منی لانڈرنگ کے مقدمے میں ایف آئی اے شہبازشریف کو بلاتی ہے اور اُن سے کچھ سوالات کئے جاتے ہیں۔ شہبازشریف جواب دیتے ہیں کہ اُنہیں کچھ معلوم نہیں۔ یعنی اُن کا دفاع بے خبری ہے۔ اُن کے بیٹے حمزہ شہباز کی پیشی ایف آئی اے کے سامنے ہوتی ہے اور حمزہ شہباز کا دفاع بھی بے خبری ہے۔ اُن سے پوچھا جاتا ہے کہ رمضان شوگر مل کے نچلی سطح کے اہلکاروں کے بینک اکاؤنٹس میں بھاری رقوم جمع کرائی جاتی ہیں۔ رقوم لاکھوں یا کروڑوں میں نہیں اربوں میں ہیں۔ حمزہ شہباز جواب دیتے ہیں کہ اُنہیں کچھ معلوم نہیں۔ وہ رمضان شوگر مل کے چیف ایگزیکٹو آفیسر تھے لیکن اِن جمع کرائی ہوئی رقوم کا اُنہیں کچھ پتا نہیں۔ شہباز شریف ایف آئی اے دفتر میں پیشی کیلئے آتے ہیں تو لاؤ لشکر کے ساتھ۔ حمزہ شہباز آتے ہیں تو اُن کے ساتھ بھی ایک ہجوم ہوتا ہے۔
ملزم کا نام شہباز شریف یا حمزہ شہباز نہ ہوتا تو ایف آئی اے کا سلوک کیا رہتا؟ پہلے تو دو تین تھپڑ لگتے اور پھر بھی بضد رہتا تو الٹا ٹانگنے میں کوئی تامل محسوس نہ ہوتا۔ الزام کیا ماننے تھے، نہ کردہ گناہوں کا اقراربھی کرلیا جاتا۔ اسلام کے نام پہ بنی مملکت میں ہر چیز کا دوہرا معیار ہے۔ ظاہراً تو قانون ایک ہے اور ہر ایک کیلئے وہی ہے لیکن جب اس کا اطلاق ہوتا ہے تو اپنانے کے انداز ملزم کی حیثیت کے مطابق ہوتے ہیں۔ شریفوں کے خلاف مقدمات کیا ہیں ختم ہونے کا نام نہیں لے رہے۔ نوازشریف اور مریم نواز کو سزائیں ضرور سنائی گئی ہیں لیکن ان فیصلوں کا تناظر کچھ اور ہے۔ شہباز شریف اور حمزہ شہباز کے خلا ف مقدمات کسی نتیجے پہ پہنچ ہی نہیں پا رہے۔ سندھ کے مشہورِ زمانہ کردار عزیر بلوچ کے خلاف الزامات کی اتنی لمبی فہرست ہے کہ درج کرنے کیلئے پورا ایک کتابچہ چاہئے۔ اُس کے خلاف بھی مقدمہ چلتا ہی جا رہا ہے۔ وہ نام بھی لے رہا ہے کہ میں جو مال اکٹھا کرتا اُس میں کچھ حصہ پولیس کو جاتا اور کچھ سیاسی رہبر و رہنماؤں کے حصے میں آتا۔ فریال تالپور کا نام بھی اِس سلسلے میں لیا جا رہا ہے لیکن فیصلے کی طرف مقدمہ ابھی تک نہیں پہنچ رہا۔ وہ صرف اِس لیے کہ بڑے ناموں کا ذکر اِس مقدمے اور اِس کی تفتیش میں سامنے آئے ہیں۔ اور پاکستان کی قانون کی کتاب میں جب بڑے نام آئیں تو قانون کے پہیے رک جاتے ہیں۔ جتنا بھی اُن میں تیل ڈالیں‘ پھر نہیں چلتے۔
یہ اور چیز ہے کہ کسی بڑے نام کے ساتھ سیاسی ضرورت یا مجبوری بن جائے۔ پھر سب رکاوٹیں دور ہوجاتی ہیں اور کارروائی آنکھ جھپکنے میں فیصلے کی طرف دوڑی جاتی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف قتل کے مقدمہ میں اُن پہ جو الزام لگا وہ کسی اور شخص پہ لگتا تو سزائے موت کا فیصلہ کبھی صادر نہ ہوتا۔ اُن پہ الزام یہ نہیں تھا کہ قتل میں استعمال ہونے والے ہتھیار اُنہوں نے اپنے ہاتھ سے چلائے۔ الزام صرف مشورے کا تھا‘ لیکن نام چونکہ ذوالفقار علی بھٹو تھا اور وہ اقتدار سے محروم ہوچکے تھے تو قانون کے پہیے ایسے چلے کہ دنیا حیران رہ گئی۔ نوازشریف کے بہت گناہ ہوں گے لیکن جس بنا پہ اُنہیں اقتدار سے نکالا گیا اُس کی تفصیل پڑھیں تو ہنسی آجاتی ہے۔ بہت سے الزامات میں سے جو الزام اُن کیلئے مہلک ثابت ہوا وہ یہ تھا کہ اُن کے پاس متحدہ امارات کا اقامہ یا ورک پرمٹ تھا۔ بعد میں سزائیں اُنہیں لندن کے فلیٹوں کے حوالے سے سنائی گئیں‘ جس کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ الزامات یہاں کچھ زیادہ معنی نہیں رکھتے۔ الزامات تب قاتل ثابت ہوتے ہیں جب آپ سیاسی طور پر کھٹکنے لگیں۔ اُس وقت کے حکمرانوں کو بھٹو کھٹکتے تھے۔ آج کے زمانے میں شاید سیاسی ضرورت بن گئی تھی کہ نوازشریف کو ٹھکانے لگایا جائے۔
شہبازشریف اور حمزہ شہباز کے خلاف منی لانڈرنگ کے الزامات بڑے سخت ہیں ۔ لیکن شاید وہ سیاسی اعتبار سے کھٹکتے نہیں۔ اِس لیے انصاف اور قانون کے تمام گھوڑے سست پڑے ہوئے ہیں۔نتائج اُن کے مقدمات میں نکل ہی نہیں رہے۔ذوالفقار علی بھٹو جب پیش ہوتے تو اُن کے ساتھ کسی لاؤ لشکر کے آنے کی اجازت نہ ہوتی۔ لیکن شہبازشریف اوراُن کے فرزند ارجمند پوری تیاری کے ساتھ نیب یا ایف آئی اے کے سامنے پیش ہوتے ہیں تو ٹریفک جام ہو جاتی ہے، ہلڑ بازی ہوتی ہے۔ سب حرکات کی اجازت ہے کیونکہ سیاسی طور پہ باپ بیٹا کھٹکتے نہیں۔ اُن کی لائن مصالحانہ ہے ۔ حکمرانوں کو آنکھیں نہیں دکھا رہے ۔ سیاست میں صلح و امن کی بات کررہے ہیں۔ اِس لیے تمام تر الزامات کے باوجود اُن کی پیشیاں تو ضرور ہو رہی ہیں لیکن اُن میں سے کچھ نکل نہیں رہا۔
ایف آئی اے کا ایک قصہ میں بھی سنا دوں۔ کچھ برس ہوئے ہمارے ایک رشتہ دار تھے جو اپنے ایک پڑوسی سے سخت تنگ تھے ۔ پڑوسی سیشن جج صاحب کا چپڑاسی لگا ہوا تھا ۔ آئے روز ہمارے رشتہ دار کے خلاف کوئی سول دعوی دائر کردیتا تھا۔ رشتہ دار ہمارا رہتا تھا انگلینڈ میں ۔ وہ وہاں سے کہاں اِن کیسوں کی پیروی کرتا ۔ انگلینڈ سے چھٹی آئے تو میرے سامنے تقریباً روپڑے کہ اِس انسان نے ہماری زندگی اجیرن کردی ہے۔یہ زمانہ تھا بے نظیر بھٹو کے دوسرے دورِ حکمرانی کا۔ ایف آئی اے کے ایک سینئر آدمی تھے، اُن سے تھوڑی بہت جان پہچان تھی ۔اسلام آباد کی ایک تقریب میں ملے تو اُن سے کہا کہ مسئلہ یوں ہے اور اِس چپڑاسی نے ہمارے بہادر رشتہ داروں کو یوں تنگ کررکھا ہے ۔ اُنہوں نے صرف یہ کہا کہ دیکھتے ہیں۔
کچھ دن بعد پتا چلا کہ ایک ایف آئی اے کی ٹیم چکوال آئی ہوئی ہے۔رات کو کہیں اِس ٹیم نے اُس متعلقہ گاؤں میں چھاپہ مارا۔اُس کے دروازے پہ دستک دی اور ایسے موقعوں پہ پولیس یا دیگر حکام جو کرتے ہیں اُنہوں نے بھرپور انداز میں کیا۔ مطلب یہ کہ جو بدتمیزی کرسکتے تھے اُس کا مظاہرہ اُنہوں نے کیا۔دوسری صبح چپڑاسی وہاں سے بھاگا ۔ اپنے مکان کو اُس نے تالے لگائے ۔ مویشی کہیں اور لے گیا اور پناہ کی خاطر سیشن جج صاحب کے پاس آگیا۔دوسرے یا تیسرے دن چھاپہ دوبارہ لگااور پھر چھاپوں کا سلسلہ جاری رہا ۔ سمجھنے کی بات یہ ہے کہ چھاپے مقامی پولیس نہیں لگا رہی ۔ ایف آئی اے کی ایک سپیشل ٹیم آئی ہوئی ہے جو یہ کارروائی کررہی ہے۔کوئی مقدمہ درج نہیں ہوا، کوئی منی لانڈرنگ کا کیس نہیں ہے ،لیکن کارروائی ہو رہی ہے ۔ سیشن جج صاحب نے گھر میں اُسے پناہ دی ہوئی ہے لیکن اِس سے زیادہ شاید جج صاحب بھی کچھ نہیں کرسکتے۔لطف کی بات یہ ہے کہ جب میں نے اپنے جاننے والے سے ذکر کیا کہ وہ چپڑاسی جج صاحب کے پاس چھپا ہوا ہے تو ہمارے دوست نے قدرے توقف کے بعد لیکن بالکل سنجیدہ چہرے کے ساتھ کہا کہ کوئی بات نہیں ، ضرورت پڑی تو ان کو بھی دیکھ لیں گے۔
کچھ ہی روز بعد میرے پاس منت ترلے کے پیغامات آئے کہ وہ آدمی جو آپ چاہیں کرنے کو تیار ہے۔میں نے کہا: فضول کے مقدمات کررہا ہے ، مقدمے بازی سے باز آئے اُس سے زیادہ کوئی اور مسئلہ نہیں۔ایک دو روز میں سارے سول دعوے واپس ہوگئے اور فریقین میں باعزت سمجھوتہ ہوگیا۔ وہ دن اور آج کا دن اُس شخص کی طرف سے پھر کوئی شرارت نہ ہوئی۔ پاکستانی قانون وضابطہ کا ایک یہ رخ ہے اور دوسرا رخ وہ ہے جو ہم شہباز شریف اور حمزہ شہباز کے مقدمات میں دیکھ رہے ہیں۔ ایسے منی لانڈرنگ کے الزامات امریکہ میں لگیں تو ملزم کا آدھا خون سوکھ جائے۔ یہاں کسی کو کوئی پروا ہی نہیں۔