روزمرّہ زندگی میں بڑھکیں چلتی ہیں اور سیاست میں بھی‘ لیکن ان کی کوئی حد تو ہونی چاہیے۔ آنکھوں میں دھول ڈالنے کی بھی کوئی حد ہونی چاہیے۔ پہلے مژدہ آر یا پار کا سنایا گیا۔ کوئی پوچھے کہ اس آر یا پار کا کیا بنا؟ استعفوں کی بھی دھمکی دی گئی۔ یہ کہا گیا کہ حکومت ختم ہو جائے گی اور کسی نئے آفتاب کا طلوع ہوگا۔ استعفے کہاں گم ہوگئے ہیں؟
یہ دھمکی بھی آئی کہ فیصلہ کن مرحلہ آچکا ہے اور لاہور کا جلسہ فیصلے کا دن ہوگا۔ کوئی بتائے تو سہی کہ کون سا طوفان آیا ہے اور حکومت کتنے خطرے میں ڈال دی گئی ہے۔ فضول کی باتیں‘ لیکن پی ڈی ایم کے قائدین ہیں کہ مسلسل ایسے ہی راگ الاپ رہے ہیں۔ جلسے خوب ہوں یا کمزور اُن سے حکومتیں جاتی ہیں؟ گوجرانوالہ میں مریم نواز خطاب فرما رہی تھیں تو لوگ جلسہ گاہ سے جانا شروع ہوگئے تھے۔ لاہور کا جلسہ کیسے ہوا سب کو معلوم ہے۔ یہ اور بات ہے کہ مبالغہ آرائی سے کام لیا جائے۔ اب کہہ رہے ہیں کہ جنوری کے آخرتک عمران خان حکومت سے دستبردار ہوجائیں۔ یہ مطالبہ کسی لطیفے سے کم نہیں لیکن نہایت سنجیدگی سے اس کا اظہار ہواہے۔ دھمکیوں کے سلسلے میں لانگ مارچ کی دھمکی بھی دی جارہی ہے۔ ہمارے سیاستدانوں نے تو لانگ مارچ کی اصطلاح کو ایک مذاق بنا دیاہے۔ کچھ مطالعہ تو کرلیں کہ چین کی کمیونسٹ جدوجہد میں جو لانگ مارچ ہوا تھا وہ کس نوعیت کا تھا۔ ہزاروں میل کے سفر پہ وہ مارچ محیط تھا اور اس میں جو قربانیاں چینی کمیونسٹ پارٹی کے ورکروں نے دیں وہ تاریخ کا حصہ ہیں۔ یہاں بات بات کو لانگ مارچ کہہ دیا جاتاہے۔ سیاسی جدوجہد اپنی جگہ لیکن پی ڈی ایم کے قائدین پاکستانی عوام کو اتنا بیوقوف تو نہ سمجھیں کہ جو منہ میں آئے وہ کہہ ڈالیں‘ اِس اُمید کے ساتھ کہ بے تُکی باتیں سُن کے عوام بے حال ہوجائیں گے اور نعرے لگاتے ہوئے ان لیڈروں کے پیچھے چل پڑیں گے۔
پہلے یہ تو دیکھا جائے کہ ان جماعتوں کے پَلے ہے کیا۔ جلسے توہر کوئی کرلیتا ہے۔ علامہ طاہرالقادری نے جو جلسہ اِسی اقبال پارک میں کیا تھا وہ کیا چھوٹا تھا؟ 2011ء میں اسی جگہ پہ عمران خان کا جلسہ تاریخی نوعیت کا تھا لیکن اُس کے منعقد ہونے سے عمران خان کی جھولی میں اقتدار فوری طورپہ تو نہیں آ پڑا تھا۔ اپریل 1986ء میں بینظیر بھٹو کا جلسہ یہاں فقیدالمثال تھا لیکن اُس کے کچھ ماہ بعد انہوں نے جونیجو حکومت کے خلاف ایک تحریک کا اعلان کیا جو بُری طرح ناکام ہوئی تھی۔
پاکستان کی تاریخ میں دو ہی تحریکیں زوردار قسم کی چلی ہیں، 1968-69ء میں ایوب خان کے خلاف اور 1977ء میں ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف۔ ان تحاریک میں اتنا زور تھاکہ حکومتیں مفلوج ہوکے رہ گئی تھیں۔ روزمرّہ زندگی متاثر ہوئی تھی۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے بے بس ہو گئے تھے۔ مجبوراً ایوب خان کو کرسیٔ صدارت چھوڑنا پڑی اور جہاں تک ذوالفقار علی بھٹو کا تعلق ہے نہ چاہتے ہوئے بھی انہیں حزب اختلاف کی جماعتوں سے مذاکرا ت شرو ع کرنا پڑے۔ یہاں ایسی کوئی چیز سرے سے نہیں۔ پی ڈی ایم شور مچا رہی ہے اور میڈیا اس شور کو بڑھا چڑھا کے پیش کررہا ہے لیکن نہ صحیح معنوں میں یہ تحریک ہے اور نہ اس میں گزرے زمانوں کی اُن دو تحاریک کا زور۔
تحریک چلانے کیلئے کوئی موضوع یا ایشو بھی ہونا چاہیے۔ ایوب خان کے دس سالہ اقتدار سے لوگ تنگ آ چکے تھے۔ نہ مہنگائی تھی نہ کوئی ظلم ہو رہا تھا بس لوگ ایوب خان کی حکومت کے چہروں سے تنگ آ چکے تھے۔ ایوب خان کا نظامِ حکومت ایسا تھا جس میں مڈل کلاس یا جنہیں ہم پروفیشنل طبقات کہتے ہیں‘ اُن کی کوئی آواز یا نمائندگی نہ تھی۔ چالیس ہزار لوکل کونسلرز مغربی پاکستان سے منتخب ہوتے تھے اورچالیس ہزار مشرقی پاکستان سے۔ یہ اَسی ہزار لوگ ہی قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں کو منتخب کرتے تھے اور صدارتی الیکشن میں بھی یہی اَسی ہزار کونسلرز ووٹ ڈال سکتے تھے۔ یہ ایک غیر منطقی نظامِ حکومت تھا اور اس کا زیادہ دیر چلنا ناممکن تھا۔ آخر کار عوامی فرسٹریشن اتنی بڑھی کہ تقریباً بغاوت کی شکل اختیار کر گئی۔
کچھ ایسی ہی صورتحال 1977ء میں بنی۔ بھٹو صاحب نے بہت زیادتیاں کیں لیکن پاپولر لیڈر بھی تھے۔ دو نمبر کے ہتھکنڈے نہ بھی استعمال کرتے تو بہ آسانی الیکشن جیت جاتے لیکن کچھ ایسے غیر ضروری اقدامات کئے گئے کہ دھاندلی کا تاثر پیدا ہوا‘ اور پاکستان نیشنل الائنس کی نو جماعتوں نے جب دھاندلی کا شور مچایا تو عوام کے بہت بڑے حصے نے ان الزامات کو صحیح سمجھا۔ بحران پیدا ہوا تو بھٹو صاحب اِس کا ادراک نہ کر سکے۔ اُن سے ضروری فیصلے بھی جلد نہ ہو سکے۔ بحران بڑھتا گیا اور بھٹو صاحب نے طاقت کے استعمال سے اُسے دبانا چاہا جس میں وہ بُری طرح ناکام ہوئے۔ مذاکرات دیر سے شروع ہوئے لیکن جب سلسلۂ مذاکرات شروع ہو بھی گیا تو بھٹو صاحب غیر ضروری طور پہ اُسے طول دیتے رہے۔ ایک اور بلنڈر اُن سے یہ ہوا کہ دورانِ مذاکرات مشرق وسطیٰ کے دورے پہ نکل پڑے‘ جس سے یہ تاثر اُبھرا کہ وہ مذاکرات میں سنجیدہ نہیں۔ غرضیکہ معاملات کو اتنا گھسیٹا گیا کہ پھر تیسری جانب سے مداخلت ہو گئی اور قوم کو جنرل ضیاء الحق کی گیارہ سالہ حکمرانی بھگتنا پڑی۔ وہ حکمرانی ایسی تھی جس کے اثرات پاکستان کی تقدیر کا حصہ بنتے گئے۔
پی ڈی ایم والوں سے پوچھا جائے کہ اب ایسا کون سا مسئلہ ہے جس کی بناء پہ عوام 1968ء اور 1977ء کی یادیں تازہ کر دیں گے؟ پی ڈی ایم تو ایک یرغمالی ٹولہ ہے جسے ایک طرف سے مریم نواز اور دوسری طرف سے مولانا فضل الرحمن نے یرغمال بنایا ہوا ہے۔ دونوں کا مسئلہ سمجھ میں آتا ہے۔ نواز شریف اور اُن کی دختر اپنی تکلیفوں کا موجب عمران خان کو سمجھتے ہیں۔ مولانا صاحب بھی دل جلے بیٹھے ہیں کیونکہ کے پی میں اِن کی جو سیاسی اجارہ داری ہوا کرتی تھی اُسے عمران خان نے آکے ختم کیا ہے۔ نواز شریف اور مولانا صاحب کا لہجہ ایسا ہو چکا ہے کہ گمان گزرتا ہے‘ عمران خان سے اُن کی دشمنی اب سیاسی سے زیادہ ذاتی نوعیت کی ہو گئی ہے۔ اِن کا بس چلے تو ہر وہ چیز کرنے کو تیار ہیں‘ جس سے عمران خان کا اقتدار ختم ہو‘ لیکن پوچھنے کی بات یہ بنتی ہے کہ اگر لڑائی آپ کی ذاتی نوعیت کی بن چکی ہے تو عوام آپ کا ساتھ کیوں دیں؟ دولت نواز شریف اور اُن کی فیملی نے بنائی۔ نیب کے مقدمات آپ کے خلاف ہیں۔ یہ کوئی ایشو بنتا ہے کہ ایسی بنیادوں پہ ایک زمین ہلا دینے والی عوامی تحریک بھڑک اُٹھے؟
اب اِن کی زبان پہ اسٹیبلشمنٹ کا لفظ آیا ہوا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے یہ کیا اور وہ کیا اور ہم پہ ایک 'سلیکٹڈ‘ کو ٹھونس دیا۔ پچھلے سال کے آخر میں توسیع کا بل آیا جس کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کا مفاد اُس سے جکڑا ہوا تھا۔ بل پیش ہوا تو آج جمہوریت کے نعرے لگانے والوں نے اس کمال کی تابعداری دکھائی کہ خود اسٹیبلشمنٹ والے حیران ہو کے رہ گئے ہوں گے۔ جمہوریت کے سرفروشوں نے سلیوٹ نہیں مارا‘ باقی سب کچھ کیا۔ آج قوم کو بتانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ ہم انقلابی اور مزاحمتی بن چکے ہیں۔ بیوقوف سے بیوقوف آدمی بھی دیکھ سکتا ہے کہ اُس تابعداری کا صلہ‘ جو جمہوریت کے سرفروش سمجھتے تھے اُن کا حق بنتا ہے‘ نہیں ملا۔ نیب مقدمات ختم نہیں ہوئے۔ اِس سے ہٹ کے اور لڑائی کیا ہے؟ لیکن قوم کو بیوقوف بنانے کی کوشش مسلسل کی جا رہی ہے۔