"AYA" (space) message & send to 7575

ایسے میں ایسا ہی ہوتا ہے

جیسا معاشرہ ویسی قومی اسمبلی۔ ممبرانِ اسمبلی مریخ سے تو نہیں آئے ہوتے ہم میں سے ہی ہوتے ہیں۔ جو روشیں معاشرے میں ہیں وہی اُن میں پائی جائیں گی۔ وہ اگر ہلڑ بازی اور گالم گلوچ پہ اُتر آتے ہیں تو اِس میں اتنی حیرانی کی کیا بات ہے؟ پڑھے ہوئے یہیں سے، سیاست بھی اُنہوں نے یہیں کی۔ کاروبار میں اگر اُن میں سے کوئی ہیں تو وہ بھی اُنہوں نے یہاں کیا لہٰذا کون سی چیز ہے جو اُنہیں ایوان میں پہنچتے ہی مختلف بنا دے؟
میں زیادہ منفی نہیں ہونا چاہتا لیکن یہ منفی کی باتیں نہیں حقیقت کی ہیں۔ جہاں تھانے اِس انداز میں چل رہے ہوں کہ تھپڑ پہلے پڑے اور بات بعد میں ہو، جہاں محکمہ مال کے معمولی سے معمولی کام کیلئے پٹواری، گرداور یا تحصیلدار کے ہاتھ رنگنے پڑیں، جہاں کوئی محکمہ بھی رشوت کے بغیر نہ چل سکتا ہو وہاں یہ فضول کی تکرار نہیں کہ ممبرانِ اسمبلی مختلف معیار کے ہونے چاہئیں؟ پارلیمانی جمہوریت یا کسی بھی قسم کی جمہوریت ہماری ایجاد نہیں۔ ہمیں جمہوریت کا سارا سامان اور فلسفہ ورثے میں انگریزوں سے ملا۔ جمہوریت اور نمائندہ حکومت کی باتیں اُنہوں نے کیں۔ انڈین نیشنل کانگریس کی بنیاد اُنہوں نے ڈالی۔ پہلے الیکشن اُنہوں نے کرائے۔ لوکل حکومتوں کا تصور اُنہوں نے دیا۔ آزادی سے پہلے ہمارے تمام بڑے لیڈران‘ چاہے ہندوؤں کے ہوں یا مسلمانوں کے‘ نے تعلیم انگلستان میں حاصل کی۔ ہمارے لیڈروں کی سیاسی سوچ ایک ایسے ماحول میں پختہ ہوئی جو انگریزوں کا تیارکردہ تھا۔ گاندھی جی نے بار ایٹ لاء وہاں سے کیا۔ جناح صاحب نے بھی بار ایٹ لاء انگلستان میں کیا۔ پنڈت نہرو وہاں کے پڑھے ہوئے تھے۔ اِن لیڈروں کی سوچ پہ انگریزی تعلیم اور روایت کا گہرا اثر تھا۔ آزادی کے بعد شروع کے سالوں میں ایسے لیڈروں کا اپنی اپنی قومی سیاست پہ اثر رہا تو سیاست کا نکھار بھی مختلف قسم کا تھا۔ جوں جوں وہ پہلا اثر جاتا رہا اور ہمارا اپنا دیسی مزاج سامنے آنے لگا تو سیاست کے رنگ بھی بدلتے گئے۔ یہی کچھ ہندوستان میں ہوا ہے۔ کہاں جواہر لعل نہرو کی سوچ اور سیاست اور کہاں نریندر مودی کی سوچ اور سیاست۔ اور یہی کچھ ہم نے پاکستان میں دیکھا۔
سیاست کا معیار یہاں اونچا نہیں ہوا بتدریج گرتا ہی گیا۔ جنرل ایوب خان کے زمانے میں اسمبلیوں میں اپوزیشن ممبران کی تعداد بہت قلیل ہوا کرتی تھی لیکن پارلیمانی ایوانوں میں تقریریں بہت اعلیٰ پائے کی سننے کو ملتی تھیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کے زمانے میں بھی اپوزیشن ممبران کی تعداد قومی اسمبلی میں تھوڑی تھی لیکن اُن میں اعلیٰ پائے کے لیڈر تھے اور اُس زمانے میں بھی گو سیاسی تناؤ عروج پہ تھا تقریریں وغیرہ بہت اچھی ہوا کرتی تھیں۔ 1985ء کی قومی اسمبلی کا معیار اِتنا برا نہ تھا۔ خرابی تب بنی جب جمہوریت اپنے جوبن پہ آئی اور سیاسی ٹکراؤ کے نئے انداز سامنے آنے لگے۔ نواز شریف وغیرہ اُس دور کی آمریت کے پروردہ تھے۔ اِن لوگوں کا ایک اپنا انداز تھا اور پیچھے سے اِن کو تھپکی ملتی تھی کہ بے نظیر بھٹو کی حکومت کو نہیں چلنے دینا۔ قومی اسمبلی میں اُودھم مچا رہتا تھا۔ گفتگو کا لیول نیچے آ گیا اور قومی افق کے ایک طرف بے نظیر بھٹو کی وفاقی حکومت تھی اور دوسری طرف نواز شریف کی پنجاب حکومت۔ وہ دن اور آج کا دن ہماری سیاست کا معیار نیچے کی طرف ہی آتا رہا ہے۔
پھر ایک اور بات ہے کہ سیاست محض سیاست نہیں رہی۔ اِس میں پیسے کا عمل دخل بہت ہو گیا ہے۔ اب تو سیاست کا نظریہ نام کی چیز سے دور کا واسطہ بھی نہیں رہا۔ سیاست اب ذریعۂ کاروبار بن چکی ہے۔ سیاست میں کچھ مقام آپ نے حاصل کیا تو دولت کمانے کے راستے آپ کیلئے آسان ہو گئے۔ اِس روِش نے بھی جڑ پکڑی جنرل ضیاء الحق کے دور میں۔ سیاست دان وہی بڑا سمجھا جانے لگا جس نے ایک یا ایک سے زائد انڈسٹری لگائی۔ اِسی تناظر میں اِس ماجرے نے جنم لیا کہ جس بڑے سیاستدان کو دیکھیں شوگر مل کا مالک ہے۔ نونیئے، پیپلئے اور تحریکئے سب کے سب شوگر مل مالکان میں شامل۔ ایسے میں کون سی یہاں پہ سیاست ہونی ہے۔ وہی ہونا ہے جو ہم نے قومی اسمبلی میں سنا اور دیکھا ہے۔
ہمارے معاشرتی طور طریقے مختلف قسم کے ہیں۔ ٹرکوں کے اڈوں پہ جب لین دین کی باتیں ہوتی ہیں اور اِس سلسلے میں کوئی پنچایت بیٹھتی ہے تو کوئی گالم گلوچ نہیں ہوتی۔ سب کچھ زبانی کلامی ہوتا ہے لیکن عموماً صلح صفائی کے ماحول میں معاملات طے پاتے ہیں۔ باہر سے کوئی مہمان آیا ہو اُس کی خاطر تواضع کی جاتی ہے۔ ایک خاص ماحول میں باتیں ہوتی ہیں اور کسی صلح پہ پہنچنے کی کوشش ہوتی ہے۔ اب تک بھی تمام تر ماڈرنائزیشن اور انڈسٹریلائزیشن کے باوجود ہمارا ایک دیہاتی اور نیم قبائلی معاشرہ ہے۔ پنجاب اور اندرونِ سندھ میں آپ دیکھ لیں ہماری سیاست کا مزاج اب بھی دیہاتی ہے۔ جمہوریت کی نزاکتوں میں جب ہم جاتے ہیں‘ اُس کا ڈھنگ ہمیں صحیح طور پہ سمجھ نہیں آتا۔ پھر ہم وہی کرتے ہیں جو ہمارے خمیر اور مزاج کے مطابق ہوتا ہے۔
میں یہ تو نہیں کہوں گا کہ جمہوریت کی نزاکتیں ہمارے مزاج کے خلاف ہیں۔ ایسی زبان ہمارے آمروں کی زبان رہی ہے۔ جنرل ایوب خان کہاکرتے تھے کہ جمہوریت ہمارے ٹیمپرامنٹ(temperament) کو سوٹ نہیں کرتی۔ یہی سوچ جنرل ضیاء الحق کی تھی۔ ہمارے جمہوری وزیر اعظم آتے ہیں وہ بھی یا صدر بننا چاہتے ہیں یا نواز شریف کی طرح امیرالمومنین بننے کی خواہش رکھتے ہیں۔ لیکن ایک چیز ضرور ہے کہ ہمارا معاشرہ ارتقا کے اِس مرحلے میں پھنسا ہوا ہے جہاں کوئی چیز چلتی ہے تو وہ ڈنڈا ہے۔ ڈنڈے کے ہم لوگ ہیں۔ اوپر سے جبر ہو تو سیدھا کھڑے ہو جاتے ہیں نہیں تو ہمارے مزاج کا شرر پن نمایاں ہو جاتا ہے۔ طالب علم ہوں، سیاست دان ہوں، عام آدمی ہو، نصیحت و وعظ کرنے والے ہوں، سیدھا چلتے تب ہی ہیں جب ڈنڈے کا ڈر ہو‘ یعنی سیاست بھی ہماری تب کارگر ثابت ہوتی ہے جب اُس میں تھانے داری کا کچھ عنصر شامل ہو۔
لہٰذا شاید اِس سوچ و بچار کی ضرور ت ہو کہ یہاں بھی نیم ڈنڈے قسم کا نظام رائج ہونا چاہئے‘ جس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ جمہوریت کے بستر کو گول کیا جائے لیکن اِتنا ضرور ہے کہ شاید فرانس جیسا نظام ہمارے لئے زیادہ بہتر ہو جہاں ایک طاقتور صدر امورِ مملکت چلاتا ہے اور روزمرہ کی حکمرانی قومی اسمبلی، وزیر اعظم اور کابینہ کے سپرد ہوتی ہے۔ پارلیمانی جمہوریت ہم نے کافی عرصہ چلائی ہے اور ہم سے صحیح طرح چلی نہیں۔ آمروں کو بھی ہم نے دیکھ لیا۔ کامیاب آمریت چلانے کے لئے بھی ایک خاص قابلیت اور صلاحیت چاہئے ہوتی ہے جو ہمارا تجربہ بتاتا ہے ہم میں نہیں۔
لیکن پرابلم یہاں یہ ہے کہ اگر ایک نیا نظام لانا ہو تو کون لائے گا۔ سویلین حکمران ہمارے کمزور ہوتے ہیں۔ وہ لاکھ مجبوریوں کا شکار رہتے ہیں۔ عمران خان کے بس کی بات نہیں کہ کوئی نئے تجربے کی طرف قدم اٹھائے۔ رہ جاتے ہیں بڑے چوکیدار لیکن اُن کا مسئلہ یہ ہے کہ جب چوکیداری کی طرف چلتے ہیں تو اُن کے دل میں آرزو پھوٹتی ہے کہ وہی چوکیدار رہیں اور کوئی اور دربان نہ ہو۔ اِس سوچ سے اور مشکلات پیدا ہوتی ہیں۔ یہ درست ہے کہ طیب اردوان نے ایسا کامیاب تجربہ ترکی میں کیا ہے لیکن، آرزوؤں کی دنیا ایک طرف، ہر ایک کوئی ایسا کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں