ہوئی مدت کہ غالبؔ مر گیا، پر یاد آتا ہے
وہ ہر اک بات پر کہنا کہ یوں ہوتا تو کیا ہوتا
کچھ تو یہاں کی زندگی ویسے ہی آسان نہیں۔ کچھ ہم نے اپنی بے ہنری میں زندگی کو بے مزہ کردیا ہے۔ دشواریاں پہلے بھی ہوا کرتی تھیں لیکن زندگی میں چاشنی کے مواقع بھی میسر ہوتے تھے۔ ہمارا اجتماعی کارنامہ ہی سمجھئے کہ وہ تمام مواقع ہم نے برباد کردیئے۔ پیچھے کس کے؟ وعظ و نصیحت کے۔ عَلم یہاں اُٹھایا گیا پارسائی کا اور اِس راستے پہ قوم کو ایسے ڈالا گیا کہ زندگی کا تمام حسن جاتا رہا۔
ہماری تاریخ میں کئی منحوس موڑ آئے ہیں۔ غلط فیصلے سرزد ہوئے اور ہم غلط راستوں پہ چل نکلے‘ لیکن منحوس ترین موڑ چنا جائے تو غالباً وہ 1977ء کا پرآشوب دور ہوگا۔ بھٹو صاحب کے ذہن میں یہ خیال ابھرا کہ الیکشن ایک سال قبل کرالئے جائیں۔ اِس میں کوئی اِتنی برائی نہ تھی لیکن الیکشن نتائج کو اپنے لئے ہموار کرنے کیلئے اُنہوں نے ایسی احتیاط برتی کہ سب کچھ اُن کے ہاتھ سے نکل گیا۔
اپنے دورِ اقتدار میں اُن سے غلطیاں ہوئیں تو اُن کے کارنامے بھی خاصے تھے۔ مخالفت اگر تھی تو مقبول لیڈر بھی تھے۔ صاف ستھرا الیکشن ہوتا تو جیت جاتے لیکن دل میں خوف تھا یا اُن کی بدبختی اُس طرف اُنہیں لے گئی کہ اُنہوں نے ہرچیز اپنے لئے ہموار کرنا شروع کردی۔ اُس سے ماحول بگڑتا چلا گیا۔ خود اُنہوں نے لاڑکانہ سے کھڑا ہونا تھا۔ بھلا وہاں اُن کا کون مقابلہ کر سکتا تھا لیکن وفاداروں کو یہ سوجھی کہ شاہ سے زیادہ وفادار ہو جائیں‘ لہٰذا اُن کے مدمقابل جماعت اسلامی کے مولانا جان محمد عباسی کو کاغذات نامزدگی کے روز اٹھا کے کہیں غائب کر دیاگیا۔ بھٹو بلا مقابلہ ایم این اے منتخب ہو گئے۔ دوسری صبح سرکاری ہدایت کے مطابق اُن کی ایک ہی یکساں تصویر ہر اخبارکے صفحۂ اول پہ چھپی جس کے نیچے یہ عنوان تھا: عظیم لیڈر، بے مثال لیڈر وغیرہ وغیرہ۔ اِس ایک بیوقوفانہ حرکت سے پورے ملک میں یہ تاثر پھیلا کہ الیکشن سے قبل ہی گڑبڑ شروع ہو گئی ہے۔ بھٹو کی دیکھا دیکھی چاروں چیف منسٹروں نے اپنے لیے یہ اہتمام کیا کہ وہ بھی بلامقابلہ اپنی اپنی صوبائی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوجائیں‘ یعنی اصل کھیل سے قبل ہی لگنے لگا کہ تماشہ ہو رہا ہے۔
ایک سیاسی غلطی بھٹو پہلے ہی کرچکے تھے۔ اُن کے مد مقابل جو اتحاد بنا اُس کا نام پاکستان قومی اتحاد (پی این اے) رکھا گیا۔ یہ نو جماعتوں پہ مشتمل اتحاد تھا لیکن الیکشن کمیشن کو اِس اتحاد کی طرف سے یہ درخواست آئی کہ انہیں ایک الیکشن نشان الاٹ کیا جائے۔ نشان پارٹیوں کو ملتے ہیں نہ کہ کسی اتحاد کو۔ قانون کے تحت کوئی مجبوری نہ تھی کہ پی این اے کو ایک نشان دیا جائے لیکن بھٹو کی طرف سے پتا نہیں کون سا زعم تھا جس کے تحت پی این اے کو ایک نشان (جو کہ ہل تھا) الاٹ ہوا اور پی پی پی کی طرف سے کوئی اعتراض نہ اٹھایا گیا۔
جلسے ہونے لگے تو جہاں بھٹو کے بڑے جلسے تھے وہاں پی این اے کے بھی زبردست اجتماع ہوئے۔ بھٹو کی حکومت ایک نیم آمریت تھی۔ مخالفین سے اُن کا رویہ بڑا سخت رہا تھا۔ پریس پہ پابندیاں تھیں، کھل کے لوگ اظہارِ خیال کرنہیں سکتے تھے۔ اِن وجوہات کی بنا پہ جب الیکشن کے موسم میں کچھ آزادی ملی تو عوام کے دبے جذبات کھل کے سامنے آنے لگے۔ نتیجتاً پی این اے کی بڑی ریلیاں نکلیں اور ایئر مارشل اصغر خان اپوزیشن کے ایک مقبول رہنما بن کے سامنے آئے۔ 7 مارچ کو الیکشن ہوئے تو شام کو جب نتائج آنے شروع ہوئے تو صاف نظر آیا کہ بھٹو اور ان کی حکومت نے کچھ زیادہ ہی احتیاط برتی ہے‘ کیونکہ پی پی پی لینڈ سلائیڈ سے جیت رہی تھی اور کل اپوزیشن کے ہاتھ میں 207 کے ہاؤس میں محض 35 نشستیں آئیں۔ کہا جاتا ہے کہ اِن الیکشن نتائج کو دیکھ اور سن کے بھٹو خود بھی کچھ نروس ہو گئے‘ اور یہ عجیب بات نہ تھی جب نتائج مذاق لگنا شروع ہو گئے تھے۔
پی این اے نے مبینہ الیکشن دھاندلی کے خلاف تحریک کا اعلان کر دیا۔ 11 مارچ کو صوبائی انتخابات ہونے تھے۔ اپوزیشن کی طرف سے اُن کے بائیکاٹ کا اعلان ہوا اور حالات یوں بنے کہ بائیکاٹ مؤثر رہا۔ مختلف شہروں میں اپوزیشن کے جلوس نکلنے لگے۔ احتجاج میں شدت پیدا ہوتی گئی اور 9-10 اپریل کو لاہور میں احتجاج کو کچلنے کیلئے گولی چل گئی۔ لاہور میں تعینات فوج کے تین بریگیڈیئروں نے اپنے عہدوں سے استعفے دے دیئے کہ عوام پہ گولی نہیں چلا سکتے۔ یوں صورتحال پہ بھٹو کا کنٹرول نہ رہا۔
اِن پرانی یادوں کو تازہ کرنے کا کیا فائدہ؟ فائدہ تو کچھ نہیں لیکن مقصد صرف یہ یاد دلانا ہے کہ اِن بیتے ہوئے واقعات کے سائے تلے ہم آج تک رہ رہے ہیں۔ حالات جب بگڑتے گئے تو بالآخر 5 جولائی کو ضیا الحق اور اُن کے ساتھیوں نے اقتدار پہ قبضہ کر لیا۔ جنرل ضیا نے اعلان کیا کہ انتخابات 90 دن میں ہوں گے‘ لیکن جوں جوں یہ تاثر اُبھرا کہ بھٹو ہی ممکنہ نئے انتخابات کو سویپ کر جائیں گے تو جنرل ضیا اور اُن کے رفقاء میں یہ تشویش سر اُٹھانے لگی کہ انتخابات میں بھٹو جیت گیا تو اُن کے ساتھ کیا ہو سکتا ہے۔ اِس ڈر کے پیش نظر یہ نعرہ سنائی دینے لگا کہ انتخاب سے پہلے احتساب کا ہونا ضروری ہے۔ الیکشن ملتوی ہوئے تو جنرل ضیاالحق نے مذہب کا نعرہ لگا دیا۔ اُس نعرے کے تحت جو ہونے لگا وہ قوم کی تقدیر کا حصہ بنتا چلا گیا۔ جنرل ضیا کب کے اِس دنیا سے رخصت ہو چکے لیکن اُن کا ورثہ آج تک قائم و دائم ہے اور اُن کے بعد آنے والے کسی حکمران میں یہ ہمت نہیں ہوئی کہ کہہ سکے کہ اُس وقت کا ڈھونگ مصلحت کے تحت رچایاگیا تھا۔
ہمارے حالات مثالی پہلے بھی نہ تھے‘ لیکن پاکستانی معاشرے کا عمومی مزاج خوش دلانہ تھا۔ موقع ملنے پہ موج میلہ ہو جایا کرتا تھا۔ مخصوص معمولات پہ وہ پابندیاں نہ تھیں جو جنرل ضیا کے دور سے رائج ہوئیں۔ بادشاہی مسجد لاہور کا ملحقہ علاقہ اپنی تمام روشنیوں اور رعنائیوں کے ساتھ آباد تھا۔ مال لاہور کی اپنی رونق ہوا کرتی تھی۔ مزید کیا کہا جائے، صاحبِ نظر لوگ سب بات سمجھتے ہیں۔ اب اجتماعی شعور کا رونا رویا جائے یا اجتماعی ہمت کا کہ اُس تاریک دور میں جو روشنیاں گُل ہوئیں وہ آج تک بجھی چلی آرہی ہیں۔ دنیا کے مسائل تو رہتے ہیں‘ اور ہمارے جیسے پس ماندہ ملک کے مسائل رہیں گے۔ آبادی بڑھ گئی ہے، شہر بے ہنگم ہو گئے ہیں، سڑکوں پہ وہ کیفیت دیکھنے کو ملتی ہے کہ خدا کی پناہ‘ لیکن اِن مسائل کے ساتھ کچھ اہتمام راحت تو ہو۔ مسائل رہ نہیں گئے‘ پیچیدہ ہو گئے ہیں لیکن سامانِ راحت کے تمام راستے بھی بند کر دیئے گئے ہیں۔ اِس سے معاشرے میں گھٹن پیدا ہوئی ہے۔ پاکستانی قوم کی سوچ پیچھے چلی گئی ہے۔ رجعت پسندی اِسی کو کہتے ہیں۔
بہرحال ہم جیسوں کی جوانیاں گزر چکی ہیں۔ جوانی سے جڑے جو ارادے ہوتے ہیں وہ بھی اندھیروں کا حصہ بن چکے ہیں۔ اب ہمیں کوئی سروکار نہیں سوشلزم سے نہ ایشیا کے سرخ ہونے سے۔ جو سرخ تھے اُن کا رنگ بھی بدل چکا ہے۔ جو وعظ و نصیحت کرنے والے ہیں وہ شہروں میں اتراتے پھرتے ہیں۔ ایک زمانہ تھا‘ ہم اِن کو خاطر میں نہ لاتے تھے۔ اب اِن سے کوئی چھٹکارا نہیں۔ ہمارا حال پھر دیکھا جائے۔ شامیں ہماری لمبی ہو چکی ہیں اور سوائے ارمانوں کے ہمارے پاس کچھ نہیں رہا۔