"AYA" (space) message & send to 7575

قتل کے بعدجفا سے توبہ

کیا مستحسن اوردلیر فیصلہ آیا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کا مقدمہ انصاف کے تقاضوں کے مطابق نہ تھا۔ بھٹو صاحب کی روح بھی مرزاغالب کا مصرع دہراتی ہوگی ' ہائے اُس زودپشیماں کا پشیماں ہونا ‘۔ اُن کی جماعت کو بھی دیکھئے‘ تاریخ کے اوراق سلجھا رہی ہے حالانکہ اُس سانحہ کا بدلہ لینا ہے توبھٹو کے جذبات کی عکاسی کرتے ہوئے اُن کی پالیسیوں پر کاربند ہوتی۔ یہ کیا کہ بیٹھے آپ طاقتوروں کی گود میں ہیں اورپرانے قصے سلجھانے لگے ہوئے ہیں۔ بھٹو سے بہت غلطیاں ہوئیں اور اگر اُن کے خلاف کوئی چارج شیٹ بنانی پڑے توبہت کچھ اُس میں ڈالا جاسکتا ہے‘ لیکن جب اُن کے اقتدار کاتختہ الٹا توپھر اُنہوں نے کوئی کمپرومائز نہیں کیا اورتب کے طاقتور حلقوں کی گود میں نہیں بیٹھے۔ طاقتور حلقوں کی انگلی پکڑ کر پیپلز پارٹی کو خیرات میں سیٹیں ملی ہیں اور اگر آصف علی زرداری صاحب پھر سے اس مسائل زدہ ملک کے صدر چنے گئے ہیں تووہ بھی طاقتوروں کی مہربانی سے۔ بھٹو کی یاد تازہ کرنی ہے توبھٹو کی للکار اپنائیے۔ یہ تماشا کیا کہ انگلی پکڑنا اوروں کی اور نعرے لگانا بھٹو کے ۔ لیکن آج کی پی پی پی کا یہی شعار ہے۔
(ن) لیگ کی کہانی بھی کچھ زیادہ مختلف نہیں۔ کہاں گئے وہ ووٹ کو عزت دو کے نعرے؟ گوجرانوالہ وا لا وہ جلسہ یاد نہیں جس سے لندن سے خطاب کیا تھا اور جس میں کہا تھا کہ دو مقتدر شخصیات کا ہم احتساب کریں گے۔ اب تو آپ اقتدار میں ہیں‘ کہاں گیا وہ احتساب اورکہاں وہ نعرے ؟ایسے لیڈروں نے کیا کرنا ہے‘ انہیں تو اپنی پڑی رہتی ہے۔ عدالتی نظام کے حوالے سے تازہ خبر تو قوم نے سُن لی ہے کہ میاں نوازشریف کے دونوں ہونہار فرزندان نے اپنے لیے عدالتی راستے صاف کرانے کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ سالوں سے عدالتی بھگوڑے تھے لیکن اب جب ان کی جماعت کیلئے موسم اچھا ہو گیا ہے تو ان میں بھی دلیری آ گئی ہے اور متعلقہ عدالتوں کے دروازوں پر دستک دے رہے ہیں۔
(ن) لیگ پر تو واجب ہو گیا ہے کہ ایک باقاعدہ یوم ِ تشکر منائے جس میں تمام حضرات اور بیگمات جو اسمبلیوں میں پہنچائے گئے ہیں وہ باجماعت سرجھکا کر مقتدرقوتوں کا شکریہ ادا کریں۔اندھیرے ساتھ نہ دیتے توگنتی کے چند افراد ہی ان کے اسمبلیوں میں پہنچتے۔ یہ تو اندھیروں کی کمال مہربانی ہوئی کہ چچا جان پھر سے وزیراعظم کی مسند پر براجمان ہو گئے ہیں اور بھتیجی پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کی چیف منسٹر بنا دی گئی ہے۔ایسے کرشمات یہاں ہی ہوتے ہیں۔ ووٹوں کا حساب کیا جائے تو(ن) لیگ پِٹ کے رہ جاتی لیکن ایسے مواقع پر سٹالن کا وہ لازوال قول یاد آتا ہے کہ ووٹ دینے و الوں سے زیادہ اہمیت ووٹ گننے والوں کی ہوتی ہے۔اور اس دفعہ تو ووٹ گننے والوں نے حیران ہی کردیا‘ انتخابات کا ہر پرچہ کچھ اور ہی کہانی بیان کررہا ہے۔ فارم 45 چیخ چیخ کر کچھ کہہ رہے ہیں‘ پہلے فارم 47کے نتائج کچھ اور آئے لیکن چونکہ ترتیب بن ہی نہیں رہی تھی تو 47کے فارموں کے ساتھ ایک نئی زورآزمائی کی مشق کی گئی اوراس بھونڈے انداز سے کہ جگ ہنسائی ہوگئی۔
ہم لاچاروں کا قصہ ہی سن لیجئے ۔پہلے جو نتائج الیکشن کمیشن کی طرف سے اَپ لوڈ کیے گئے اُس میں ہمارے لگ بھگ ایک لاکھ دو ہزار ووٹ دکھائے گئے۔ جن صاحب کو جتوانا مقصود تھا ان کے ایک لاکھ 15ہزار ووٹ لکھے گئے۔ پی پی پی کے امیدوار کو 74ہزارفرضی ووٹوں سے نوازا گیا‘ ٹی ایل پی کو 45ہزار ووٹ دے دیے گئے۔ یہ سارے اعداد الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پر دیے گئے۔ لیکن اب نئی ہنرمندی کے تحت میرے ووٹ ایک لاکھ دو ہزار سے ایک لاکھ 52 کر دیے گئے ہیں‘سرکاری امیدوار کو ایک لاکھ 15 سے ایک لاکھ 63پر لے جایا گیا ہے جبکہ پی پی پی امیدوار کے ووٹ گھٹا کر13ہزار کر دیے گئے ہیں۔ ٹی ایل پی کے 45سے 23ہزار ہو گئے ہیں۔ ہمارے حوالے سے 48پولنگ سٹیشنوں کے اعداد و شمار میں ہنرمندی دکھائی گئی ہے اور وہ بھی اس انداز سے کہ سادی آنکھ سے ہنرمندی نظرآتی ہے۔ کہیں ایک کو نو بنا دیا گیا ہے ‘ دو کا ہندسہ ہے تو بارہ کر دیا گیا ہے ‘ یعنی 48پولنگ سٹیشنوں کے نتائج میں کانٹ چھانٹ نہ صرف ہوئی ہے بلکہ صاف نظر آتی ہے۔ لیکن پوچھنے والا کون ؟ الیکشن کرانے کا ترددتو کیا گیا اوراس کا سہرا سپریم کورٹ کو جاتا ہے لیکن کچھ اس چیز کا خیال بھی کرلیا جاتا کہ الیکشن کرانے ہیں توڈھنگ سے کرائے جائیں۔ یہ جو ہوئے ہیں‘ وہ تو ایک مذاق تھا اورسونے پہ سہاگہ یہ کہ مذاق ختم ہونے کانام نہیں لے رہا۔ ہر روز نت نئے شگوفے چھوڑے جا رہے ہیں۔
لیکن لاچار جائیں تو جائیں کہاں؟ الیکشن کمیشن میں ہم سب نے درخواستیں تو جمع کروائی ہیں لیکن اُن کا بن کیا رہا ہے؟ ہرچیز سنی اَن سنی کی جا رہی ہے لیکن قوم کو تنبیہ بھی ہو رہی ہے کہ الیکشنوں کی شفافیت کے خلاف پراپیگنڈا محض شرپسند کررہے ہیں۔ قوم کے سامنے یہ سب کچھ ہوا ہے ‘ جنہوں نے ووٹ ڈالے اُن کی چیخ و پکار اُٹھ کھڑی ہوئی کہ ہمارے ووٹ گئے کہاں اور یہاں حکم جاری ہو رہا ہے کہ یہ سب پراپیگنڈا ہے اور اس پر کان دھرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔چلیں زندگی نے وفا کی توآج سے پانچ سال بعد ہم بھی ایک پٹیشن کسی عدالت میں دائر کر دیں گے کہ 2024ء کے الیکشنوں میں بڑادھاندلا ہوا تھا اوراُس وقت کسی نے مہربانی کی تو حکم آسکتا ہے کہ 2024ء کے الیکشنوں میں واقعی کچھ دال میں کالا تھا۔ اور ہم ہوئے توشکرانے کے کچھ آنسو بہا دیں گے اور کچھ لوگ ہمیں مبارک باد دینے آ جائیں گے کہ آپ کے حق میں بہت بڑا فیصلہ آ گیا ہے۔
اس ضمن میں جنرل یحییٰ خان کے حالاتِ زندگی یاد آتے ہیں۔ جب تک اقتدار میں رہے اُن کی حکمرانی بلاشرکتِ غیرے تھی۔ جو چاہا اُنہوں نے کیا۔ عوامی رائے کا فیصلہ نہ مانا گیا اورقومی اسمبلی کا اجلاس ڈھاکہ میں نہ بلایا گیا۔ ڈھاکہ اور دیگر شہروں میں باقاعدہ کریک ڈاؤن شروع ہوا اور گولیوں اور توپوں کی گھن گرج پورے صوبے میں سنائی دینے لگی۔ لیکن پوچھنے والا کون تھا؟اورماسوائے چند آوازوں کے مغربی پاکستان کے جو ہم لوگ تھے ہماری بھاری اکثریت بدھو بنی رہی۔ سانحہ یہ بھی ہے‘ جسے پی پی پی اب تک بھلانا چاہتی ہے ‘کہ جب ڈھاکہ میں خونریزی شروع ہوئی توبھٹو صاحب نے کہا کہ پاکستان بچ گیا ہے۔ لیکن بات یحییٰ خان کی ہو رہی ہے۔ مشرقی پاکستان کے حالات جیسے بھی رہے خان صاحب کی شاموں کی رعنائی میں کوئی کمی نہ آئی۔ یہ بھی یاد رہے کہ ڈھاکہ میں تاریخی سانحہ رونما ہونے کے باوجود یحییٰ خان اقتدارچھوڑنے کیلئے تیار نہ تھے۔ وہ تو بیچ میں آوازیں اُٹھنے لگیں تب وہ اقتدار چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔ بھٹو صاحب ملک کے نئے سربراہ بن گئے اوریوں جب موسم تبدیل ہوا تویحییٰ خان کے خلاف ایک پٹیشن دائر ہوئی جس کے فیصلے میں لکھا گیا کہ یحییٰ خان ایک غاصب تھا اور اقتدار میں رہنے کا اُسے کوئی حق نہ تھا۔ یہ فیصلہ چیف جسٹس حمود الرحمن صاحب کا تھا اور آج تک ایسے مجاہدِملت ملیں گے جو کہیں گے کہ بڑا دلیرانہ فیصلہ تھا۔
بہادری تو ہرحال میں بجا لیکن وقت پہ بہادری کی اور بات ہے۔ آج بھی بہت سے اہم اور نازک معاملات عدالتوں کے سامنے ہیں۔ امید نہ رکھنی چاہئے کہ کم از کم یہاں انصاف کے تقاضے پورے ہوں؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں