صحیح معنوں میں سپریم کورٹ کا درست فیصلہ ہے۔ اتنی بڑی شرارت جو عمران خان نے کی تھی اور جس پر ہم جیسوں جو جذبات میں جلد سے پہلے بہہ جاتے ہیں نے تالیاں بجائیں۔ اس کا علاج وہی تھا جو سپریم کورٹ نے کیا ہے۔ عمران خان اِس ملک کو پتا نہیں کہاں سے تحفے کے طور پر ملے ہیں۔ اپنے بارے میں بھی اُنہیں غلط فہمی ہے، اِسی لیے اِس مصنوعی بحران میں بے وقوفی پر بے وقوفی کرتے گئے۔ سیاسی نقصانات ہوتے رہتے ہیں لیکن اگر لیڈروں میں تھوڑی سی بھی گریس ہو تو خندہ پیشانی سے برداشت کرتے ہیں‘ اور پھر موقع آنے پر کایا پلٹنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اکثریت خود سے قائم نہ رکھ سکے۔ وزارت عظمیٰ جا رہی ہے تو کس طوفان نے ملک کو آن گھیرنا تھا‘ لیکن آپ سمجھ بیٹھے کہ قوم اور ملک کیلئے ناگزیر ہیں، اِس لیے جو چاہوں کرسکتا ہوں۔
ایسی سوچ صرف تکبر نہیں خناس ذہنیت کی عکاسی کرتی ہے۔ ہم بھی تھے جنہوں نے جذبات میں بہتے ہوئے ڈپٹی سپیکر قاسم سوری کی رولنگ کی داد دی کہ کیا مردوں والا کام کیا ہے۔ ہم جیسوں کا پرابلم یہ ہے کہ شریفوں اور زرداریوں کو اِس ملک کا نجات دہندہ نہیں سمجھتے اور نہ کبھی سمجھ سکتے ہیں۔ جب اوپر شہباز شریف وزیراعظم بننے جا رہے تھے اور نیچے پنجاب میں حمزہ شہباز وزیراعلیٰ تو ہمارے لیے یہی کافی تھا کہ جذبات میں بہہ جاتے۔ اور پھر جب قاسم سوری کی رولنگ آئی تو ہم نے نہ آئین کو دیکھا‘ نہ سیاسی اخلاقیات کو، ہمارا مؤقف تھا کہ شریفوں اور زرداریوں کا یہی علاج ہے‘ لیکن پانچ دن میں ثابت ہو گیا کہ علاج بیماری سے زیادہ مہلک تھا۔ پھر جو ہوا قوم کے سامنے ہے۔ عمران خان عزت کا راستہ بھی اپنا سکتے تھے لیکن اپنی خاص ذہنیت کی وجہ سے عزت اور ذلت کے فرق کو سمجھ نہ سکے اور اب جو مرضی تقریریں کرتے رہیں بین الاقوامی سازش کا جتنا ڈھنڈورا پیٹتے رہیں‘ رسوائی اُن کے حصے کا سامان بنی ہے۔
پاکستان کی تاریخ میں کسی سیاسی جماعت نے اِتنی بڑی بیوقوفی نہیں کی اور کسی سیاسی جماعت کو اِتنا بڑا طمانچہ نہیں پڑا۔ رہ گئی بین الاقوامی سازش تو اِن پی ٹی آئی والوں کو کچھ ندامت آنی چاہئے۔ سارے بیانیے کی بنیاد ہی یہ تھی کہ اپوزیشن کے لیڈروں سے امریکی سفارتکار ملتے رہے۔ اِن افلاطونوں کو کون سمجھائے کہ سفارت کاروں کا کام ہوتا ہے سیاست دانوں اور رائے عامہ بنانے والوں سے ملنا۔ جتنا ہمارے لیڈروں سے امریکی سفارتکار ملیں ہوں گے اُس سے زیادہ تو مجھ خاکسار سے ملتے تھے جب میرا قیام اسلام آباد میں ہوتا تھا۔ اپنی ضیافتوں میں ہمیں مدعو کرتے تھے اور موقع ملنے پر ہم بھی امریکی سفارتکاروں کو اپنے گھروں میں مدعو کرتے تھے۔ امریکی تو ایک طرف رہے میرا ملنا جلنا ہندوستانی سفارتکاروں سے بھی رہتا تھا۔ جنرل ضیاء الحق کا زمانہ تھا چنانچہ اِتنی احتیاط تو ضرور کرتے کہ ہندوستانی سفارتکاروں کو اپنے گھر نہ بلاتے لیکن اُن کے گھروں میں ہمارا آنا جانا رہتا تھا۔ اُس سے کیا ہم کسی بین الاقوامی سازش کا حصہ بن گئے تھے؟ اور یہاں ہمارے تحفے میں ملے وزیراعظم ہیں کہ کسی چیز کی پروا کئے بغیر سازش سازش کا ڈھول پیٹ رہے ہیں۔ امریکہ سے ہمارے تعلقات اِس وقت کوئی مثالی نہیں لیکن مزید خراب ہوتے ہیں تو اُنہیں کوئی پروا نہ رہی۔ کرسی کے چکر میں کرسی کو بچانے کیلئے ہر لایعنی الزام لگاتے رہے۔ یہ تو اچھا ہوا کہ سپریم کورٹ نے اِس تماشے کو بروقت ختم کرڈالا نہیں تو پتا نہیں کیا کچھ کہتے پھرتے۔
لہٰذا جو ہوا درست ہوا۔ قومی مفاد اِسی کا متقاضی تھا۔ اکثریت قائم نہ رکھ سکے تو ہمارا قصور تھا؟ سیاسی سمجھ بوجھ ہوتی تو تھوک کے حساب سے ہرایک کو ناراض نہ کرتے۔ جہانگیر ترین مبینہ طور پر کرپٹ نکلے تو پہلے بھی کرپٹ ہوں گے، پھر اُن کے جہاز پر سواریاں کیوں لیتے پھرتے تھے؟ بھٹو سے بڑے سیاستدان آپ نہ تھے نہ ہوسکتے ہیں۔ 1970ء کے انتخابات میں بھٹو نے تو کسی پرائیویٹ جہاز کی سواریاں نہ کی تھیں۔ اُس زمانے کی سڑکیں بھی اِتنی عمدہ نہ تھیں۔ وہ چھوٹے سے چھوٹے مقام پر بذریعہ کار سفر کرتے تھے۔ ہمراہ چند گاڑیاں ہوتیں، مصطفی کھر کار چلا رہے ہوتے اور یوں بھٹو نے ملک کا کونا کونا چھان مارا۔ علیم خان اگر مبینہ طور پر کرپٹ نکلے تو پہلے بھی ہوں گے، پھر اُنہیں استعمال نہ کیا جاتا۔ اور یہ بیچارے راجہ ریاضوں کا کیا قصور تھا؟ انہیں کس امریکی سفارتکار نے ورغلایا تھا؟ حلقوں کے سیاست دان کیا چاہتے ہیں؟ یہی کہ انہیں کچھ عزت ملے اورحلقوں کے مسائل میں اُن کی بات سنی جائے۔ جب یہ آپ کرنہیں سکے تو باغیوں اور منحرفین نے تو پیدا ہونا تھا۔ جب آپ کے رویے نے ہی ایسی صورتحال پیدا کی توپھر رونا کاہے کا؟ آپ نے ایسے لوگوں کی بے عزتی میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ اُنہیں موقع ملا تو انہوںنے بھی آپ کے ساتھ ہاتھ کردکھایا۔ معاملہ برابری کا ہے۔
اِس تناظر میں اٹک کے میجر طاہر صادق کا ذکر کئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ میجر طاہر نے پی ٹی آئی کو اٹک سے جتوایا لیکن عمران خان نے انہیں خراب کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیا‘ لیکن پی ٹی آئی پہ برا وقت آیا تو اپنی ناراضی کو ایک طرف رکھ کر میجر صاحب پی ٹی آئی کے ساتھ کھڑے رہے۔ اِسے انسانیت کہتے ہیں لیکن جو ہمارے مہربان چوہدری پرویز الٰہی نے کیا‘ اُنہوں نے توکمال کردکھایا۔ پنجاب کی چیف منسٹری کیلئے ہرگھاٹ کا پانی پینے کی کوشش کی۔ ہر ایک سے لمبے لمبے مذاکرات کیے اور آخر ہاتھ کیا آیا ایک گھاٹے کا سودا۔ اور آپ اب رسوائی سمیٹنے جا رہے ہیں حمزہ شہباز کے ہاتھوں۔ یہ دن بھی آنا تھا۔ واقفانِ حال ہمیں بتاتے ہیں کہ حمزہ شہباز کوئی پرچون کا بھی سودا ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ اور ایسا شخص جس کی یہ شہرت ہو پنجاب میں بڑا معرکہ سر کرنے جا رہا ہے۔ چلیں، مقدر کے فیصلوں کو کون جھٹلا سکتا ہے؟
رہ گئی بات کہ عمران خان کیا کریں گے؟ تو جو بھی کریں‘ قوم کی جان چھوڑیں۔ اُن کی فضول کی تقریریں سن سن کے کان پک چکے ہیں۔ مزید سننے کی استطاعت نہیں۔ خالی گھڑے میں پتھروں کوآپ کھنگالتے رہیں پتھروں کی آواز ہی آئے گی۔ عمران خان سے وہی لایعنی باتیں کرنے کی توقع کی جاسکتی ہے جو وہ کرتے آئے ہیں۔ کچھ سمجھ نہ آئے تو ریاست مدینہ کا ذکر چھیڑ دینا، اسلاموفوبیاکی باتیں کرنی اور ہاتھ میں تسبیح ہلاتے پھرنا۔ اگر اِسے انقلابی سیاست کہتے ہیں تو اِس کے بغیر ہی ہم اچھے ہیں۔ جہاں تک عثمان بزدار کا تعلق ہے وہ کسی ذکرکے قابل ہیں؟ عثمان بزدار ایک حادثے کا نام تھا‘ جسے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کے ساتھ ہونا تھا۔ وہ حادثہ ہو چکا، اب جس حادثے کا نام حمزہ شہباز ہے اُس کا انتظار کرتے ہیں۔ شاید اِس ملک کے مقدر میں یہی لکھا ہے کہ حکمران محض نکمے یا راشی نہ ہوں بلکہ بیک وقت اِن میں یہ دونوں اعلیٰ صفات موجود ہوں۔ نکمے بھی ہوں اور پرچون کے سوداگر بھی۔
ہم پاکستانی غافل قوم ہیں۔ سری لنکا کے حالات دیکھ نہیں رہے؟ کچھ سمجھ بوجھ ہو تو اُن حالات سے عبرت لیں۔ لیکن نہیں، لگتا یوں ہے کہ ہم نے تہیہ کیا ہوا ہے کہ دوسرا سری لنکا بننا ہے۔ اُن کے پاس تیل خریدنے کے پیسے نہیں رہے۔ تیرہ تیرہ گھنٹوں کی لوڈ شیڈنگ ہو رہی ہے۔ کھانے پینے کی چیزوں کی وہ افراط زر ہے کہ ہمارے ہوش اڑ جائیں۔ مانگے کے پیسے اُن کو نہیں مل رہے اور ہمارے لچھن یہی رہے تو ہمیں بھی مانگے کے نہ ملیں گے۔ لیکن کسی کو کوئی پروا نہیں۔