مائنس ون اُس سیاسی فارمولے کا نام ہے جس کے تحت عندیہ دیا جاتا تھا کہ نواز شریف کو نکال دیں تو ن لیگ سے معاملات طے ہو سکتے ہیں۔ ایسی کسی ترکیب کی طرف اشارہ دیا جاتا تو ن لیگ والے چلا اُٹھتے کہ ایسا ناممکن ہے۔ کہا جاتا کہ ن لیگ کا مطلب ہی نواز شریف ہے اور نواز شریف کے بغیر ن لیگ کے ساتھ کچھ بھی نہیں ہو سکتا۔ یہ تو بیتے دنوں کی باتیں ہیں‘ نہیں تو کچھ اعلان کئے بغیر مائنس وَن فارمولا عمل میں آ چکا ہے۔ اپنی مرضی سے نوازشریف ملک سے باہر ہیں اور واپس آ بھی نہیں سکتے کیونکہ سزا یافتہ ہوتے ہوئے ضمانت پہ رہا ہیں اور یہ اُن کی اپنی مرضی سے ہوا ہے کہ وہ ملک سے باہر ہیں۔ البتہ نون لیگ قائم و دائم ہے، سیاست کا حصہ ہے اور آئندہ جا کے بھی ملکی سیاست میں اپنا حصہ ڈالے گی۔ فرق صرف اِتنا ہے کہ عملاً قیادت دیگر ہاتھوں میں منتقل ہو رہی ہے۔
زبردستی کرنے سے ایسا کبھی نہ ہو سکتا لیکن نوازشریف جیل کی تاب نہ لا سکے اور اُنہوں نے عافیت اِسی میں سمجھی کہ صحت کا عذر بنا کے ملک سے چلے جائیں۔ اداکاری ایسے کی گئی کہ یہ تاثر ابھرا کہ قائدِ محترم کی جان خطرے میں ہے۔ یہ عین ممکن ہے کہ مقتدرہ والے جانتے ہوں کے صحت کا مسئلہ اصل میں کیا ہے لیکن عمران خان کی حکومت اِس بہکاوے میں آگئی کہ اگر نوازشریف کو باہر جانے نہ دیا گیا تو ان کی صحت کی ذمہ داری اُن پہ آن پڑے گی لہٰذا نوازشریف صاحب کو اجازت مل گئی کہ علاج کی خاطر وہ ملک سے باہر جائیں۔ ضمانتی اُن کے شہباز شریف ٹھہرے کہ اِتنی مدت میں واپس ضرور آ جائیں گے لیکن وہ ضمانت بھی کیا جو وفا ہو جائے۔ وہ دن اور یہ دن نوازشریف لندن کے موسم سے لطف اندوز ہو رہے ہیں لیکن اُن کی غیر موجودگی میں بہت سا پانی دریاؤں میں بہہ چکا ہے اور کچھ نئی حقیقتیں سامنے نظر آنے لگی ہیں۔
نواز شریف کے ہوتے ہوئے یوں لگ رہا تھا کہ پارٹی کی آئندہ قیادت مریم صفدر نواز کے ہاتھوں میں جائے گی۔ ساتھ ہی یہ تاثر بھی گہرا ہو رہا تھا کہ نواز شریف کی رہبری میں ن لیگ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف کھڑی رہے گی۔ یہ لائن وہ تھی جسے نون لیگ کے بینڈ باجے والے مزاحمتی بیانیہ کہتے ہیں۔ اِس مزاحمتی بیانیہ کا اہم جز اسٹیبلشمنٹ کو برے لفظوں میں یاد کرنا تھا۔ مریم نوازکے اردگرد کے لوگ اِس بیانیہ کے جوش میں بہہ گئے لیکن پارٹی کے منجھے ہوئے لیڈروں کیلئے ایسی باتیں فکر و تشویش کا باعث تھیں۔ ن لیگ ایک اقتدار والی پارٹی ہے، اُس کے مزاج میں ہی نہیں کہ اسٹیبلشمنٹ سے ٹکر لے۔ ویسے بھی جسے ہم اسٹیبلشمنٹ کہتے ہیں اُس کی حقیقت کیا ہے؟ اسٹیبلشمنٹ کی بھاری اکثریت کا تعلق صوبہ پنجاب سے ہے۔ اور یہاں نواز شریف پنجاب کے ایک اہم لیڈر ہوتے ہوئے مقتدر قوتوں کے خلاف دشنام طرازی کرنے میں لگے ہوئے تھے۔ نوازشریف کے سینے میں سلگتے ارمان ہوں گے جن کی وجہ سے وہ ایسی زبان استعمال کر رہے تھے لیکن جیسے اوپر عرض کیا ن لیگ کے بنیادی مزاج کے خلاف ایسی باتیں تھیں۔
لیکن نہ ن لیگ کے منجھے لیڈروں نہ مقتدر لوگوں کو سمجھ آ رہی تھی کہ اندریں حالات کیا کیا جائے۔ اِس مشکل کا حل بظاہر نظر نہیں آتا تھا لیکن تمام اطراف نواز شریف نے خود ہی آسانیاں پیدا کر دیں۔ جب ملک سے باہر گئے تو تب لگ رہا تھا کہ ایک بار پھر سیانے نکلے ہیں اور مشکل سے بچنے کی صورت نکال لی ہے۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ اب معلوم ہو رہا ہے کہ تلاشِ آسائش اُن کیلئے ایک سیاسی بَلنڈر ثابت ہو رہا ہے۔ کسی نے اعلان نہیں کیا لیکن ملک میں ن لیگ کی قیادت عملاً شہباز شریف کے ہاتھوں میں چلی گئی ہے۔ سیاست میں کہاں خلا قائم رہ سکتا ہے؟ خلا ہو تو پُر ہو جاتا ہے اور یہی ن لیگ کے ساتھ ہو رہا ہے۔ قائد محترم نوازشریف ہی ہیں۔ بظاہر حکم اُنہی کا چلتا ہے لیکن جب میدانِ جنگ سے سالار دور ہو جائے تو حالات کی ضرورت ایسے آن پڑتی ہے کہ حکم کسی اور کا چلنے لگتا ہے۔
نوازشریف نے ایک قید سے جان چھڑا کے ایک اور قید کا انتخاب کیا ہے۔ اِس دوسری قید کی وجہ سے وہ پاکستان واپس نہیں آ سکتے۔ آتے ہیں تو کوٹ لکھپت جیل اُن کی منتظر ہو گی۔ ویسے بھی سزایافتہ ہوتے ہوئے وہ اگلے الیکشنوں کیلئے نااہل ہیں۔ مریم صفدر بھی سزا یافتہ ہیں اور ضمانت پہ رہا ہیں۔ کسی کو جلدی نہیں کہ اُن کی ضمانت منسوخ ہو اور وہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے پھر سے جائیں لیکن سزا یافتہ ہوتے ہوئے وہ بھی اگلے انتخابات کیلئے نااہل ہیں۔ میدان تو موجود ہے لیکن گھوڑے پہ سوار شہباز شریف ہیں۔ جب کوٹ لکھپت جیل سے نکل کر ہوائی جہاز کی سیڑھیوں پہ چڑھ رہے تھے تو نواز شریف کو شاید اندازہ نہ ہو کہ کچھ عرصے بعد ایسے ڈرامائی حالات پیداہوں گے لیکن ایسا ہوا ہے۔ شاید نوازشریف سمجھتے ہوں کہ ایک بار پھر وہ عقل مند ثابت ہوئے ہیں لیکن جسے انگریزی اصطلاح میں آخری ہنسی (last laugh) کہتے ہیں وہ اسٹیبلشمنٹ کی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کی دلی خواہش پوری ہو گئی ہے۔ مائنس وَن فارمولا کسی باقاعدہ معاہدے کے بغیرعمل میں آگیا ہے اور یہ کرشمہ نوازشریف نے خود کر دکھایا ہے۔
اسٹیبلشمنٹ خوش، ن لیگ کے منجھے ہوئے لیڈر خوش، سیاسی ٹمپریچر نیچے آگیا ہے، اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم ختم ہوگیا ہے، اگلے الیکشن کی باتیں ہو رہی ہیں اور شہباز شریف وزیراعظم کی چال چلنے کا ڈھنگ سیکھ رہے ہیں۔ صفِ ماتم بچھتی جا رہی ہے تو مریم نواز کے بیانیہ کیمپ میں۔ اُس کیمپ کے چہروں پہ افسردگی کے آثار صاف نظر آنے لگے ہیں۔ یہ لوگ سمجھتے تھے کہ ن لیگ کا مستقبل اُن کا ہے لیکن ذہنوں میں اب خیال اُٹھ رہا ہے کہ کھیل اُن کے ہاتھوں سے نکل رہا ہے۔ نواز شریف کے ملک میں ہوتے ہوئے پارٹی کی قیادت کبھی بھی شہباز شریف کے پاس نہ جاتی۔ نواز شریف کی ترجیح اُن کی بیٹی تھیں لیکن جو حالات نوازشریف نے خود پیدا کئے اُن کی وجہ سے پارٹی قیادت کا مسئلہ حل ہوتا ہوا نظر آتا ہے۔ کسی نے فیصلہ نہیں کیا لیکن حالات کا جبر ایسا ہے کہ مریم نواز پیچھے چلی گئی ہیں اور پارٹی کو لیڈ شہباز شریف کررہے ہیں۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ پارٹی کے امام خمینی نوازشریف ہی رہیں گے۔ نعرے اُن کے لگیں گے، تصویر اُن کی اٹھائی جائے گی، وفاداری کے دعوے اُن سے کئے جائیں گے لیکن اِس ساری فضا کا فائدہ شہباز شریف اُٹھا رہے ہوں گے۔ انتخابی مہم بھی نواز شریف کے نام پہ چلے گی لیکن منزلِ اقتدار کی طرف قدم اوروں کے بڑھ رہے ہوں گے۔
نعرے آپ کے لگ رہے ہوں اور فائدے کوئی اور سمیٹ رہا ہوتو ایسے میں کچھ کہنا مشکل ہوتا ہے۔ آپ صرف دانت پیس سکتے ہیں اور آپ کی آنکھوں میں ایک دور کی نظر آجاتی ہے۔ یہی کچھ ن لیگ میں ہونے چلا ہے۔ جنرل مشر ف کے دور میں ایک ایسا وقت آیا تھا جب خبریں گردش کرنے لگیں کہ شہبازشریف کی سوچ اپنے بڑے بھائی سے ذرا مختلف ہے۔ اِن خبروں کے مطابق شہباز شریف چاہتے تھے کہ کوئی راستہ ڈھونڈا جائے جس سے کچھ معاملات طے ہو سکیں‘ اور نوازشریف کے ہوتے ہوئے کوئی ایسی کاوش کامیاب نہیں ہو سکتی تھی لیکن اب کی صورت حال مختلف ہے اور یہ صورتحال بنانے والا کوئی دشمن نہیں بلکہ نواز شریف خود ہیں۔ انسان چلتا کن ارادوں سے ہے اور پہنچ کہاں جاتا ہے۔