یہ جو واقعہ رحیم یار خان کے ایک گاؤں میں ہوا ہے جس میں ایک نو سالہ ہندو لڑکے پہ توہین کا مقدمہ درج ہوا اِس کی کوئی تُک بنتی ہے؟ شکایت کرنے والے کو شرم آنی چاہئے اور متعلقہ تھانہ جہاں یہ پرچہ درج ہوا اُس کے حکام کوبھی احساس کرنا چاہئے۔ نوسالہ لڑکے سے کوئی غلطی ہو بھی گئی ہو تو ایسے واقعہ کو درگزر کرناہی بہتر بنتا ہے۔ شکایت لگانے تھانے پہنچ جانا ایسی حرکت تو پرلے درجے کی جہالت کی مظہر ہے۔ عدالت نے اچھا کیا کہ لڑکے کو ضمانت پہ رہاکر دیا لیکن ہم ہیں یا اُس قصبے کے لوگ ہیں کہ ہنگامہ کھڑا کردیا اور وہاں موجود ہندو مندر پر باقاعدہ دھاوے کا اہتمام ہوا۔
ایسے واقعات میں ظاہراً چیز کوئی اور ہوتی ہے اور پیچھے شرارت کچھ اور نوعیت کی۔ اصل وجہ کوئی ذاتی رنجش ہوتی ہے۔ ذاتی رنجش کی خفت کو مٹانے کیلئے توہین کا مسئلہ کھڑا کر دیا جاتا ہے۔ ایسا ہی ایک کیس رمشا مسیح کا اسلام آباد کے ایک نواحی اور غریب ترین علاقے میں ہوا تھا۔ حالات کا جائزہ لینے کیلئے میں خود وہاں پہنچا تھا اور میں نے دیکھا کہ شکایت کرنے والا لڑکا اور اُس کی معاونت کرنے والے مولوی صاحب شکل سے ہی خاصے ناخواندہ لگتے تھے۔ اب میں اِس ضمن میں جاہل کا لفظ استعمال کرنے سے تو رہا کیونکہ حساس طبیعت کے لوگ برا منا سکتے ہیں۔ جہالت کا ارتکاب ہو تو ہماری حساسیت کو کچھ نہیں ہوتا‘ لیکن کہیں غلط لفظ استعمال ہو گیا تو مزاجوں کے بھڑکنے میں دیر نہیں لگتی‘ یعنی غصہ تو جہالت پہ آنا چاہئے لیکن وہاں نہیں آتا۔ مقدمات درج ہوتے ہیں، عدالتوں کو پہنچتے ہیں، ایسے کیسوں کے ملزمان سالہا سال جیلوں میں سڑتے رہتے ہیں۔ جب سزائے موت کا فیصلہ سنایا جاتا ہے تو پوری دنیا میں پاکستان کے امیج کو ایک اور ضرب لگتی ہے۔ بین الاقوامی سکینڈل بن جاتا ہے۔ بڑی عدالت سے ریلیف ملے تو پھر کہیں ایسے معاملات کی آگ ٹھنڈی پڑتی ہے۔
ایسے واقعات میں پولیس کا رویہ سمجھ سے بالاتر ہوتا ہے۔ پولیس جب زیادتی پہ آتی ہے تو اُسے کوئی نہیں روک سکتا‘ لیکن توہین کا کوئی الزام ہو تو پولیس ذرا سا پریشر لینے کیلئے تیار نہیں ہوتی۔ چھوٹا سا مجمع اکٹھا ہو جاتا ہے، ایک سربراہ قسم کا شخص غصیلی تقریر جھاڑ دیتا ہے اور سر سے بلا ٹالنے کیلئے پولیس توہین کا مقدمہ درج کردیتی ہے۔ تھانیدار لیول کے افسروں کی بات تو سمجھ میں آتی ہے کہ مصیبت ٹالنے کی کوشش کرتے ہیں‘ لیکن ایسے معاملات میں بڑے افسر کہاں غائب ہو جاتے ہیں؟ نیچے کسی تھانے میں جو کارروائی ہوتی ہے بڑے افسران بھی اُس سے آنکھ چرا لیتے ہیں‘ یعنی ایسے معاملات میں اخلاقی جرأت کا مکمل فقدان نظر آتا ہے۔ کوئی سٹینڈ لینے کیلئے تیار نہیں ہوتا۔
جنہیں ہم اقلیتیں کہتے ہیں اُن کے ساتھ حالیہ سالوں میں کتنے ظلم کے واقعات ہو چکے ہیں۔ ایک کیس شہر قصورکا تھا جہاں ایک کرسچین مرد اور اُس کی بیوی کو اینٹوں کے بھٹے کی آگ میں جھونک دیا گیا تھا۔ الزام وہی توہین کا اور پیچھے مکمل جہالت کا مظاہرہ کارفرما تھا۔ کچھ سال ہوئے گوجرہ میں کرسچینوں کے گھروں پہ حملہ ہوگیا تھا۔ لاہور کی سینٹ جوزف کالونی کے گھر جلا دیئے گئے تھے۔ متعدد ایسے واقعات ہیں اور اِن کے ساتھ منسلک توہین کے مقدمات جو وقت گزرنے کے ساتھ بین الاقوامی رنگ اختیار کر لیتے ہیں۔ پولیس میں پڑھے لکھے افسروں کی کمی نہیں۔ یہ اِن کی ذمہ داری بنتی ہے کہ ایسے مقدمات میں بپھرے ہوئے جذبات کو ٹھنڈا کریں تاکہ باقاعدہ مقدمات کے درج ہونے تک نوبت نہ پہنچے۔ متعلقہ قانون بڑا سخت بنا دیا گیا ہے۔ اِس کے استعمال میں حد درجے کی احتیاط لازم ہونی چاہئے۔ یہ نہیں کہ مسئلہ کوئی ذاتی ہو یا کوئی سکہ بند اَن پڑھ عوامی جذبات سے کھیلنے کی کوشش کررہا ہواور پولیس فوراً سے پہلے مقدمہ درج کر دے۔
قانون کی نزاکتوں سے ہٹ کے جو معاشرہ خود کو مسلمان کہے وہ تو بڑا فراخدل ہونا چاہئے۔ حقیقتاً کوئی حساس نوعیت کا واقعہ پیش آئے تو اِس کی بات تو اور ہے لیکن جہاں چھوٹی چھوٹی باتوں کو بھڑکا کے بڑا پیش کرنے کی کوشش کی جا رہی ہو وہاں ایک مسلمان معاشرے کو برداشت اور درگزر کے اصولوں کو سامنے رکھنا چاہئے۔ ہم سے تو انگریز اچھے جن کے معاشروں میں عمومی طور پہ برداشت کا اصول عمل پیرا رہتا ہے۔ یورپ اور امریکہ میں تمام مذاہب آباد ہیں۔ سامراجی تاریخ کی وجہ سے ہمارے برطانیہ سے تعلقات قریبی ہیں۔ برطانیہ میں ہر مذہب کے لوگ آباد ہیں۔ مسجدیں ہیں، مندر ہیں گوردوارے ہیں۔ چرچ تو ہیں ہی۔ مذہبی لحاظ سے کسی کو وہاںکوئی پرابلم نہیں ہوتی۔ ڈنڈا سوٹا نہیں چلتا۔ ایسے مقدمات درج نہیں ہوتے۔ آج کو چھوڑیئے، برطانیہ نے برصغیر پہ لمبی حکمرانی کی‘ سیاسی اعتبار سے اس نے بہت کچھ کیا جس پہ تنقیدکی جا سکتی ہے لیکن برطانوی راج میں مذہب کی مکمل آزادی تھی۔ مذہبی بنیادوں پہ انہوں نے کسی سے کوئی فرق نہیں برتا۔ ہندو مذہب میں ستّی یا بیواؤں کا اپنے خاوندوں کی موت کے بعد آگ میں جلنا‘ اِس قسم کے رواج کو اُنہوں نے ختم کیا۔
ہمیں تو انگریزوں سے بہتر ہونا چاہئے۔ ہمارے ہاں تو ویسے بھی اقلیتوں کی تعداد کیا رہ گئی ہے۔ کہیں کہیں سکھ آبادیاں ہیں۔ سندھ میں کئی کئی جگہوں پہ ہندو موجود ہیں۔ شہروں میں تھوڑی تھوڑی کرسچین آبادیاں ہیں۔ یعنی اب اقلیتوں کی موجودگی آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ ایسے میں ہمارے دل کشادہ ہونا چاہئیں۔ برداشت سے زیادہ اقلیتوں کیلئے بہت ہی نرم گوشہ ہونا چاہئے۔ لیکن پرابلم یہاں یہ ہے کہ جب ہم اپنوں کو برداشت نہیں کرتے اوروں کی ہم نے کیا پروا کرنی ہے۔ ہمارے معاشرے میں فرقہ واریت کتنا زور پکڑ چکی ہے۔ فرقوں اور مسلکوں کا نام کیا لیا جائے بس عمومی طور پہ عدمِ برداشت کے رویے دیکھے جا سکتے ہیں۔ ہم جیسے گناہگاروں کیلئے تو یہی بڑی حیرانی کی بات بنتی ہے کہ ایک مسلک کے پیروکار کسی دوسرے کے پیچھے نماز پڑھنے کیلئے تیار نہیں ہوتے۔ میرا اپنا مشاہدہ ہے کہ ایک مسلک کا جنازہ کوئی دوسرے مولوی صاحب پڑھانے کیلئے تیار نہیں ہوتے۔ ہمارے قریبی عزیزوں میں ایک ایسا واقعہ ہوا تو ہمیں ایک باہر کے گاؤں سے مولوی صاحب بلانے پڑے۔ یہ تو ہماری حالت ہے۔
عجیب بات یہ ہے کہ جذبات بھڑکانے والے مخصوص لوگ ہوتے ہیں۔ پاکستانی معاشرے کا مزاج برداشت والا ہے۔ جہاں ذاتی خرابیاں ہوتی ہیں اور لوگوں کو پتا ہوتا ہے کہ فلاں شخص کی فلاں ذاتی کمزوری ہے وہاں صرف اتنی توقع کی جاتی ہے کہ جو کرنا ہے احتیاط سے کرو اور برسرِ عام اِس کا تماشا نہ بناؤ۔ اگر میں اپنی مثال دے سکوں تو چکوال میں جاننے والوں کو معلوم رہتا ہے کہ میں کیا کرتا ہوں کیا نہیں کرتا۔ اِس کے باوجود میں ایم پی اے منتخب ہوا ہوں اور ایم این اے بھی۔ ہمارے میلوں اور ایسے تہواروں کا مزاج اب بدل چکا ہے لیکن ایک زمانہ تھا جب میلوں ٹھیلوں میں بہت کچھ ہوا کرتا تھا۔ بری امام کا سالانہ عرس ہوتا تو لاہور کا جو خاص علاقہ شاہی قلعے کے بالکل پڑوس میں ہے وہاں کے مکین دھمال ڈالنے کی غرض سے بڑی تعداد میں بری امام آتے۔ پارسائی کا بخار جو معاشرے کو لگا اُس سے میلوں ٹھیلوں کا ماحول بدل گیا۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے لوگوں میں برداشت ہے۔ عدمِ برداشت کا ماحول سرکار نے پیدا کیا یا مخصوص گروہوں نے۔ شرارت کرنے والے یہ گروہ ہوتے ہیں۔ اللہ اِن سے پناہ دے اور کمزور اور تنگ نظر سرکاروں سے بھی بچائے۔