 
ہمارا مخمصہ پھر ملاحظہ ہو۔ سیاست کا چسکا بھی لگا ہوا ہے اور جو یہاں کی سیاست کے لوازمات ہیں ایک حد تک تو شاید پورے کیے ہوں لیکن صحیح انداز سے کبھی پورے نہیں کر پائے۔ خواب اب بھی ہے کہ ملک کے حالات بدلنے چاہئیں۔ بہتری کی طرف ہم جائیں اور فرسودہ خیالات اور رسوم و رواج سے کسی طریقے سے نجات پائیں‘ لیکن جہاں معاشرے کی یہ حالت ہو کہ ایک چھوٹے سے چڑیا گھر کو ہم ٹھیک طرح سے چلا نہ سکیں اور ایک اکیلے ہاتھی کے ساتھ ایسا ظلم روا رکھیں کہ دوسرے ملکوں سے لوگ آ کے ہمیں سمجھانے کی کوشش کریں تو دل پھر ٹوٹ جاتا ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں