کل صبح گاؤں میں بیٹھا جناب الطاف حسن قریشی صاحب کا کالم بعنوان 'سیدِ خوش خصال تھا، کیا تھا!‘ نظروں سے گزرا۔ کالم مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کے بارے میں ہے۔ قریشی صاحب لکھتے ہیں کہ جب 12مارچ 1949ء کو آئین ساز اسمبلی سے قرارداد مقاصد کی منظوری ہوئی تو جماعت اسلامی نے ''آٹھ نکات پر مبنی اسلامی دستور کا ہمہ گیر مطالبہ شروع کردیا‘‘۔ مزید لکھتے ہیں کہ ''وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین نے تقریباً اِنہی نکات پر مشتمل بنیادی اصولوں کی رپورٹ 1952ء کے اواخر میں دستور ساز اسمبلی میں پیش کی‘ جس سے یہ امید پیدا ہوئی کہ دستور سازی کا مرحلہ جلد مکمل ہو جائے گا‘‘۔ یہ بھی بیان ہے کہ ''اِسی دوران مجلس احرار اور کچھ دوسرے علماء نے فوری طور پہ قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کا مطالبہ بڑی شدت سے شروع کیا‘‘۔ مولانا مودودی کے ایک پمفلِٹ کا تذکرہ بھی ہے جو اُنہوں نے قادیانیت پر لکھا اور جو بقول قریشی صاحب خاصا مقبول ہوا۔ اِسی اثناء میں 1953ء کی قادیانی مخالف تحریک بھڑکی جس کے بعد لاہور میں مارشل لاء نافذ ہوا، مولانا مودودی اور کچھ دیگر زعماء پر مقدمات قائم ہوئے اور مولانا مودودی کو موت کی سزا سنائی گئی۔
باخبر لوگ اِن واقعات سے واقف ہیں۔ یہ ہماری عام نالج کی باتیں ہیں۔ اِن سے البتہ ایک چیز ظاہر ہوتی ہے کہ پاکستان بنتے ہی ہمارے کئی طبقات اور کئی دانشور حضرات کن کارروائیوں میں اپنی توانائیاں صرف کرنے لگے۔ پاکستان کے نام سے جو نئی ریاست معرضِ وجود میں آئی اُس کی بھاری اکثریت مسلمانوں پہ مشتمل تھی۔ پاکستان کا مطالبہ ہی مسلمانیت پہ مبنی تھا۔ اِس مطالبے کے نتیجے میں جب ہندوستان کا بٹوارا ہوا اور ایک نئی ریاست بن گئی تو ایک نکتہ جسے قطعاً کسی بحث کی ضرورت نہ تھی وہ اسلام تھا۔ زور تو اور چیزوں پہ ہونا چاہئے تھا کہ اس نومولود ملک کی ترجیحات کیا ہونی چاہئیں۔ اِسے ترقی کی راہ پہ کیسے گامزن ہونا چاہئے۔ انتظامی امور کیسے نبھائے جانے چاہئیں۔ نظامِ عدل میں اگر اصلاح کی ضرورت ہے تو یہ مقصد کیسے پورا کیا جائے۔ نظام تعلیم میں کن کن تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ نظامِ ریلوے اور نظام آبپاشی کو کیسے بہتر کیا جائے۔ ملک میں کن انڈسٹریوں کو فروغ ملنا چاہئے۔ سرمایہ کاری کن شعبوں میں ہونی چاہئے۔ قوم میں نظم و ضبط کیسے پیدا کیا جائے۔ ہندوستان سے کن بنیادوں پر تعلقات استوار کئے جائیں۔ دریاؤں کے پانی کے مسئلے پر قومی مؤقف کیا ہونا چاہئے۔ مشرقی پاکستان اور باقی ماندہ پاکستان ہم آہنگی سے کیسے چل سکتے ہیں۔ آئین کیسا ہو اور اُس کی جلد تیاری کیسے ممکن ہو سکے۔
توجہ ہمیں اِن مسائل پہ دینی چاہئے تھی لیکن سیاسی زعماء بشمول خان لیاقت علی خان، دانشوران کرام وغیرہ نے الگ بحث شروع کر دی۔ ضرورت تھی تشکیل آئین کی، آئین تو بن نہ سکا لیکن لیاقت علی خان کی حکومت مقاصدِ پاکستان بیان کرنے میں لگ گئی۔ یاد رہے کہ 1947-48ء میں پاکستان کی پوزیشن ایشیا کے بیشتر ممالک سے بہتر تھی۔ چین میں خانہ جنگی جاری تھی۔ جاپان جنگِ عظیم کی تباہ کاریوں سے نمٹ رہا تھا۔ ہانگ کانگ برطانوی کالونی تھی۔ سنگاپور اور ملائیا آزاد نہ تھے۔ انڈونیشیا نیدرلینڈ کی کالونی تھی۔ پورے ایشیا میں دو ہی جمہوریتیں تھیں، ہندوستان اور پاکستان۔ تقسیم ہند کی تباہی کے باوجود ہر شعبے میں ہمارے پاس ایک نظام اور اُس سے جڑے ہوئے قوانین تھے۔ سیاسی پارٹیاں تھیں، آزاد پریس تھا، قانون ساز اسمبلی تھی، نظام حکومت کیلئے ایک آئینی فریم ورک تھا۔ اِن سب چیزوں کو آگے لے کے چلنے کی ضرورت تھی۔ جو اچھائیاں انگریز چھوڑ کر گئے تھے اُنہیں ہم مزید مضبوط کرتے، انتظامی مشینری میں جو خامیاں تھیں اُن کو درست کرتے۔ انگریزوں کو ہم جتنا بھی برا بھلا کہیں‘ وہ ہمیں ایک انتظامی وراثت دے کر گئے تھے۔ اُسے بہتر بنانے کی ضرورت تھی۔ سائنس اور ٹیکنالوجی پہ زور دیتے۔ ہیوی انڈسٹری کی بنیاد رکھی جاتی۔ ہندوستان میں تو سٹیل ملیں تھیں، ہم بھی ایک نہیں اُس سے زیادہ سٹیل ملیں لگاتے۔
یہ کچھ تو ہم سے ہوا نہیں، امریکیوں کی گود میں چھلانگ لگا کر بیٹھ گئے۔ اُن کے دفاعی معاہدوں میں بلا ضرورت شامل ہوگئے۔ تیسری دنیا میں ایک خاص قسم کی فضا قائم ہو رہی تھی‘ لیکن ہم نے رجعت پسندی اور امریکہ نوازی کے جتنے کمبل مہیا تھے اپنے اوپر اوڑھ لئے۔ جاپان اور جنوبی کوریا بھی امریکہ نواز تھے۔ مغربی یورپ امریکہ نواز تھا۔ اِن ممالک نے امریکہ کی دوستی سے بہت کچھ حاصل کیا۔ جنگِ عظیم کی تباہی کے باوجود جرمنی اور جاپان نے اپنے آپ کو ترقی کی راہ پر ڈالا۔ ہم تھے کہ نعرے لگانے لگے اور امریکہ کے پٹھو بن گئے۔ اپنی سوچ ہماری کچھ تھی ہی نہیں۔ جو باہر سے افکار آتے وہ ہماری ترجیحات بن جاتیں۔ اندرونی استحکام پیدا نہ کر سکے۔ 1956 تک آئین نہ بن سکا اور جب بنا بھی تو اُس میں وَن یونٹ کا شوشا چھوڑ دیا گیا‘ یعنی شروع دن سے ہی ہم بنگالی اکثریت سے خوفزدہ تھے۔ تقسیم ہند سے پہلے ہندو اکثریت سے خوفزدہ تھے۔ پاکستان کے معرضِ وجود میں آنے کے بعد ہمارے پنجابی اور اردو سپیکنگ بیوروکریٹ اور سیاست دان بنگالیوں کے بارے میں تحفظات پالنے لگے۔ عجیب ذہنیت ہمارے حکمران ٹولوں کی رہی ہے۔ اِس ذہنیت کا بنیادی نکتہ خوف ہے، کبھی اِس سے خوف کبھی اُس سے خوف۔ چوہتر سال ہو گئے ہیں ملک کو بنے اور آج بھی قومی سوچ کا بنیادی نکتہ ہندوستان دشمنی ہے۔ نفسیات میں ایسی کیفیت کے کئی نام ہیں۔ ایک نام پیرانویا (paranoia) ہے جس کا مطلب ہے وسوسے اور خواہ مخواہ کے وسوسے جن کی بنیاد حقیقت میں نہیں ہوتی۔
نتیجہ اِس تاریخ اور کیفیت کا ہمارے سامنے ہے۔ ایک اچھی بھلی وراثت کو ہم نے برباد نہیں تو توڑ موڑ کے ضرور رکھ دیا ہے۔ جس ملک کو ایشیا کے ملکوں میں آگے ہونا چاہئے تھا وہ کہیں پیچھے لڑکھڑا رہا ہے۔ معیشت سنبھالی نہیں جا رہی، قرضوں کے تلے دبے ہیں۔ ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ گئے ہیں۔ دفاعی ساز و سامان بہت ہے، ایٹمی قوت بھی ہیں لیکن ساتھ ہی ساتھ ہمارا کشکول ہے جسے کبھی اِس کے سامنے کبھی اُس کے لیے پھرتے ہیں‘ اور نعرے ہمارے، کیا گونج ہے اُن کی۔
اپنے ملک کو رگیدنا کوئی اچھی بات نہیں لیکن جب دیکھیں کہ ہمارے مواقع کتنے تھے، ہمارے پاس کتنا کچھ تھا اور ہم نے کیسے مواقع گنوائے اور اپنا وہ حلیہ کر دیا جو اَب ہے تو رونا آتا ہے۔ اِس بات پہ بھی حیرانی ہوتی ہے کہ جو بحثیں پاکستان بننے کے فوراً بعد شروع کی گئیں وہ تھمنے کا نام نہیں لیتیں۔ ایک فتنہ ختم نہیں ہوتا تو دوسرا سر اُٹھاتا ہے۔ ایسی نزاکتوں پہ ہمارے بزرگ جھگڑتے ہیں جن کا حقیقی زندگی سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ ضرورت تو اب بھی اِس امر کی ہے کہ ہم فرسودہ خیالات سے آزاد ہوں اور ایک نارمل اور ماڈرن ری پبلک بنائیں۔ ایسا دیس ہو جو ماضی کی بناوٹی یادوں کا اسیر نہ ہو اور جو آگے کی طرف دیکھ سکے۔ ایک اور مسئلہ البتہ قیادت کا ہے۔ معلوم نہیں ہماری قسمت میں نکمے راہنما ہی کیوں لکھے ہوئے ہیں۔ آبادی کتنی وسیع لیکن قحط الرجال بھی کتنا گہرا۔