تنقید الگ چیز ہے اور عمران خان کے خلاف کارکردگی کی بنا پر لمبی چوڑی چارج شیٹ مرتب کی جا سکتی ہے لیکن کوئی بتائے تو سہی کہ یہ جو ناٹک عدم اعتماد والا چل رہا ہے اِس کا کیا جواز ہے؟ نواز شریف، آصف زرداری اور مولانا فضل الرحمن کے دکھ تو سمجھ میں آتے ہیں۔ عمران خان نے اِنہیں خوب رگڑا دیا ہے۔ نواز شریف اور آصف زرداری کی قومی امور پر اجارہ داری کو عمران خان نے ختم کیا۔ کوئی اور یہ کام نہیں کر سکتا تھا۔ پنجاب میں تو نواز شریف کا کوئی مقابلہ نہ تھا، وہ عمران خان نے کیا اور نواز شریف کو مات بھی دی۔ یہ کیا کم دکھڑا ہے؟ اور پھر عمران خان نے اِن دو خاندانوں کی مبینہ کرپشن کی کہانیوں کو عوام کے حافظے میں زندہ رکھا۔ آپ کو کوئی روزانہ کی بنیاد پر چور اور ڈاکو کہے تو یہ زخم بھولے نہیں جاتے۔ اور جہاں تک مولانا کا تعلق ہے اُن کو بھی آوازے لگا لگا کر عمران خان جتنا خراب کر سکتے تھے وہ انہوں نے کیا۔ تو یہ سارے دکھ اور زخم سمجھ میں آتے ہیں۔
لیکن جو بات سمجھ میں نہیں آتی وہ یہ ہے کہ اِن تینوں کو ہمت کہاں سے ملی۔ وٹامن کا ٹیکہ اِنہیں کہاں سے لگا؟ عمران خان کہہ رہے ہیں کہ در پردہ قوتیں اِس سارے کھیل کے پیچھے ہیں۔ امریکہ کا نام اُنہیں نہیں لینا چاہئے تھا‘ لیکن اُنہوں نے لے لیا۔ عالمی سازش والی کہانی میں کوئی حقیقت ہے یا نہیں‘ لیکن ایک بات تو واضح ہے کہ یہ جو تین اکابرین عمران خان کے پیچھے لگے ہوئے ہیں اِنہیں کسی نے تو حوصلہ فراہم کیا۔ عمران خان سے جو لوگ ٹوٹے ہیں وہ بھی اِس لئے ٹوٹے کہ اُنہیں یقین دلایا گیا کہ عمران خان کا کھیل ختم ہو رہا ہے۔ یہ وثوق کہاں سے آیا اور کس نے مہیا کیا؟
یہ کہنا تو بڑا آسان ہے کہ جو کچھ ہو رہا ہے‘ جمہوریت کا حصہ ہے اور نون لیگ، پیپلز پارٹی اور مولانا کی پارٹی کا جمہوری حق ہے کہ وہ چاہیں تو قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد لا سکتی ہیں‘ لیکن یہ اِتنی سادہ سی بات بھی نہیں۔ تین سال سے تو یہ زعما کچھ کر نہ سکے، اب اچانک اِن میں کون سا زور آ گیا ہے کہ بظاہر ایسا ہی لگتا ہے کہ قومی اسمبلی میں عمران خان اپنی اکثریت کھو چکے ہیں؟ یہ درست ہے کہ عمران خان سے غلطیاں ہوئیں، کس حکمران سے نہیں ہوتیں، لیکن عمران خان کی مثبت باتیں بھی ہیں۔ یہ بھی ماننا پڑے گا کہ بطور حکمران خارجہ پالیسی کے میدان میں اُنہوں نے کوئی چَول نہیں ماری‘ اُن کی کارکردگی اچھی رہی ہے۔ جیسے نواز شریف کرتے تھے عمران خان پی آئی اے کے جہاز پکڑ کر اِدھر اُدھر کی فضول سیریں نہیں کرتے رہے۔ یہ منظر تو ہم سب نے دیکھا کہ نوازشریف کی ملاقات جب صدر اوبامہ سے ہو رہی تھی تو چند جملے ادا کرنے کیلئے نوازشریف ایک پوری تھدی کاغذوں کا سہارا لے رہے تھے۔ کاغذ اِدھر اُدھر پلٹ رہے تھے لیکن پھربھی نروس سے لگ رہے تھے۔ چَول ایسی چیز کو کہتے ہیں اور ایسی حرکت کے مرتکب کبھی عمران خان نہیں رہے۔ جہاں تک کرپشن کی بات ہے طرفدار تو کبھی مانتے نہیں لیکن دنیا جانتی ہے کہ شریف زادوں اور زرداریوں کے پاس پہلے کیا تھا اور اقتدار میں آئے تو کیا بن گئے۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں، قوم نے اِن کے عروج کی داستان اپنی آنکھوں سے دیکھی ہے۔ اِن کی اولادیں اب کہتی پھرتی ہیں کہ ہمارے باپ بڑے صاف تھے اور کرپشن تو اُن کے نزدیک سے کبھی نہیں گزری لیکن ہم جانتے ہیں‘ قوم جانتی ہے کہ اصل کہانی کیا ہے۔ عمران خان کا بڑا قصور یہی بنتا ہے کہ اِن دو خاندانوں کو للکارا اور نیچا دکھایا‘ لیکن پھر وہی سوال کہ عدم اعتماد کی تحریک میں زور کہاں سے آیا؟
ذاتی طور پر میں عمران خان کا کوئی مداح نہیں ہوں۔ کالموں اور ٹیلی ویژن پر ہم نے عمران خان پر بھرپور تنقید کی ہے۔ پھبتیاں کسنے کا موقع آتا تووہ بھی بھرپور طریقے سے کرتے‘ لیکن اِس کا یہ مطلب تو نہیں کہ تحریک عدم اعتماد لاکر پوری سیاسی بساط ہلا دی جائے۔ جن تین زعما کے نام لئے گئے ہیں اُن کو ذاتی نقصان عمران خان نے پہنچایا ہوگا‘ لیکن قوم کا نقصان تو عمران خان نے نہیں کیا۔ اگر ان کے مخالف ہیں تو ان کے حمایتیوں کی بھی کوئی کمی نہیں۔ یہ ہم جلسوں میں دیکھ چکے ہیں خاص طور پر پریڈ گراؤنڈ اسلام آباد والا جلسہ جو اسلام آباد کی تاریخ میں سب سے بڑا اکٹھ تھا۔ سال ڈیڑھ سال الیکشن کو رہ گئے تھے، اُن کا انتظار کیا جاتا‘ لیکن یہ جلدی جو ہم دیکھ رہے ہیں یہ کہاں سے آئی؟
بہرحال نوازشریف، آصف زرداری اور مولانا لگے ہوئے تو ہیں لیکن اِن کے پاس کچھ کہنے کو نہیں۔ اب تک یہ بھی واضح نہیں کرسکے کہ تحریک عدم اعتماد اِس وقت لانا اِتنا ضروری کیوں تھا۔ لے دے کے اِن کی زبانوں سے مہنگائی کا راگ نکلتا ہے۔ میں دیہات کا رہنے والا ہوں اور حلفاً کہہ سکتا ہوں کہ عمران خان کے دورِ حکومت میں کسان کو بہت فائدہ پہنچا ہے اور زراعتی طبقے کی جیبوں میں پیسہ آیا ہے۔ مہنگائی ضرور پرابلم ہے، اِس سے کون انکار کر سکتا ہے لیکن اِس تحریک عدم اعتماد کا پھر بھی کوئی جواز نہیں بنتا۔ اور یہ جو عمران خان کو ہٹانے میں لگے ہوئے ہیں یہ چہرے تو سارے جانے پہچانے ہیں۔ قوم نے اِنہیں آزمایا ہوا ہے۔ یہ سیاسی نووارد نہیں ہیں، مولانا کو چھوڑ کر نون لیگ اور پیپلز پارٹی والے بار بار اقتدار میں رہ چکے ہیں۔ جہاں تک مولانا کا تعلق ہے اُن کی اپنی کہانیاں ہیں جن کو دہرانے کی یہاں کوئی ضرورت نہیں۔ عمران خان کی حکومت گر گئی، وہ منظر سے ہٹ گئے، تو کیا قوم نے پھر شریف زادوں اور زرداریوں کے راج کو بھگتنا ہے؟ اِس کا مطلب ہے کہ جو اُن کے خلاف مقدمات ہیں وہ سب ختم ہو جائیں گے، اِ ن کی سلیٹ صاف ہو جائے گی، اور یہ پھر اُسی کام میں لگ جائیں گے جس کے وہ ماہر ہیں۔ کیا قوم کی قسمت میں یہی ہے؟
اِس سے کوئی انکار نہیں کہ عمران خان نے بہت سی سیاسی غلطیاں کیں۔ ایک تو اسد عمر کو اپنا پہلا وزیر خزانہ بنایا جسے معیشت کی الف بے نہیں آتی تھی۔ اُن کی ناپختگی نے خاصا نقصان پہنچایا۔ دوسرا عمران خان نے پنجاب میں جو وزیراعلیٰ لگایا، اس کی صوبے کی سیاست پہ وہ گرفت نہ تھی جو ہونی چاہئے تھی۔ جہانگیر ترین اور علیم خان پرانے تحریکیے تھے اور سالہا سال عمران خان کے ساتھ رہے۔ اِن کو ناراض نہیں ہونا چاہئے تھا، یہ عمران خان کی غلطی تھی۔ پھر طرح طرح کے غیر منتخب فنکاروں کو اہم عہدوں پہ بٹھا دینا۔ ایسے لوگوں نے کیا فائدہ پہنچانا تھا؟ الٹے اپنے منتخب لوگ ناراض ہوئے۔ یہ خان کی چند ایک سیاسی غلطیاں تھیں‘ لیکن سیاسی میدان میں جو مزہ عمران خان نے شریف زادوں اور زرداریوں کو چکھایا وہ اور کوئی نہیں کر سکتا تھا۔ ایک متبادل کے طور پر عمران خان اُبھرے اور پاکستانی سیاست کا رخ موڑ دیا‘ لیکن ایسے عناصر بھی عمران خان سے ناراض ہوئے جن کی ناراضی کا کوئی جواز نہ تھا۔ یہ جو ایک ادارے کی تقرری والی بات تھی اِس میں عمران خان کا مؤقف درست تھا کہ اگر تقرری کی صوابدید میری ہے تو پھر جو بھی فیصلہ کرنا تھا میرے سامنے تو لایا جاتا۔ اگلوں نے خود ہی فیصلے کا اعلان کر دیا۔ بالآخر ناراضی ہو گئی۔ یہی ناراضی تو باعثِ وداع نہیں؟