"AYA" (space) message & send to 7575

شاباش ‘ٹھیک جا رہے ہو!

پاکستانی قوم ایک بات دل میں سمو لے۔ غیروں سے مرعوب ہونے کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں۔ یہ فضول کی باتیں ہیں کہ فلاں ملک مریخ تک پہنچ گیا ہے اور وہاں کائنات کی تاریخ میں پہلی بار اُس ملک نے ایک چھوٹے سے ہیلی کاپٹر کی مختصر اُڑان بھی کر لی ہے۔ مریخ سے تازہ خبر یہ ہے کہ زمین پہ بیٹھے امریکی سائنسدانوں نے وہاں موجود کاربن ڈائی آکسائیڈ سے آکسیجن نکال لی ہے۔ ایسی چیزوں سے ہمیں کوئی پروا نہیں ہونی چاہئے۔ امریکہ اور دیگر ممالک نے جو کرنا ہے کریں۔ ہم نے اپنے راستے متعین کئے ہوئے ہیں اور ہم وہی کریں گے جو ہم ٹھیک سمجھتے ہیں۔
دیگر اقوام کو اس دنیا کی پڑی ہوئی ہے۔ ہمیں اس دنیا سے بس اتنا سروکار ہے کہ مال بنانے کے مواقع ہاتھ سے نہ جائیں۔ اس کے علاوہ ہماری فکر اگلے جہان کی ہے۔ جنہوں نے مریخ کے بارے میں اپنے سر کھپانے ہیں وہ ایسا کریں‘ ہمارے طور طریقے اور ہیں‘ ہماری سوچ اور ہے۔ احساسِ کمتری سے اب ہم کو نکلنا چاہئے۔ دنیا کچھ کہے اور ہمارے مزاج کے مطابق وہ چیز نہ ہو تو آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے ہمیں اپنے مؤقف پہ ڈٹے رہنا چاہئے۔ جو فرانس کے بارے میں ہمارا مؤقف ہے بالکل درست ہے۔ قومی حمیت نام کی کوئی چیز یہاں ہوتی تو اب تک ہم نے فرانسیسی سفیر کو نکال دیا ہوتا۔ مسئلے کو جو ہم قومی اسمبلی میں لے گئے ہیں یہ بھی درست اقدام ہے۔ بھرپور بحث ہونی چاہئے اور ہر ممبر کو بولنے کا موقع ملنا چاہئے تا کہ عقیدت کا بھرپور اظہار ہو سکے۔ مصلحتاً فرانسیسی سفیر کو نہ بھی نکالیں کم از کم اُس کی رسوائی میں کوئی کسر تو نہ چھوڑی جائے۔
فرانس کا کچھ اور علاج بھی ہے لیکن معلوم نہیں ایسا کرنے سے ہم کیوں کترا رہے ہیں۔ فرانس کے تیار کردہ جو طیارے ہمارے پاس ہیں وہ فوراً واپس کر دینے چاہئیں۔ ویسے بھی وہ کچھ پرانے ہو چکے ہیں اور اب تو جے ایف 17 تھنڈر اپنے عظیم دوست چین کی مدد سے ہم خود تیار کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ فرانس کا تیار کردہ جو دفاعی ساز و سامان ہم نے اپنی ضرورت کے تحت خرید رکھا ہے‘ وہ بھی اسے واپس کر دینا چاہئے۔ اس میں سے کچھ ساز و سامان اُسے واپس کرنا تھوڑا مشکل ہو گا کیونکہ اُن کا متبادل فوری طور پہ شاید ہم نہ ڈھونڈ سکیں۔ پھر بھی اس بات پہ غور ضرور ہونا چاہئے کہ یہ سب کچھ کسی طریقے سے ہم فرانس کے منہ پہ دے ماریں۔ یہ ڈرپوکی کی باتیں ہیں کہ فرانس کے ساتھ ہم کچھ کریں تو پوری یورپی یونین ہمارے خلاف ہو جائے گی۔ خلاف ہوتی ہے تو ہو جائے۔ قومی حمیت کا جذبہ ہر چیز پہ مقدم ہونا چاہئے۔ اور ویسے بھی ہمارے پڑوس میں طالبان نے ثابت کر دکھایا ہے کہ ایمان مضبوط ہو تو ہر چیز ممکن ہے۔ پاکستان میں کئی طبقاتِ فکر موجود ہیں جو سمجھتے ہیں کہ ہمیں طالبان کی راہوں کو اپنانا چاہئے۔ بس اب یہ کرنے کو رہ گیا ہے۔ اس نکتے پہ ضرور غور ہونا چاہئے کہ طالبان کی طرز کی حکومت یہاں پہ بھی قائم ہو۔ ویسے بھی جیسا کہ وزیر اعظم صاحب خود فرما چکے ہیں معاشرے میں بہت بے راہ روی ہے اور عورتوں کے بے احتیاط لباس سے معاشرے میں بہت مسائل پیدا ہو جاتے ہیں۔ بڑے شہروں میں جس قسم کے خواتین کے ملبوسات اکثر دیکھنے میں آتے ہیں اُن سے جذبات کا بھڑکنا لازم ہے اور ایسے میں ظاہر ہے مرد حضرات احتیاط کی راہ سے تھوڑا پھسل جائیں تو اُن کی غلطی سے زیادہ ماحول کی غلطی بنتی ہے۔ لیکن پاکستان میں زبانی جمع خرچ سے بات سمجھی نہیں جاتی۔ یہاں طالبان طرز کی حکومت ہو تب ہی خواتین کی آبادی کو درست راستے پہ لایا جا سکتا ہے۔ لاتوں کے بھوت والا محاورہ صرف مردوں پہ فٹ نہیں ہوتا‘ اس کا اطلاق خواتین پہ بھی بنتا ہے۔
نظریہ پاکستان کیا ہے‘ اب یہ بحث ختم ہونی چاہئے۔ اب نظریہ پاکستان کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان وہ کرے جو اُس کی سمجھ میں آئے۔ اگر عوام الناس اور علمائے کرام اس نتیجے پہ پہنچتے ہیں کہ فرانسیسی سفیر کو یہاں سے نکالنا چاہئے تو اس زمرے میں یہی نظریہ پاکستان ٹھہرتا ہے۔ ملت کی پاسبانی آسان چیز نہیں۔ اور پاسبانی اسی میں ہے کہ نظریہ ٹھیک رہے۔ اسی حوالے سے جغرافیائی سرحدوں سے زیادہ اہمیت نظریاتی سرحدوں کی ہے۔ یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ قائدِ اعظم اور ان کے رفقاء نے پاکستان کو صرف بنایا‘ وہ پاکستان کو وجود میں لائے‘ نظریاتی سرحدوں کا تعین قائدِ اعظم اور ان کے ساتھی صحیح طریقے سے نہ کر سکے‘ یہ تعین کسی شخص نے صحیح انداز سے کیا تو وہ جنرل ضیاء الحق تھے۔ اللہ کا لاکھ شکر کہ جنرل موصوف کا ورثہ نہ ضائع ہوا ہے نہ برباد۔ کئی اعتبار سے وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ بنیادی سوچ جو اُن کی تھی زیادہ پختہ ہوئی ہے۔ یہ بھی شکر کا مقام ہے کہ جن راہوں پہ پاکستان چل رہا ہے کوئی مائی کا لعل انہیں تبدیل نہیں کر سکتا۔ دنیا یہ بھی سمجھ لے کہ ہمارے جذبات سے کھیلا گیا تو آگ کہیں اور بھڑکے نہ بھڑکے ہماری دھرتی پہ ضرور بھڑکے گی۔ ہماری قومی غیرت کو للکارا جائے تو دنیا کو ہمارے غیظ و غضب کا اندازہ ہو چکا ہے۔
یہ بھی نہایت حوصلہ افزا بات ہے کہ وزیر اعظم صاحب دنیا کے سامنے مذہبی فضائل بیان کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ وہ روح پرور مناظر سب نے دیکھے جب وزیر اعظم نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں کھڑے ہو کے بغیر کسی ہچکچاہٹ کے ہمارے خیال کی نزاکتوں کا خوبصورت انداز میں اظہار کیا۔ دنیا پہ کچھ اثر پڑا نہ پڑا ہر ذی شعور مجاہدِ ملت کا لہو گرم ہو گیا۔ وزیرِ اعظم یہ ارادہ بھی رکھتے ہیں کہ تمام مسلم ممالک کو یعنی اُمہ کو‘ حساس معاملات کے حوالے سے ایک پلیٹ فارم پہ لایا جائے۔ وہ لوگ کمزوری کی باتیں کرتے ہیں جو کہتے ہیں کہ ہمیں پہلے اپنا گھر درست کرنا چاہئے۔ یقینا اس بات میں کچھ وزن ہے لیکن زیادہ اہمیت کا حامل یہ نکتہ ہے کہ ایمان کی صفیں درست ہوں تو باقی سب ٹھیک ہو جاتا ہے۔ اور یہ تو مسلمانوں کا کیا عیسائیوں کا بھی قول ہے کہ ایمان ہو تو پہاڑ بھی اپنی جگہ سے ہل جاتے ہیں۔
یہ خوش آئند بات ہے کہ آج کے پاکستان میں نہ فیض موجود ہیں نہ حبیب جالب اور منیر نیازی۔ گزرے وقتوں میں ایسے لوگوں کی ضرورت ہو گی‘ آج کے پاکستان میں ان جیسوں کی نہ ضرورت ہے نہ گنجائش۔ آج کے ایمان پرور مناظر دیکھ کے یہ یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ فیض اور حبیب جالب زندہ ہوتے تو ببانگ دہل شاعری کو خیر باد کہہ چکے ہوتے‘ اور یہ اعلان بھی کرتے کہ پاکستان جن ارتقا کی منزلوں پہ پہنچ چکا ہے‘ ایسے میں ہماری شاعری کی کوئی ضرورت نہیں رہی۔ یہ درست ہے کہ کسی حد تک ان اصحاب کی شاعری سے ہماری عمر کے لوگ محظوظ ہوتے آئے ہیں لیکن وقت وقت کی بات ہوتی ہے۔ جو لباس ایک وقت میں جچتا ہے ضروری نہیں کہ فیشن کے ہر مراحل میں اچھا لگے۔ یہی بات خیالات و افکار کی دنیا پہ بھی فٹ بیٹھتی ہے۔ فیض اور جالب کا زمانہ نہ صرف گیا بلکہ فنا ہو گیا۔ یہ نیا دور ہے اور اس کے تقاضے بھی نئے ہیں۔
ایک چیز کی کمی رہ گئی ہے کہ افغانستان میں پھر سے طالبان برسرِ اقتدار آئیں۔ وہاں اُن کی حکمرانی کا پرچم پھر بلند ہو اور پھر دیکھئے یہاں صاحبانِ اخلاقیات کے حوصلے کیسے بلند ہوتے ہیں۔ وہاں طالبان ہوں گے یہاں ہم۔ بات تو تب بنے گی۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں