الیکشن مہموں سے اور کچھ حاصل ہوا ہو یا نہیں ایک موقع میسر ہو جاتا ہے سارے علاقے کو دیکھنے کا۔ پہلے کبھی الیکشنوں میں حصہ لیا تو ایسا ہوتا تھا اوراس بار بھی ہو رہا ہے۔ چکوال سالٹ رینج کے قدموں میں واقع ہے اورپورا سالٹ رینج ایسی منظر کشی پیش کرتا ہے کہ لگتا ہے کہ جب دنیا بنی تواس پر خاص توجہ دی گئی تھی۔ایک طرف تو پہاڑ ہیں لیکن پہاڑوں کے نیچے بھی جو علاقہ ہے ہموار نہیں۔کہیں وادی آ جاتی ہے‘ کہیں کوئی نالہ پھر ایک دم زمین ہموار دکھائی دیتی ہے۔پہاڑ ایسے ہیں کہ دل دہل جاتا ہے‘ وادیاں ایسی ہیں کہ انسان دیکھتا ہی رہ جاتا ہے۔
پہلے الیکشنوں میں بھی ووٹ مانگنے نکلتے تھے ‘کہیں منظر اچھا لگتا تومیں تعریف کرنے بیٹھ جاتا تھا۔ کوئی پرانا درخت نظر آتا تومیں اُس کو دیکھنے لگتا‘ ساتھ بیٹھے ساتھی عجیب نظروں سے دیکھنے لگتے اور ضرور یہ سوچ رکھتے ہوں گے کہ عجیب انسان ہے ‘ ووٹ مانگنے نکلے ہیں اوریہ پتا نہیں کیا فضول باتیں کر رہا ہے۔ اب کی بار کوشش ہوتی ہے کہ رات گاؤں بھگوال میں گزرے اور صبح چکوال جایا جائے جہاں ہمارا شہر کے عین وسط میں الیکشن دفتر ہے۔ گاؤں سے نکل کر نیلہ اوڈھروال سڑک پر آتے ہیں تو عجیب منظر ہوتا ہے۔ ساتھ جو گاؤں ہیں صبح کے وقت مردوخواتین ریڑھوں پر سڑک پر آ رہے ہوتے ہیں۔مال مویشی بھی نکلتا ہے جو چراہ گاہوں کی طرف جارہا ہوتا ہے۔سڑک اچھی ہے اور یہ منظر دیکھتے دیکھتے دل میں خواہش اُٹھتی ہے کہ کاش ہمارا بھی کچا مکان ہوتا اور ہم بھی گائے بکری لے کر نہار منہ کھیتوں کی طرف جا رہے ہوتے۔اُسوقت میں نے کان میں ہیڈ فون لگائے ہوتے ہیں اور ریڈیو سیلون سے پرانے گانے سن رہا ہوتا ہوں۔ صبح کا منظر اوراوپر سے یہ گانے ‘ عجیب سی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ اس سڑک پر ڈھوک پروانہ سے چکوال کی طرف چلیں توبائیں ہاتھ منظر کچھ یوں ہوتا ہے کہ زمین ڈھلوان میں جارہی ہوتی ہے ‘ کہیں کہیں چھوٹی چھوٹی وادیاں دکھائی دیتی ہیں اور اُفق تک سب کچھ آنکھ کے سامنے آیا ہوتا ہے۔ پتا ہی نہیں چلتا اور ہم مہروپیلو‘ لکھوال کے اڈے ‘ چک بھون اورمینگن سے گزرتے ہوئے اوڈھروال پہنچ جاتے ہیں۔وہاں سے ہمارا شہر شروع ہو جاتا ہے۔
چکوال سے جو سوہاوہ سڑک جاتی ہے وہ اب دو طرفہ چوڑی ہوچکی ہے۔ راجہ پرویزاشرف جب کچھ دنوں کیلئے وزیراعظم بنے تھے تو اُنہوں نے چکوال سوہاوہ اورچکوال مندرہ روڈ کیلئے فنڈز مختص کئے تھے۔ دونوں سڑکوں سے سفر بہت آرام دہ ہوچکا ہے۔ میں تو جب ان سڑکوں پر سواری کے مزے لے رہا ہوتاہوں توراجہ پرویز اشرف کو یاد کرتا ہوں‘ چکوال پر یہ اُن کا احسان تھا۔یہ سوہاوہ والی سڑک بھی کیا کمال کی ہے‘ چکوال سے جارہے ہوں تودائیں طرف کچھ فاصلے پر دلجبہ کے پہاڑ نظر آتے ہیں۔ یعنی سڑک اور پہاڑوں میں کچھ فاصلہ ہے۔ دور کھیت ختم ہوتے ہیں تودلجبہ کے پہاڑ شروع ہو جاتے ہیں۔ جہاں بھی ہوں پہاڑ خوبصورت ہی ہوتے ہیں لیکن یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتا کہ دلجبہ کے پہاڑوں کی اپنی ہی ایک خوبصورتی ہے۔ دو تین بار پہاڑوں کے اوپر جانے کا اتفاق ہوا۔ اوپر ہی گوشت پکایا جاتا اورپھر رات کے اندھیرے میں یا چاند کی چاندنی میں ہم چھوٹی سی پکنک منا لیتے۔ نیچے پورا علاقہ نظروں کے سامنے ہوتا۔ یہ تو وہاں جاکے ہی پتا چلتا ہے کہ کتنا مسحور کن نظارہ اُن چوٹیوں سے نظرآتا ہے۔
صرف ایک ایسا نظارہ چکوال میں ہو پھر تو آپ کہیں لیکن چکوال کے پہاڑی علاقے ایسے نظاروں سے بھرے پڑے ہیں۔ وادیٔ کہون کلرکہار سے چوآ سیدن شاہ تک پھیلی ہوئی ہے۔ حسن اس کا ایسا تھا کہ جنت کے کسی ٹکڑے کا شائبہ ہوتا تھا۔ دائیں اور بائیں ہلکے پہاڑ جن پر مختلف گاؤں واقع ہیں‘ دوالمیال ‘ ڈلوال اوردیگر اسی قسم کے گاؤں۔ان ہلکے پہاڑوں کے بیچ میں وادی ہے جس میں سے ہماری سڑک گزرتی ہے۔ لیکن یہ تب کا نظارہ تھا جب یہاں سیمنٹ فیکٹریاں نہیں بنی تھیں۔ پھر وہ منحوس دن آیا جب سیمنٹ فیکٹریوں کو اجازت ملی۔ تین بڑی فیکٹریاں کھڑی ہو گئیں جنہوں نے اس وادی کے قدرتی حسن کو تباہ کرکے رکھ دیا ہے۔ایک تو لائم سٹون کیلئے پہاڑوں کی کٹائی اوردوسرا فیکٹریوں کی وجہ سے سینکڑوں ٹرکوں کی روزانہ آمد۔ لائم سٹون کے نکالنے سے پہاڑ کسی کام کے نہیں رہ جاتے‘ یوں لگتا ہے جیسے زندگی کے آثار ان میں ختم ہو گئے ہوں۔ فیکٹریوں کی روزانہ کی پروڈکشن ہزاروں ٹنوں میں ہے جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کتناپتھر ‘کتنا پانی اورخاص قسم کی مٹی سیمنٹ پروڈکشن کیلئے استعمال ہوتی ہے۔وادی تو اب بھی ہے اورکچھ حسن برقرار ہے لیکن زیادہ بربادی کے حوالے ہو گیا ہے۔ پاکستان اپنی ضرورت سے زیادہ سیمنٹ بنا رہا ہے۔ اس کے باوجود نئی سیمنٹ فیکٹریوں کی اجازت دی گئی ہے۔عقل یا ہوش مند ی کی بات ہمارے نام نہاد حکمرانوں کو کون سمجھائے۔ سیمنٹ ایک ضروری چیز ہے‘ اس کے بغیر گزارہ نہیں لیکن اس کی پروڈکشن میں قدرتی خوبصورتی کی تباہی بھی پنہاں ہے۔ اس لئے ضرورت تو پوری ہونی چاہئے لیکن ضرورت سے زیادہ کا کوئی جواز نہیں بنتا۔ لیکن ہمارے حکمران اور بابو ہیں جنہوں نے بارہ چودہ اور فیکٹریوں کی راہ ہموارکر دی ہے۔
بہرحال اس بربادی کے باوجودسالٹ رینج میں اب بھی بہت حسن پھیلا ہوا ہے۔جیسے چکوال کی خوبصورتی پہاڑوں سے الگ بھی ہے یہاں کا میدانی علاقہ متواتر ہموار نہیں اور یہی اس علاقے کے حسن کا ایک راز ہے۔چوآسیدن شاہ سے اوپر بشارت اور آڑہ کے قصبے ہیں۔ دائیں اوربائیں جانب پہاڑ ہیں اوراُن کے درمیان گہری وادیاں۔ کلرکہار کے اوپر جائیں توبوچھال کلاں کے اُس طرف خوبصورت علاقے ہیں۔ یہاں بھی ایک عدد سیمنٹ فیکٹری لگنے کی نوید سنی تھی۔ اللہ خیر کرے ‘ آسمان والا ہی کچھ کرسکتا ہے ہمارے بابوؤں سے خیرکی کیا توقع؟ہرعلاقہ منفرد ہوتا ہے‘ ہرخطۂ زمین کا اپنا حسن ہے۔ لاہور کو دیکھ لیجئے ‘ اس کے گردونواح کتنا خوبصورت دیہاتی علاقہ ہوتا تھا لیکن وسیع اراضی ہاؤسنگ سوسائٹیوں کی نظر ہو چکی ہے۔یہاں کوئی قانون ہی نہیں کہ زرعی زمینیں ایسی تباہی سے بچ سکیں۔ دریائے راوی پر وہ مقام جو سائفن کہلاتا ہے جہاں سے بی آر بی نہر کو دریائے راوی کے نیچے سے گزارا جاتا ہے وہاں 1971ء کی جنگ میں میری تعیناتی تھی۔ کشتی پر جب بھی دریاکو عبور کرتے تو حسرت بھرے خیال دل میں اُٹھتے کہ دریاکے کنارے اک گھرہونا چاہئے۔کہنے کا مطلب یہ کہ پنجاب کا ہرعلاقہ اپنی خوبصورتی رکھتا ہے۔کہیں پہاڑوں کا جادو‘ کہیں ریگستانوں کی گل فشانی۔ ویسے تو انسان گھربیٹھا رہتا ہے لیکن الیکشنوں کا موسم ایسا ہوتا ہے کہ مجبوراً گھر سے باہر نکلنا پڑتا ہے۔ جیسے عرض کیا‘ اور کچھ فائدہ ہو نہ ہو علاقے کی سیر ہو جاتی ہے۔اوراب کی بار ایک یہ بھی ہے کہ مشقت کے حوالے سے یہ الیکشن بڑا آسان ثابت ہو رہاہے کیونکہ مجھے اتنا لوگوں کے پاس جانا نہیں پڑرہا جتنا کہ لوگ ہمارے پاس آ رہے ہیں۔ یہ مخصوص حالات کی مہربانی ہے۔دو تین الیکشن میں لڑ چکا ہوں یہ چوتھا ہے جس میں قسمت آزمائی ہو رہی ہے لیکن اس لحاظ سے یہ الیکشن پہلے کے تمام انتخابا ت سے یکسرمختلف ہے۔ لوگوں کو قائل نہیں کرنا پڑرہا‘ اُنہوں نے رائے بنائی ہوئی ہے۔بہت ہیں جو اپنی صفو ں کو چھوڑ گئے ‘ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں اب وہ بڑے پچھتاوے میں ہوں گے۔ جہاں عوامی رائے اتنی مضبوط ہوچکی ہو وہاں دھاندلی وغیرہ مشکل ہو جاتی ہے۔جب پنجاب کے ضمنی انتخابات ہوئے تھے بھرپور کوشش کی گئی تھی کہ ان کو کنٹرول کیا جائے‘ پولنگ بوتھوں پر عوامی زوراتنا تھا کہ دھاندلی کا کوئی سوچ بھی نہ سکتا تھا۔ میرا خیال ہے اب بھی یہی کیفیت ہو گی۔ تدبیریں سوچی گئی ہوں گی لیکن مجھے یقین ہے کچھ ہونہ سکے گا۔