جھمیلے کہئے یا پھڈے، اِن میں سے کچھ ایسے ہوتے ہیں جن کی کوئی وجہ ہوتی ہے‘ اور خواہ مخواہ کے پھڈے ہوتے ہیں جو نا سمجھی، ہٹ دھرمی یا بھول میں ہو جاتے ہیں۔ یہ جو ہمارا مسئلہ بنا ہوا ہے یہ خواہ مخواہ کا ہے۔ ناسمجھی تو نہ کہئے کیونکہ ہمارے بھولے اِتنے بھولے بھی نہیں ہوتے۔ اُنہیں سمجھ ہوتی ہے کہ ہم کیا کرنے جا رہے ہیں‘ لیکن سارا کام عجلت سے ہوگیا اور احتیاط کو ایک طرف رکھا گیا۔
ہمارے تو کان پک گئے تھے ایک پیج کی گردان سن سن کے۔ اب بھی کہا جا رہا ہے کہ فلاں کے تعلقات فلاں سے مثالی ہیں۔ ایسا کسی اور ملک میں سننے کو ملتا ہے؟ امریکہ میں کبھی کہا جاتا ہے کہ وقت کے صدر اور اداروں کے سربراہوں کے تعلقات مثالی ہیں؟ کبھی ہندوستان میں سنا ہے کہ وزیراعظم صاحب کے فلانے ادارے کے سربراہ سے تعلقات بہت اچھے ہیں؟ اللہ کی ذات ہی جانے یہاں ایسی بچگانہ باتیں کیوں ہوتی ہیں۔ کاروبارِ مملکت کے کچھ اصول ہوتے ہیں، کچھ قاعدہ قانون ہوتا ہے۔ ادارے کسی فریم ورک میں کام کرتے ہیں۔ وزیراعظم اور کابینہ بھی قاعدہ قانون کے پابند ہوتے ہیں۔ یہ کوئی پھوپھی جان کی حویلی ہے کہ تواتر سے کہا جائے کہ فلاں کے فلاں سے تعلقات بہت اچھے ہیں؟
کچھ تھوڑا سا باہمی صلاح مشورہ ہو جاتا۔ یکطرفہ اعلانات سے تو حکومتی کاروبار نہیں چلتے۔ خاص طور پہ جہاں بات صوابدید کی آئے کہ فلاں کام یا فلاں تقرری فلاں کی صوابدید ہے۔ یہ جو ہم بات کررہے ہیں اِس میں تو کسی اِبہام کی گنجائش نہیں۔ جس ادارے کی بات ہو رہی ہے وہاں کی تقرری تو وزیراعظم کے حصے میں آتی ہے۔ اِس امر کے بارے میں کبھی شک نہیں رہا۔ بھٹو صاحب نے لیفٹیننٹ جنرل غلام جیلانی کو ادارے کا سربراہ مقرر کیا تھا۔ اُن کا یہ اپنا چناؤ تھا۔ رائے ضرور لی ہوگی فیصلہ اُن کا تھا۔ جنرل ضیاالحق کو چھوڑیئے، وہ تو سیاہ و سفید کے مالک تھے لیکن اُن کے بعد جو سویلین سربراہِ حکومت آئے اُنہوں نئے اپنا چناؤ کیا۔ بے نظیر بھٹو نے تو کمال ہی کردکھایا، ایک ریٹائرڈ صاحب کو ادارے کا سربراہ بنادیا۔ یہ اور بات ہے کہ جنرل کَلّو کی سربراہی عملاً قبول نہ کی گئی‘ لیکن کاغذ پر تو وہ ادارے کے سربراہ تھے۔
نوازشریف نے اپنی مرضی کے لوگ لگائے۔ لیفٹیننٹ جنرل جاوید ناصر کو ادارے کا سربراہ بنایا گیا کیونکہ باریش تھے اور نوازشریف کے وفادار سمجھے جاتے تھے۔ دیگر اُن کی کسی خوبی کا ذکر کسی رسالے یا اخبار میں نہیں ملتا۔ واقفانِ حال سے پوچھ لیجئے جاوید ناصر صاحب وزیراعظم ہاؤس میں دعائیہ کانفرنسوں کا اہتمام کیا کرتے تھے جن میں وزیراعظم نوازشریف بڑے انہماک سے شرکت فرماتے تھے۔ 1999ء کے حالات تو ہمیں معلوم ہی ہیں۔ لیفٹیننٹ جنرل ضیاالدین بٹ کا تقرر نوازشریف کی صوابدید پہ ہوا تھا۔ وجہ جو بھی ہو لیکن بٹ صاحب چوائس وزیراعظم کی تھے۔ اِس بارے میں کسی کو کوئی شک نہیں۔
حالیہ سالوں میں اِس ادارے کے سربراہ کے طور پر دو نام ذہن پہ نقش رہیں گے، لیفٹیننٹ جنرل شجاع پاشا اور لیفٹیننٹ جنرل ظہیرالسلام۔ جنرل پاشا جنرل راحیل شریف کے بہت قریب تھے۔ یہ بھی کہنا پڑے گا کہ ذہین اور قابل افسر تھے۔ پارلیمنٹ کے ایک اِن کیمرہ اجلاس میں اِنہیں سننے کا موقع ملا، بہت پُراثر انداز میں بولتے تھے۔ یہ اور بات ہے کہ چوہدری نثار علی خان کی سربراہی میں ن لیگ کی پارلیمنٹری پارٹی نے کارروائی کا بائیکاٹ کیا اور ممبران لابی میں چلے گئے۔ آج تک سمجھ نہیں آئی کہ چوہدری صاحب نے بائیکاٹ کس بنا پہ کیا تھا۔ بس انا پرستی اور ضد بازی، اور کوئی وجہ کم از کم مجھے سمجھ نہیں آتی۔ دوسرا نام جو یاد رہے گا وہ جنرل ظہیرالسلام کا ہے کیونکہ اُن کی ذات کو 2014ء کے عمران خان اور علامہ طاہرالقادری کے دھرنوں سے، غلط یا صحیح، جوڑا جاتا ہے۔
لیکن بنیادی نکتہ کچھ اور ہے کہ تقرری کس کی صوابدید بنتی ہے۔ نہ صرف تقرری بلکہ اِس عہدے پہ کوئی بیٹھا ہو تواُس کی اختتامِ تقرری، یہ صوابدید بھی کس کی ہے؟ ظاہر ہے جو کچھ ہو وزیراعظم سے پوچھ کے کرنا چاہئے۔ یہ عام فہم کی بات ہے، اِس میں آئن سٹائن کی ریاضی شامل نہیں۔ غالباً یہاں پہ بھول چوک ہوگئی۔ معاملات پہلے وزیراعظم سے طے ہونے چاہئیں تھے اور کوئی صلاح مشورہ ہوتا تو مسئلہ پیدا ہی نہ ہوتا۔ تنقید اور چیز ہے، بہت سی وجوہات کی بنا پہ عمران خان تنقید کا نشانہ بنتے ہیں لیکن انصاف کے تقاضے سامنے رکھے جائیں تو اِس سارے معاملے میں عمران خان درست معلوم ہوتے ہیں۔ ہاں اُن کے کئی ممبران بَڑبولے ہیں اور موقع مناسبت دیکھے بغیر بہت کچھ کہہ دیتے ہیں۔ اِس بار بھی اُنہوں نے شاید ایسا کیا ہو لیکن یہ فروعی مسئلہ ہے۔ بنیادی نکتہ صوابدید کا ہے، صوابدید بنتی کس کی ہے؟ اِس میں دو رائے ہو ہی نہیں سکتیں۔ صوابدید اِس معاملے میں خالصتاً وزیراعظم کی ہے۔
یہ بھی دیکھا جائے کہ اِن معاملات میں عمران خان نے کب 'ناں‘ کی ہے۔ ہر بات تو مانی ہے حتیٰ کہ پھبتیاں بھی سہنی پڑی ہیں کہ اِلیکٹڈ نہیں سلیکٹڈ وزیراعظم ہیں۔ ہِز ماسٹرز وائس کے لقب سے بھی اِنہیں نوازا گیا ہے، محض اِس لئے کہ کسی بات سے انکار نہیں کیا۔ توسیع کا وقت آیا تو کچھ بھی کرسکتے تھے۔ سب کچھ اِن کے اختیار میں تھا لیکن اُنہوں نے توسیع کو ترجیح دی۔ تنقید بھی ہوئی کہ ایسا نہیں ہونا چاہئے تھا۔ عمران خان کی پرانی تقریروں کا حوالہ دیا گیا جن میں اُنہوں نے توسیع کے اصول کی شدید مخالفت کی تھی‘ لیکن عمران خان نہ صرف اپنی بات پہ قائم رہے بلکہ ایک قدم آگے گئے اور توسیع کا باقاعدہ ایک قانون پارلیمنٹ سے پاس کروا دیا جس کے تحت آنے والے وقتوں میں ہرسربراہِ ادارہ اپنے آپ کو توسیع کا حقدار سمجھے گا۔
ایک اہم نکتہ نوٹ کرنا چاہئے۔ نواز شریف اور پی پی پی کی حکومت ہوتی اور یہ والا مسئلہ اٹھتا تو حکومت اب تک ہل کے رہ گئی ہوتی لیکن خان صاحب سکون اوراطمینان سے بیٹھے ہوئے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ پارٹی ممبران حالات سے ڈر رہے ہیں۔ اِس بات میں جتنی بھی صداقت ہو وزیراعظم خود رِی لیکسڈ نظر آتے ہیں، وہ اِس لئے کہ وہ بخوبی جانتے ہیں اُن کا مؤقف سو فیصد درست ہے اور بھول ہوئی ہے تو دوسری طرف سے۔ دیکھا نہیں کہ اپنی ایک تقریر میں خلیفہ عمرؓ اور خالد بن ولیدؓ کا تذکرہ کیسے کیا؟ اپنے آپ کو کس روپ میں دیکھ رہے ہیں وہ کہنے کی ضرورت نہیں۔
ہم فوج میں تھے تو ایک مقولہ ہمیں اکثر یاد دلایا جاتا تھا۔ مقولہ انگریزی میں ہے، 'never reinforce failure' یعنی ناکامی یا غلط فیصلے کو کمک نہیں پہنچانی چاہئے۔ بھول ہو جاتی ہے اور پاکستان جیسے سیاسی ماحول میں اکثر ہو جاتی ہے۔ دانشمندی کا تقاضا البتہ یہی ہے کہ جب غلط فیصلے کا احساس ہو جائے تو پھر ایک دو قدم پیچھے ہٹنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہونا چاہئے۔ ویتنام میں شکست کا احساس امریکہ میں پایا جاتا ہے۔ افغانستان میں امریکہ کو شرمندگی اٹھانی پڑی ہے۔ اِن مثالوں کے مقابلے میں ہمارا مسئلہ تو بہت چھوٹا ہے۔ بگاڑ اناپرستی پیدا کرتی ہے۔ علاج اناپرستی کا ضروری ہے۔